چوہدری شجاعت۔ صاحب کتاب

عبدالقادر حسن  منگل 5 جون 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کتاب اور انسان کا رشتہ روز اول سے انتہائی مضبوط چلا آرہا ہے۔ ہم جس دین کے پیر وکار ہیں، اس کی بنیاد ہی اس کتاب پر ہے جس میں کلام الٰہی بنی نوع انسان تک پہنچایا گیا ۔ رشدو ہدایت کی اس پہلی کتاب میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں انسان اس کے مطابق عمل کر کے اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنے کے احکامات ہیں ۔ کئی سو سال پہلے کی یہ سچایاں آج کے جدید دور میں بھی سائنس کی روشنی میں سچ ثابت ہو رہی ہیں۔

انسانی عقل دنگ ہے کہ مسلمان جس دین کے پیرو کار ہیں ان کو آج سے کئی سو سال پہلے ہی آنے والی زندگی گزارنے کے اصولوں کے مطابق بتا دیا گیا تھا ۔ قران پاک وہ معجزہ ہے جو آج سے کئی سوسال پہلے ظاہر ہوا اور اس کی برکات جاری ہیں اور رہیںگی۔یہ دائمی ہیں ۔

انسانوں کی جانب سے مختلف موضوعات پر لکھی گئی کتابیں معلومات کا ذریعہ ہیں لیکن جو کتابیں سیاستدانوں نے لکھی ہیں ان کتابوں نے اپنے اپنے وقتوں میں پڑھنے والوں کے ذہنوں میں موجود ابہام کو دور بھی کیا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کتاب میں مکمل سچائی کے ساتھ اور بغیر کسی مبالغے کے حقیقت بیان کر دی جائے۔پاکستان میں سیاستدانوں کی لکھی گئی کتابوں کو بھی پذیرائی ملی اور کچھ سیاستدان ایسے بھی تھے جو ملکی تاریخ کے کئی رازوں کو اپنے سینے میں چھپائے اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے جن میں ایک میاں ممتاز دولتانہ بھی تھے، ان کو کئی بار یاداشتیں لکھنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اس کے  لیے تیار نہ ہوئے ۔

میاں صاحب اکثر کہتے تھے کہ جب کوئی میرا ہم عمر مر جاتا ہے تومیںخوش ہوتا ہوں کہ وہ اس دن کو دیکھنے سے بچ گیا جب پاکستان مرے گا ۔میرے اور پاکستان کے درمیان دوڑ لگی ہوئی ہے اور میری خواہش ہے کہ میں جیت جاؤں ۔ مرحوم میاں صاحب اس قدر تو جیت گئے کہ ان کی زندگی میں وہ پاکستان تو نہ رہا جس کے لیے ان کی جماعت نے کامیاب کوشش کی تھی لیکن اس کا نام ان کی وفات تک باقی رہا۔

میں نے ایک بار میاں صاحب سے کہا کہ آپ اپنی یاداشتیں مرتب کر لیں، انھوں نے جواب میں کہا کہ جب کچھ لکھنے کی فرصت ملی تو طبیعت پر مسلسل برہمی کی کیفیت چھائی رہی ۔ ان کا اشارہ ایوب خان کے مارشل لاء کی طرف تھا۔ ایسی کیفیت میں میرے لیے لکھنا بہت مشکل تھا، ایک بار ان کو ان کے مرید خاص مرحوم چوہدری الطاف حسین جب پنجاب کے گورنر بن کر آئے اور میاں صاحب کی خدمت میں سلام کے لیے حاضر ہوئے تو انھوں نے کہا کہ قادر حسن لکھتا جائے گا آپ بولتے جائیں۔

وہ بہت خوش ہوئے اور پوچھا کہ اس کے پاس اتنا وقت ہے، سنا ہے وہ بہت مصروف ہو گیا ہے۔ یہ میری طویل غیر حاضری کا شکوہ تھا اس کے بعد میں اور الطاف صاحب پروگرام ہی بناتے رہے لیکن میری لاتعداد سستیوں میں ایک یہ بھی شامل ہے ۔لوگ چلے گئے اور ہم ان کے نقش پا دیکھتے رہ گئے۔

یہ سب باتیں چوہدری شجاعت کی کتاب پڑھنے کے بعد یادآرہی ہیں، چوہدری صاحب نے بھی آخری مارشل لاء کے بعداپنی کتاب کی طباعت کا سلسلہ شروع کیا اور یہ اب آ کر مکمل ہوئی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے زیادہ تر کتابیں جیل میں رہ کر لکھی ہیں یعنی وہ جب کسی حکمران کے معتوب ٹھہرے تو جیل میں ان کے پاس اتنا وقت ہوتا تھا کہ وہ اپنی یاداشتیں مرتب کرتے جاتے اور بعد میں جیل سے رہائی کے بعد ان کو اکٹھا کر کے قلمبند کر لیتے جب کہ بعض سیاستدانوںنے جیل میں رہتے ہوئے بھی اپنی کتابیں شایع کرائیں۔

چوہدری شجاعت حسین خوش قسمت سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنی یاداشتوں کو جیل سے باہر آزاد فضا میں رہ کر لگی لپٹی رکھے بغیر مرتب کیا اور پھر اسے اپنی زندگی میں ہی عوام کے سامنے پیش کر دیاتا کہ اگر کوئی ان کی تحریر سے اختلاف کرے تو اس کا جواب بھی دے سکیں ۔ چوہدری صاحب سے میری یاد اللہ کب سے ہے اس کا مجھے خود بھی نہیں معلوم لیکن ان کے والد محترم چوہدی ظہور الٰہی سے رشتہ ان کی آخری سانسوں تک برقرار رہا جسے ان کے بعد چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز نے خوب نبھایا ۔

میں چوہدری صاحب کی کتاب کی تقریب رونمائی میں بوجہ شرکت نہ کر سکا جس کا مجھے افسوس رہے گا ، اس کا نقصان یہ ہوا کہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بک گئی بلکہ یوں کہیں کہ نایاب ہو گئی اور میں بھی اسی نایابی کا شکار بن گیا وہ تو بھلا ہو اقبال چوہدری صاحب کا جنہوں نے مجھے کتاب بجھوا دی ۔یہ وجہ تھی کہ کتاب پر تبصرے میں بہت تاخیرہوگئی۔ اس کتاب میں کئی ایسے واقعات بھی ہیں جن کا میں عینی شاہد تو نہیں ہوں لیکن میں بھی انھیں مقامات پر موجود تھا جب یہ فیصلے کیے جارہے تھے ۔

چوہدری صاحب نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آج کے نفسا نفسی کے دور میں سچ بیان کیا ہے، ان کے اس سچ سے کس کو کتنا اختلاف ہے، یہ ابھی تک سامنے نہیں آیا، انھوں نے ممکن حد تک اپنی اور اپنے خاندان کی سیاسی جدو جہد کو اپنے قلم کے ذریعے عوام تک پہنچا دیا ہے، وہ ان خوش قسمت ترین انسانوں میں شامل ہیں جو کہ اقتدار کے اعلیٰ ایوان تک بھی پہنچے جب کہ اسی وقت ان کے کزن چوہدری پرویز الٰہی ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ تھے یعنی ان کے ان تما م دکھوں کاکسی حد تک مداواہو گیا جو ان کے سیاسی ساتھیوں نے ان کو دیے تھے۔

چوہدری پرویزالٰہی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے لیکن ان کے بزرگ میاں شریف صاحب کے وعدوں کے باوجود شہباز شریف کے سر پر پنجاب کی پگ رکھ دی گئی اوریوں نواز شریف اور شہباز شریف دونوں بھائی وزیر اعظم اور وزارت اعلیٰ کے منصب پرفائز ہو گئے، اسی طرح کچھ عرصے بعد وقت تبدیل ہوا اور تاریخ کا پہیہ گھوما چوہدری شجاعت وزیر اعظم تھے اور پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب کے منصب پر فائز تھے۔صاحب کتاب چوہدری شجاعت نے خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے والد کی سیاسی میراث کو سنبھالا اور اپنے سیاسی حریفوں کاخوب مقابلہ کیا۔  وہ سیاسی میدان میں ملک کے اعلیٰ ترین منصب تک بھی پہنچے ۔

چوہدری شجاعت اب صاحب کتاب بھی ہو گئے ہیں اور امید ہے کہ وہ بہت جلد باقی ماندہ سچ بھی قوم کے سامنے رکھیں گے جس کا انھوں نے وعدہ کیا ہے لیکن یہ وعدہ وفا کرنا آسان نہیں ہے۔ خدا چوہدری صاحب کو صحت دے اور وہ اپنا وعدہ پورا کر سکیںلیکن سیاست کے کئی پہلو چوہدری ظہور الٰہی شہید کے ساتھ ہی چلے گئے۔سیاست کی کئی کتابیں گم ہو گئیں ہیں ان کو پڑھنے والے ہی چلے گئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔