فزیو تھراپی بہترین طریقہ علاج۔۔۔ لوگوں کو آگاہی دینا ہوگی!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 4 جون 2018
پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن کے عہدیداران کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن کے عہدیداران کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

فزیکل تھراپی یا فزیوتھراپی میڈیکل سائنسز کاایک اہم شعبہ ہے جس میں مساج، ورزش ، گرمائش ودیگر جدید طریقوں سے جسمانی امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔

فزیوتھراپی ہڈیوں ،جوڑوں وپٹھوں کی تکلیف ، سوزش ، چوٹ اور آپریشن کے بعد اعضاء کی بحالی کیلئے مقبول ہے جبکہ نیوروسرجری، پھیپھڑوں ، دل کی سرجری اور کئی اعصابی و دماغی بیماریوں کے علاج کیلئے بھی فزیوتھراپی کی جاتی ہے۔ اس طریقہ علاج میں ادویات کا استعمال کم از کم کیا جاتا ہے، ماہرین کے مطابق 95 فیصد علاج ادویات کے بغیر ہوتا ہے۔

پاکستان میں فزیوتھراپی کے شعبے کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اس میں5سالہ ڈگری پروگرام ڈاکٹر آف فزیوتھراپی (DPT)کروایا جارہا ہے جو ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے بعد تیسرا مقبول ترین شعبہ بن چکا ہے۔ اس شعبے کے حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن کے عہدیداران کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر اشفاق احمد (سربراہ پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن)

عالمی ادارہ صحت کے ذیلی ادارے ’’انٹرنیشنل سٹینڈرڈز کلاسیفکیشن آف آکوپیشنز‘‘ کے مطابق فزیکل تھراپی ایک آزاد شعبہ ہے۔ آج سے 25برس قبل فزیوتھراپی کا 2 سالہ کورس کروایا جاتا تھا جس کی مدت بتدریج 3سال اور 4سال کر دی گئی مگر اب اس میں ’’ڈاکٹر آف فزیوتھراپی‘‘ کے نام سے 5سالہ ڈگری کورس کروایا جارہا ہے جو بہترین ہے۔ 90ء کی دہائی میں امریکا میں یہ شعبہ پڑھوان چڑھا،ان کے ویژن 2020ء کے مطابق 2020ء کے بعد کوئی بھی ایسا فزیوتھراپسٹ نہیں ہوگا جو ڈاکٹر آف فزیوتھراپی نہیں کہلائے گا۔

مجھے خوشی ہے کہ امریکا کے بعد پاکستان واحد ملک ہے جہاںاس شعبے کو سراہا گیا اور اب فزیوتھراپی کے حوالے سے 5 سالہ ڈگری کورس ’’ڈاکٹر آف فزیوتھراپی‘‘ کروایا جارہا ہے جس کے رجحان میں گزشتہ برسوں سے تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اب یہ ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے بعد تیسرا مقبول ترین شعبہ بن چکا ہے۔ اب لوگوں کو اس شعبے کے حوالے سے آگاہی ہوچکی ہے اور طلباء ایم بی بی ایس کے بجائے ’’ڈی پی ٹی‘‘ میں داخلہ لے رہے ہیں۔

اس وقت ملک بھر میں 150سے زائد میڈیکل کے تعلیمی ادارے موجود ہیں اور ان تمام اداروں میں ’’ڈاکٹر آف فزیوتھراپی‘‘ کورس پڑھایا جارہا ہے۔ 2016ء میں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے تمام ماہرین کی مشاورت سے ’’ڈی پی ٹی‘‘ کے کورس کو عالمی معیار کے مطابق بنایا جس کے بعد اس کی قدر میں مزید اضافہ ہوا۔ آغاز میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ فزیوتھراپسٹ، آرتھو پیڈک سرجن یا فزیشن کے ماتحت کام کرتا ہے مگر ’’ڈی پی ٹی‘‘ کورس کے بعد اب فزیوتھراپسٹ خودمختار ہے، وہ مریض کے آنے سے لے کر اس کے علاج کے تمام مراحل کا ذمہ دار ہے جس میں تشخیص، ٹیسٹ و ٹریٹمنٹ پلان وغیرہ شامل ہیں۔ فزیکل تھراپی ایک سپیشلائزڈ شعبہ ہے کیونکہ گریجوایشن کے بعدفزیوتھراپسٹ ، سپیشلائزڈ کے طور پر مریضوں کا علاج شروع کردیتا ہے۔

فزیکل تھراپی میں سرجری، ٹیکے و ادویات کے بغیر مختلف طریقوں سے علاج کی کوشش کی جاتی ہے جس میں ورزش، تھراپی و دیگر طریقے شامل ہیں جو مرض کی نوعیت کے مطابق اختیار کیے جاتے ہیں۔ ہم پٹھوں میں کھچاؤ ،کمزوری و درد ، بچوں و خواتین کے مسائل اوربڑھاپے میں لاحق ہونے والی بیماریوں کا علاج بھی کرتے ہیں۔ ایک نارمل انسان کو بھی فزیو تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے کہ اسے اچھی صحت کے لیے ورزش کا پلان دیا جائے۔ زیادہ کھانے کی وجہ سے بھی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں کیونکہ اس سے ہڈیوں کو بھی نقصا ن ہوتا ہے۔ ہم علاج کے وقت لوگوں کو خوراک کا خاص خیال رکھنے کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔

برطانیہ میں فزیوتھراپسٹ کو محدود مسائل کے لیے ادویات تجویز کرنے کا حق حاصل ہے جبکہ آسٹریلیا میں فزیو تھراپی کو پرائمری ہیلتھ کیئر میں شامل کیا گیا ہے۔ آسٹریلیا میں مریض سب سے پہلے فزیوتھراپسٹ کے پاس جاتا ہے کیونکہ اس طریقہ علاج میں اسے ادویات و سرجری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر مرض کی نوعیت مختلف ہو تو پھر کسی اور جگہ ریفر کیا جاتا ہے۔ فزیوتھراپی انتہائی اہم شعبہ ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر میڈیکل کے 27 شعبے ہیں تو ان میں سے 24میں فزیوتھراپی ضروری ہے۔

پاکستان میں فزیوتھراپی کے شعبے میں پی ایچ ڈی بھی کروائی جا رہی ہے، میں اس  شعبے میں پی ایچ ڈی کرنے والا پہلا پاکستانی ہوں اور اس شعبے کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہوں۔ اب سپیشلائزیشن کا دور ہے اور بات ورزش سے بہت آگے جاچکی ہے۔ میں برطانیہ سے لیزر تھراپی کورس کرکے آیا ہوں اور ہم اپنی یونیورسٹی میں فزیوتھراپی کے حوالے سینٹر آف ایکسی لنس قائم کر رہے ہیں۔

پاکستان میں طلبہ تیزی کے ساتھ فزیوتھراپی کے شعبے میںداخلہ لے رہے ہیں، ہر سال ہزاروں فزیوتھراپسٹ مارکیٹ میں آتے ہیں، ایسے میں ضرورت ہے کہ اس شعبے کو مانیٹر اور ریگولرائز کیا جائے جس کے لیے ہم نے حکومت کو پاکستان فزیکل تھراپی کونسل بنانے کی تجویز دی جس پر کافی حد تک کام ہوچکا ہے۔ چھوٹے چھوٹے تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں جو فزیوتھراپی کی تعلیم دے رہے ہیں، ضرورت یہ ہے کہ کونسل بنا کر ان کا جائزہ لیا جائے۔ پاکستان میں ہیلتھ کیئر سسٹم واضح نہیں ہے۔

بیرون ممالک میں کوئی بھی شخص اپنی حد سے باہر کام نہیں کرتا۔ ایک وجہ تو یہ کہ وہ اخلاقی طور پر اسے درست نہیں سمجھتے جبکہ دوسری وجہ قانون کی پکڑ میں آنے کا ڈر ہے۔ ہمارے ہاں فزیوتھراپسٹ پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا جاتا ہے مگر دیگر شعبوں کے ڈاکٹرز فزیو تھراپسٹ کا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں کہا جاتا۔

فزیوتھراپسٹ اپنے شعبے کا ماہر ہوتا ہے مگر بعض فزیشن اور سرجن مریضوں کو کہتے ہیں کہ آپ کو فزیوتھراپسٹ کے پاس جانے کی ضرورت نہیں اور وہ خود ہی انہیں ورزش تجویز کردیتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہیلتھ کیئر کے نظام کو موثر نظام بنایا جائے۔ یوگا اور فزیوتھراپی دو الگ چیزیں ہیں۔ اگرچہ دونوں میں ورزش ہی کروائی جاتی ہے مگر فزیوتھراپی اس طرح کے تمام علاج کے طریقوں سے بہتر ہے۔

ڈاکٹر عامر سعید (جنرل سیکرٹری پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن)

پاکستان فزیکل تھراپی کونسل قائم کرنے کے حوالے سے گزشتہ کئی برسوں سے محنت کر رہا ہوں۔ 2009ء میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کونسل کا ڈرافٹ پیش کیا مگر بدقسمتی سے 18ویں ترمیم کے بعد معاملہ رک کیا۔ پھر میں نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو سفارش پیش کی تو معلوم ہوا کہ کونسل کے قیام کا اختیار وفاق کے پاس ہے لہٰذا ہم نے وفاق سے رابطہ کیا جس کے بعد کونسل کے قیام کا معاملہ طے پاگیا اور وفاقی کابینہ نے اس کی منظوری دے دی تھے مگراس وقت حکومتی مدت میں کم وقت رہنے کے باعث یہ بل اسمبلی میں پیش نہیں کیا جاسکا۔کلینکل میں خواتین مریضوں کی تعداد80 فیصد ہے۔

ہمارا ماحول ہماری صحت پر اثرانداز ہوتا ہے۔ موبائل کا زیادہ استعمال بھی ہماری گردن کے پٹھوں اور نروس سسٹم کی خرابی کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ کیلشیم کی کمی بھی ہڈیوں کے امراض کی وجہ ہے۔ آج سے 20 سال قبل فالج زدہ مریض بیڈ سے اٹھ نہیں سکتا تھا مگر فزیوتھراپی کی بدولت آج بے شمار مریض چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ پیدائشی معزور بچے بھی فزیوتھراپی کے ذریعے چلنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ یہ طریقہ علاج بہترین ہے کیونکہ اس میں ادویات کا استعمال انتہائی کم ہوتا ہے اور 95 فیصد مریض ادویات کے بغیر ٹھیک ہوجاتے ہیں۔

فزیوتھراپسٹ کو پاکستان میں ابھی ادویات تجویز کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ فزیوتھراپی کے کورس کو مزید بہتر بنانے کیلئے کونسل کا قیام ضروری ہے۔ جب تک کونسل نہیں بنے گی تب تک تبدیلیاں نہیں کی جاسکتیں۔ فزیوتھراپی کے حوالے سے سرکاری سطح پر سہولیات انتہائی کم ہیں جبکہ نجی ہسپتالوں میں جدید مشینری موجود ہے۔ فزیوتھراپی کا آغاز میو ہسپتال سے ہوا مگر ابھی تک سہولیات وہی پرانی ہیں، اس میں فزیوتھراپی کی الگ عمارت ہونی چاہیے اور اب جن ہسپتالوں یا اداروں میں فزیو تھراپی کی تعلیم دی جارہی ہے وہاں جدید سہولیات فراہم کرنی چاہئیں۔ اداروں کے سربراہان کو چاہیے کہ حکومتی اراکین سے ملاقات کرکے فزیوتھراپی کے شعبے کیلئے الگ بجٹ مختص کروائیں۔

اس وقت ہائیڈروتھراپی آلات کی بہت ضرورت ہے مگر یہ کسی بھی ہسپتال میں موجود نہیں ہیں۔ ڈسٹرکٹ و تحصیل ہیڈ کوارٹرز میںفزیوتھراپی سینٹرز بنائے گئے ہیں مگر وہاں پر مزید سہولیات دینے کی ضرورت ہے۔ افسوس ہے کہ فزیوتھراپی کے شعبے کو بہتر بنانا سرکاری اداروں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں فزیوتھراپسٹ کی نشستیں انتہائی کم ہیں۔

شیخ زاید ہسپتال میں تقریباً 4 ہزار مریض ہیں مگر صرف 3 فزیو تھراپسٹ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ 3 فزیوتھراپسٹ کس طرح اتنے زیادہ مریضوں کا علاج کریں گے۔ 25مریضوں پر ایک فزیو تھراپسٹ ہوتا ہے، اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہر ادارے میں فزیوتھراپسٹ کی نشستوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ حکومت نے میڈیکل شعبے میں رسک الاؤنس شروع کیا تھا مگر یہ فزیوتھراپسٹ کو نہیں مل رہا حالانکہ ان کا ہر طرح کے مریضوں سے براہ راست قریبی تعلق ہوتا ہے۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن میں فزیوتھراپی شامل ہے مگر اس کی تشریح نہیں کی گئی جس کی وجہ سے مسائل درپیش ہیں۔

فزیو تھراپسٹ کلینک بناتے ہیں تو انہیں بند کردیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ عدالتی حکم ہے، میری چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ اس معاملے پر نظر ثانی کریں۔ وفاقی کابینہ نے کونسل کی منظوری دے دی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فزیوتھراپی آزاد شعبہ ہے۔ فزیوتھراپسٹ باقاعدہ ڈگری لے کر آتے ہیں لہٰذا انہیں اپنے شعبے کے حوالے سے کلینک بنانے کی اجازت دی جائے۔

ڈاکٹر شازیہ رفیق (صدر پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن پنجاب)

دنیا بھر میں لوگ فزیوتھراپی کے شعبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ہمارے ملک میں اس شعبے کی صورتحال کچھ اچھی نہیں جبکہ لوگوں کو اس حوالے سے موثر آگاہی بھی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اعتماد ہے کہ وہ اس طریقہ علاج سے ٹھیک ہوسکتے ہیں۔فزیوتھراپی کے شعبے اور فزیوتھراپسٹ کو بے شمار مسائل درپیش ہیں جن کے حل کیلئے ہم نے ایسوسی ایشن قائم کی۔

ایسوسی ایشن کی اپنی حدود و قیود ہیں جن سے باہر نہیں نکلا جاسکتا لہٰذا فزیوتھراپی کے حوالے سے ایک کونسل کی ضرورت تھی جس پر کام ہورہا ہے۔ ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس اور فارمیسی کی کونسلز موجود ہیں لیکن فزیوتھراپی کو ریگولیٹ اور مانیٹر کرنے کے حوالے سے کوئی کونسل نہیں ہے لہٰذا اس کا جلد از جلد قیام عمل میں لانا چاہیے۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ہمارے مسائل بہت زیادہ ہیں۔

ابھی تک ہمارا سروس سٹرکچر نہیں بن سکا، ہمیں ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس بھی نہیں دیا جاتا جبکہ مریضوں کے مقابلے میں ہسپتالوں میں ہماری نشستیں بھی کم ہیں۔ 1956ء میں کراچی جبکہ 1985ء میں میو ہسپتال میں سکول آف فزیوتھراپی قائم کیا گیا۔ اب مختلف اداروں میں ’’ڈی پی ٹی‘‘ کورس پڑھایا جارہاہے مگر ابھی تک 3 سالہ کورس کے پرانے قوانین رائج ہیں جن کی وجہ سے نئے آنے والے فزیوتھراپسٹ کو مسائل درپیش ہیں جن میں ہاؤس جاب، ملازمت و دیگر شامل ہیں۔ حکومت کو ان تمام مسائل کا سدباب کرنا چاہیے۔

حکومت اچھے کام کررہی ہے،وفاقی کابینہ نے کونسل کی منظوری بھی دی ہے تاہم مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے حل کے لیے طویل مدت درکار ہے۔ فزیوتھراپی کے حوالے سے آگاہی دینے کے لیے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد انتہائی اہم ہے۔ فزیوتھراپی انتہائی موثر ہے کیونکہ جو مریض ادویات اور سرجری سے ٹھیک نہ ہو،فزیو تھراپی سے اس کا علاج ممکن ہے۔ معذور افراد بھی فزیوتھراپی سے چلنے پھرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ہم فٹنس اور ورزش پر زور دیتے ہیں۔ جو لوگ فٹ رہنا چاہتے ہیں انہیں بھی فزیوتھراپسٹ سے رابطہ کرنا چاہیے۔

پہلے خواتین مریضوں کی تعداد کم ہوتی تھی مگر اب جس طرح سے لوگوں کو آگاہی مل رہی ہے لوگ اس طرف رجوع کررہے ہیں۔ فزیوتھراپسٹ میں بھی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اس وقت تقریباً 40 فیصد خواتین پریکٹس کررہی ہیں۔ عالمی معیار کے مطابق ہر 13مریضوں کیلئے ایک فزیوتھراپسٹ ہونا چاہیے مگر ہمارے ہاں صورتحال تشویشناک ہے۔ میو ہسپتال میں 36، سروسز ہسپتال میں 2، جناح ہسپتال میں 1 ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ جبکہ برن یونٹ میں 2 فزیو تھراپسٹ ہیں جو انتہائی کم ہیں۔ افسوس ہے کہ اداروں کی پالیسی بناتے وقت ہماری رائے نہیں لی جاتی۔

ڈاکٹر نعمان غفار اعوان (میڈیا کوآرڈینیٹر پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن )

فزیوتھراپی کے حوالے سے لوگوں کو جتنی زیادہ آگاہی ہوگی، اس شعبے اور خود مریضوں کیلئے اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔ ہسپتالوں میں فزیوتھراپسٹ کی نشستیں انتہائی کم ہیں جس کے باعث ینگ فزیوتھراپسٹ کو پریکٹس اور ملازمت کے حوالے سے بہت سارے مسائل درپیش ہیں۔ پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن کے ساتھ ملک بھر سے 8 ہزار فزیوتھراپسٹ منسلک ہیں اور ہم ان کی فلاح کیلئے کام کررہے ہیں۔

حال ہی میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہمارے انتخابات ہوئے ہیں اور ہم ملک بھر میں فزیوتھراپسٹ کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ہر سال تقریباََ 4ہزار نئے فزیوتھراپسٹ ڈگری حاصل کرکے مارکیٹ میں آتے ہیںجن کے لیے پالیسی سازی اور اس شعبے کو مانیٹر و ریگولیٹ کرنے کیلئے فزیوتھراپی کونسل کا قیام انتہائی اہم ہے۔ لوگوں کو فزیوتھراپی کے حوالے سے آگاہی دینے کے لیے مختلف قسم کے سیمینارز اور ورکشاپس منعقد کروا ر ہے ہیںجن میں طلبہ کو ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔