اسٹریٹ چلڈرن نہیں، اسٹیٹ چلڈرن!

تنویر قیصر شاہد  پير 4 جون 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

اِس شاندار محفل میں بہت سے اخبار نویس بھی شریک تھے، ٹی وی اینکرز بھی، کالم نگار بھی اور سیاستدان بھی۔ رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں، جب کہ گرمی بھی عروج پر تھی اور نون لیگی حکومت کے بھی آخری دن تھے، نصف درجن کے قریب سیاستدانوں کا اس محفل میں آجانا حیرت انگیز تھا۔ خاص طور پر جب آنے والوں کو بخوبی معلوم تھا کہ وہ ایک ایسی مجلس میں شریک ہو رہے ہیں جو ملک بھر کے انتہائی پسماندہ، تہی دست اور غریب بچوں کی دلجوئی اور دستگیری کے لیے سجائی جا رہی ہے۔

تقریب کا اہتمام اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب، جسے طارق چوہدری صاحب کی صدارت میں ایک نیا رنگ رُوپ دیا گیا ہے، میں کیا گیا تھا۔ مہتمم سید ضیاء النور صاحب تھے۔ آپ عالمی شہرت یافتہ این جی او ’’مسلم ہینڈز‘‘ کے کنٹری ڈائریکٹر ہیں۔ پاکستان میں ’’مسلم ہینڈز‘‘ نے تعلیم، سماجی خدمات اور زلزلہ و سماوی آفات کے متاثرین کی اعانت کرنے میں نئی مثالیں قائم کی ہیں۔

اِس ادارے کے بانی سید لخت حسنین،بھیرہ شریف کی ایک منفرد شان کے حامل دینی ادارے کے فارغ التحصیل ہیں۔مفسرِ قرآن پیر کرم شاہ الازہری علیہ رحمہ کو وہ اپنا مرشد مانتے اور اُنہی کے قائم کردہ راستے کے ایک مخلص مسافر ہیں۔ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ’’مسلم ہینڈز‘‘ پیرومرشد قبلہ کرم شاہ الازہری علیہ رحمہ کی دعاؤں کا ثمر اور نتیجہ ہے۔ پیر صاحب کے وصال کے بعد بھی لخت حسنین صاحب اور اُن کے برادرِ خورد، سید ضیاء النورصاحب،نے بھیرہ شریف میں اپنے مرشد کی چوکھٹ نہیں چھوڑی۔ وہ اب پیر صاحب مرحوم و مغفور کی آل اولادکے قدموں میں بیٹھنا، اُن سے ہر قدم پر فیض اور رہنمائی حاصل کرنا اپنے لیے برکت اور سعادت سمجھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے تعلیم کے میدان میں ’’مسلم ہینڈز‘‘ کو قابلِ ذکر کامیابیوں سے نوازا ہے، شائد اس لیے کہ اُن کے اسکولوں میں زیادہ تر تعلیم غریب اور نادار طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے لیے تقریباً مفت ہے۔ بیشتر طلبا وطالبات کے لیے مکمل طور پر مفت۔ اللہ کریم نے پھر یوں کرم فرمایا کہ آج ملک بھر میں اُن کے ادارے کے تحت تین سو جدید اسکول بروئے کار ہیں۔ اِن میں40 ہزار کے قریب طلباو طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اسکول کے اسٹاف میں1700لوگ شامل ہیں۔ یوں اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ ادارہ مذکور کس اسٹیٹس کا حامل ہے۔

اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں منعقدہ اِس تقریب میںنون لیگ کے سینیٹر جنرل(ر) عبدالقیوم، پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر، ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق شیخ، جے یو آئی (ایف) کے سینیٹر مولانا غفور حیدری، پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید خان اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کے سینیٹر محمدعثمان خان کاکڑموجود تھے۔ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے نمایاں سینیٹر صاحبان ’’مسلم ہینڈز‘‘ کی اس محفل میں شریک ہو کر گویا ثابت کر رہے تھے کہ سبھی جماعتیں اِس ادارے یا این جی او کی خدمات سے بخوبی آگاہ ہیں۔

وہاں بہت سے معزز ماہرینِ تعلیم بھی تشریف فرما تھے۔ مثال کے طور پر: قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اشرف صاحب، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل فرمان انجم صاحب اور کامسیٹس یونیورسٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جنید زیدی صاحب بھی موجود تھے۔مقصد یہ تھا کہ ہمت والی پاکستان اسٹریٹ چلڈرن ٹیم ماسکو سے فٹ بال ورلڈ کپ دوسرے نمبر پر جیت کر جس شان اور آن بان سے واپس پاکستان آئی ہے، اُن کی ہمت افزائی بھی کی جائے، اُن کے لیے تالیاں بھی بجائی جائیں، انھیں انعام و اکرام سے بھی نوازا جائے اور اُن کی زبانی یہ بھی سُنا جائے کہ انھوں نے غربت و عسرت کے اندھیروں اور مایوسیوں سے نکل کر کیسے اور کیونکر یہ بے مثال منزل طے کی ہے۔

سارے ملک کے تمام صوبوں اور آزاد کشمیر کے اسٹریٹ چلڈرن سے لڑکوں کا انتخاب کرکے انھیں فٹ بال کی منفرد ٹیم بنانے کی ٹھان لی۔ پاکستان میں فٹبال کے بہترین کوچ، رشید صاحب، کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے اِن چنیدہ اسٹریٹ چلڈرن کو ایسے چمکا دیا کہ وہ مغربی دنیا میں کئی فٹبال ٹیموں کے مقابل اُترے۔ پہلے سویڈن پہنچے۔ سید ضیاء النور صاحب اُن کے ساتھ ساتھ تھے۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ آپ دوسرے نمبر پر نہیں بلکہ پہلے نمبر پر ہی آئے ہیں۔ اِس حوصلہ افزائی پرسامنے بیٹھی ٹیم کے سبھی کھلاڑیوں کے چہرے کھِل اُٹھے۔شاباشی کے الفاظ بھلا کسے اچھے نہیں لگتے؟

بتایا گیا کہ پاکستان میں اسٹریٹ چلڈرن کی کُل تعداد 17لاکھ جب کہ بھارت میں اِن کی تعداد کوئی ڈیڑھ کروڑ ہے۔ پاکستانی اسٹریٹ چلڈرن کے مقابلے میں مگربھارتی اسٹریٹ چلڈرن وہ اعزاز حاصل نہیں کر سکے ہیں جو ’’مسلم ہینڈز‘‘ کے تیار کردہ کھلاڑیوں کے حصے میں آیا ہے۔مذکورہ ادارے کے کنٹری ڈائریکٹر سید ضیاء النور نے سامعین کو بتایا کہ جب ہمارے یہ بچے ماسکو روانہ ہونے لگے تو صدرِ مملکت جناب ممنون حسین نے انھیں ایوانِ صدر مدعو کیا اور اپنے دستِ مبارک سے تمام کھلاڑیوں کو پاکستانی پرچم دیے، یہ کہہ کر کہ ’’میرے بچو، اس پرچم کی لاج رکھنا۔‘‘

یہ منظر بڑا ہی جذباتی تھا۔اب جب کہ ہمارے یہ بچے ماسکو سے اسٹریٹ چلڈرن ورلڈ کپ فٹبال کا معرکہ مار کر آئے ہیں، جناب نواز شریف، عمران خان صاحب اور بلاول زرداری صاحب کو بھی انھیں اپنے ہاں مدعو کرکے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اب تو انتخابات بھی آنے والے ہیں۔ دعوتوں سے ممکن ہے پورے پاکستان میں اِن کھلاڑیوں کے احباب ، رشتہ داروں کے ووٹ بھی دعوت دینے والوں کی طرف کھنچتے چلے جائیں۔

پاکستان کے گلی کوچوں میں بے مقصد گھومنے پھرنے والے اِن بچوں کی قسمت میں یہ تو نہیں لکھا ہے کہ وہ یُونہی ساری عمر خجل خوار اور بے نوا رہیں گے۔ وہ بھی ہمارے دیگر بچوں کی طرح کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اُن کے پوشیدہ اور خبیدہ ٹیلنٹ کو دمکایا اور چمکایا جا سکتا ہے۔ آخر میں یہ ہمارا ہی قومی اثاثہ بنیں گے۔محفل میں موجود معزز سامعین صاحبان کا یہ بھی بیک زبان کہنا تھا کہ ہمارے اِن اسٹریٹ چلڈرن کو یہ احساس دلانا ہو گا کہ وہ دراصل اسٹیٹ چلڈرن ہیں۔ ریاستِ پاکستان اُن کی ذمے دار اور سرپرست ہے۔

اگر یہ ریاستی محبت میسر آ جائے تو سماج کی بہت سی اُلجھنوں کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ یہ محفل اُس وقت مزید کھِل اُٹھی جب ’’مسلم ہینڈز‘‘ کے کنٹری ڈائریکٹر نے اعلان کیا کہ پاکستان اسٹریٹ چلڈرن کی اِس فٹبال ٹیم( عبداللہ صاحب جس کے کپتان ہیں) کے ہر کھلاڑی کو ادارے کے سربراہ، سید لخت حسنین ،کی طرف سے ایک ایک لاکھ روپے کا نقد انعام دیا جائے گا۔ اعلان سُنتے ہی نہائت غریب والدین کے اِن ٹیلنٹڈ بیٹوں کی مسرت دیدنی تھی۔

کامسیٹس یونیورسٹی، قائد اعظم یونیورسٹی اور ہائر ایجو کیشن کمیشن کے موجودذمے داران کی طرف سے اِس اعلان کی بھی بڑی ستائش و تحسین کی گئی کہ اگر یہ بچے ایف ایس سی تک اچھے نمبروں سے پہنچ جائیں تو آگے کی اعلیٰ تعلیم کے جملہ اخراجات وہ برداشت کریں گے۔ جو پاکستانی بچے ماسکو جا کر پاکستان کے لیے میدان مار سکتے ہیں، اُن کے سامنے ایف ایس سی کا میدان مارنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔جاتے جاتے ایک خوشخبری بھی۔

شنید ہے کہ ’’مسلم ہینڈز‘‘ کے ذمے داران بھیرہ شریف میں ’’الکرم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے نام سے ایک شاندار یونیورسٹی بھی بنانے جا رہے ہیں۔ پیر امین الحسنات شاہ صاحب کی دعاؤں سے شاہد خاقان عباسی صاحب نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے آخری ایام میں اِس کی منظوری دے دی تھی۔ ہماری طرف سے پیشگی مبارکباد!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔