ماحول کا عالمی دن

محمود عالم خالد  پير 4 جون 2018

معلوم انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کرۂ ارض کئی مرتبہ موسمی تبدیلیوں کی زد میں آیا لیکن تبدیلیاں چونکہ فطری تھیں اس لیے زمین پر موجود زندگی نے ان تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے خود کو فطرت کے نئے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیا تھا۔ تاہم، آج کرۂ ارض جن موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے وہ خود انسان کی اپنی پیداکردہ ہیں اور یہ واقعہ معلوم انسان تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔

1750 کے صنعتی انقلاب سے شروع ہونے والی ترقی قدرتی ماحول کو آلودہ کرنے کی ابتدا تھی۔ 1824 میں فرانس سے تعلق رکھنے والے ماہر طبیعات جوزف فورنیر نے اپنے تحقیقی مشاہدے میں بتایا کہ فضا کی بناوٹ یا ساخت آب و ہوا پر اثرانداز ہوتی ہے۔ 1860 میں پروفیسر ٹائیڈل نے بھی اس حوالے سے تحقیقی مضامین لکھے۔ عظیم سوئیڈش سائنسدان سواتنے ارئیس کی ایک تحقیق جو 1896 میں منظرعام پر آئی، جس کو اس حوالے سے پہلی باضابطہ کوشش قرار دیا جاتا ہے، تحقیق میں بتایا گیا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ عالمی درجہ حرارت پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ سوئیڈش سائنسدان نے اپنی تحقیق میں جو نظریہ قائم کیا، اس کے مطابق زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہو تو آب وہوا گرم ہوجاتی ہے اور اگر یہ کم ہوجائے تو آب و ہوا سرد ہوجاتی ہے۔

اس ضمن میں 1883 سے 1912 کے درمیانی عرصے میں نیویارک ڈیلی، کیناس سٹی اسٹار، فلاڈیلفیا انکوائر سمیت کئی اخبارات میں ایسے مضامین شائع ہوئے جن میں بتایا گیا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے موسمیاتی تغیر اور درجہ حرارت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 1912 میں نیوزی لینڈ کے دو اخبارات ’’دوڈنی اوٹمیٹ ٹائمز اور ویٹ میٹ کیپرا گزٹ‘‘ نے اپنی ایک خبر میں واضح طور پر بتایا کہ معدنیات کوئلے اور جانوروں کے فوسل سے بننے والا ایندھن موسمیاتی تبدیلیاں لانے کا موجب بن رہا ہے، جو آگے چل کر آب وہوا پر تباہ کن اثرات مرتب کرے گا۔

100سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد آج کی دنیا ترقی کی انتہاؤں پر ہے تو دوسری جانب اس ترقی نے کرۂ ارض کی بقا پر ایک سوالیہ نشان بھی لگا دیا ہے۔ ترقی کے نام پر کیا جانے والا زہریلی گیسوں کا اخراج آج کی ترقی یافتہ دنیا کے سامنے سب بڑا چیلنج بن کر کھڑا ہے۔ دنیا بھر میں موسمی تغیرات مختلف اشکال میں تباہی مچا رہے ہیں۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کے مطابق فضا میں خارج کی جانے والی زہریلی گیسیں، جنھیں گرین ہاؤس گیس کہا جاتا ہے، میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح 65 فیصد ہے اور گلوبل وارمنگ کی بنیادی وجہ بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں سالانہ 37 بلین میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوتا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی اندازہ ہے کہ صنعتی انقلاب کے بعد سے اب تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح میں 34 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق تشویشناک امر یہ ہے کہ گرمی کے ریکارڈ ٹوٹ نہیں رہے بلکہ پاش پاش ہورہے ہیں۔ عالمی موسمیاتی تنظیم نے اپنی سالانہ رپورٹ ’’گرین ہاؤس گیس بلٹین‘‘ میں بتایا کہ 2015 میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فضا میں اوسط شرح 400 پی پی ایم تھی، جو بڑھ کر 2016 میں 403.3 پی پی ایم تک پہنچ گئی، جس کی بڑی وجہ کرۂ ارض پر رہائش پذیر انسانوں کی وہ سرگرمیاں ہیں جو ماحول کو آلودہ کررہی ہیں۔ عالمی تنظیم کے مطابق اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ماحولیاتی تحفظ کے پیرس معاہدے پر عمل درآمد ناممکن ہوجائے گا، جب کہ موجودہ صورتحال کے باعث رواں صدی کے آخر تک زمینی درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ گرین ہاؤس گیس بلٹین کے ذریعے 1750 سے لے کر آج تک فضا میں خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔

گرین ہاؤس گیسوں میں ہونے والے مسلسل اضافے کی وجہ سے دنیا بھر میں گرمی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کے مطابق گزشتہ 12 سال میں سے 11 سال 1850 کے بعد سے گرم ترین سال رہے، جن میں 2015 پہلے، 2016 دوسرے اور 2017 تیسرا گرم ترین سال قرار دیا گیا۔ درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آرکٹک پر ہزاروں سال سے جمی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ 2040 یا اس سے قبل آرکٹک کا علاقہ برف کے بغیر موسم گرما دیکھے گا۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے زمین کا ماحول بتدریج گرم ہوتا جارہا ہے جس کے سبب جنوبی ایشیا کے ملکوں کے کئی حصے انسانی آبادیوں سے محروم ہوجائیں گے۔ ماہرین کے مطابق ہولناک گرم لو آنے والی 2/3 دہائیوں میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں چلنا شروع ہوجائے گی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق شمالی چین، تاجکستان، پاکستان اور افغانستان میں درجہ حرارت 8 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا، جس کے باعث وسطی ایشیا قحط سالی کا شکار ہوسکتا ہے۔ بین الاقوامی ادارے میپل کرافٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک ارب 40 کروڑ افراد سیلاب اور زلزلوں جیسی قدرتی آفات کا سامنا کریں گے۔

اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے کھلی فضا میں کام کرنا مشکل ہوجائے گا، جس کا براہ راست اثر دنیا بھر کی معیشتوں پر پڑے گا۔ رپورٹ کے مصنف کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہماری روزمرہ کی زندگیوں پر اثر انداز ہوگا، جتنی زیادہ گرمی ہوگی، کام کرنے کی رفتار اتنی ہی کم ہوجائے گی، خاص طور پر مشرقی ایشیائی ملکوں میں اوقات کار میں 20 فیصد تک کمی واقع ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق 43 ملکوں جن میں زیادہ تر ایشیائی ممالک شامل ہیں، کو اپنی کل مجموعی پیداوار میں کمی کا سامنا ہوگا۔

5جون کو ماحول کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں شدید گرمی اپنے عروج پر ہے، بین الاقوامی رپورٹوں اور ماہرین کی آرا کے پس منظر میں تمام پیش گوئیاں حرف بحرف درست ثابت ہورہی ہیں، لیکن ہم من حیث القوم کسی بھی سطح پر ان مسائل کو حل کرنے یا ان میں کمی کے حوالے سے سنجیدہ نظر نہیں آرہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ موسم کی ہولناکیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کا نشانہ بھی ملک کے غریب عوام بن رہے ہیں۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔