الیکشن لیکن

عبدالقادر حسن  جمعرات 7 جون 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

الیکشن ہوں گے ضرور ہوں گے وقت پر ہوں گے، الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ تاریخ پر ہی ہوں گے اس لیے سیاسی جماعتوں سمیت پاکستانی عوام کو بھی یہ بات ذہن سے نکال دینی چاہیے کہ الیکشن التوا کا شکار ہوں گے ۔الیکشن کا التوا چند لوگوں کی خواہش ہو سکتی ہے مگر کسی کی خواہشات پر ملک اور ملکی مفاد کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا۔

ہمارے نگران وزیر اعظم نے منصب سنبھالتے ہی الیکشن مقررہ وقت پر کرانے کا عزم ظاہر کیا ہے اور انھوں نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ اگر الیکشن میں تاخیر ہوئی تو وہ اپنی آئینی مدت پوری کرتے ہی گھر چلے جائیں گے یعنی وہ بھی اس بات سے متفق ہیں کہ الیکشن کے بروقت انعقاد میں ہی جمہوریت کی بقا ہے ۔

فوج جو کہ اس ملک کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ہے اس کی جانب سے بھی کئی بار جمہوری تسلسل کی بات سامنے آچکی ہے ۔ چیف جسٹس پاکستان بھی بروقت الیکشن کے انعقاد کی بات کرتے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں بشمول پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، نواز لیگ سمیت تمام پارٹیاں الیکشن کے میدان میں اترنے کو تیار ہیں چند ایک لوگ یا سیاستدان ایسے ہیں جو کہ الیکشن میں تاخیر کی بات کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جس پر کوئی غور کرنے کو بھی تیار نہیں ۔

سابقہ حکمران جماعت نواز لیگ نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر الیکشن میں تاخیر ہوئی تو وہ سپریم کورٹ میں مقدمہ کر دیں گے۔ جب ملک کی تمام اکائیاں الیکشن کے حق میں ہیں تو پھر وہ کون لوگ ہیں جن کی یہ خواہش ہے کہ الیکشن ملتوی ہوجائیں یا کچھ وقت کے لیے موخر کر دئے جائیں الیکشن موخر کر نے کی کوئی مضبوط دلیل ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔

سیاستدانوں کے الیکشن کے بروقت انعقاد کے بارے میں بیانات ہر روز اخبارات کی زینت بن رہے ہیں جب کہ نجی محفلوں میں بھی اس بات پر گرما گرم بحثیں ہو رہیں بلکہ کئی لوگ تو اس پر شرطیں تک لگا رہے ہیں لیکن جس سے بھی پوچھا جائے کہ الیکشن میں تاخیر کیوں ہو تو اس کے پاس اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہوتا، چند کمزور دلائل جن میں سرفہرست احتساب کا معاملہ ہے اس کو بنیاد بنا کر یہ بات پھیلائی جا رہی ہے اور سیاستدانوں کو ایک ان دیکھے خطرے سے ڈرایا جا رہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں وہ احتساب کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں اور نیب کا شکنجہ ان کا انتظار کر رہا ہے۔

اگر جمہوری تسلسل کی بات کی جائے تو اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ الیکشن ہوتے رہیں اور جب الیکشن ہوتے رہیں گے تو ان کی چھلنی میں سے گزر کر نئے لوگ سیاست کا حصہ بنیں گے ملک کو تازہ دم نئی قیادت میسر آئے گی۔ کرپشن کا خاتمہ ہونے کی بات ناممکن تو لگتی ہے لیکن اس میں کمی ضرور ہو جائے گی اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ الیکشن کا شفاف انعقاد ہو لوگ اس عمل سے گزرتے رہیں اور بالآخر وہ وقت آجائے گا جب الیکشن کی چھلنی سے گزر کر صرف صاف اور نیک نیت لوگ ہی اس ملک کے حکمران بنیں ۔

عوام تو الیکشن میں اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کوووٹ دے کر ان سے اچھائی کی امید کا انتظار کرتے ہیں لیکن جب ان سے مایوس ہو جاتے ہیں تو پھر عوام کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ اگلے الیکشن کا انتظار کریں اور اس میں اپنے ردعمل کا اظہار کریں۔ گزشتہ الیکشن میں عوام نے پیپلز پارٹی کو جس طرح مسترد کیا وہ ابھی تک اس جھٹکے سے سنبھل نہیں سکی اور اس کی وجہ ان کی بد ترین حکمرانی تھی جس کا عوام نے ان سے بدلہ لیا اور نواز لیگ کو بھاری اکثریت سے منتخب کیا ۔

آیندہ الیکشن میں عوام کا موڈ کیا بنتا ہے اس  کا فیصلہ تو پچیس جولائی کو ہو جائے گا لیکن نواز لیگ اگر بری حکمرانی کر کے حکومت سے الگ نہیں ہوئی تو اچھی حکومت کا کریڈٹ بھی اس کو نہیں دیا جا سکتا البتہ اس کا اور پیپلز پارٹی کا موازنہ بھی نواز لیگ کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔ دعوؤں اور الیکشن کے وعدوں کے باوجود نواز لیگ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی پیداوار اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے میں جزوی طور پر ناکام رہی ۔ انھوں نے اپنی مقدور بھر کوشش سے بجلی کے نئے منصوبے تو ضرور شروع  کیے لیکن ان میں سے چند ایک کے علاوہ باقی ماندہ ناکام ہو گئے جس کی ایک وجہ ان کی پیداواری لاگت کا زیادہ ہونا ہے جس کا نتیجہ عوام بھگت رہے ہیں۔

آیندہ عام انتخابات کے لیے امیدوار کمر کس چکے ہیں اور اب تو ان کو یہ سہولت بھی مہیا کر دی گئی ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی غیر ملکی یعنی دوہری شہریت والا اور ان پڑھ بھی الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے اور آپ کا حکمران بن سکتا ہے چاہے اس کے پاس ناجائز ذرایع سے کمائی گئی دولت ہی کیوں نہ ہو اس کو اب اپنے اثاثوں کا حساب کتاب دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔کوئی بھی چور اچکا الیکشن میں امیدوار بن سکتا ہے اور اس کو یہ سہولت مل جل کر ہماری سیاسی پارٹیوںنے دی ہے تا کہ وہ اپنے مطلب کے لوگوں کو امیدوار بنا سکیں ۔

الیکشن میں تاخیر کا بہانہ بنا کر حکومت نے امیدواروں کے نامزدگی فارم کے بارے میں راتوں رات ہائیکورٹ کے فیصلے کے بارے میںجو عرضی سپریم کورٹ میں ڈالی اس کا فیصلہ ان کے حق میں آگیا ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ نامزدگی فارم بدلنے کی وجہ سے الیکشن میں متوقع تاخیر کو اس طرح بھی خوش اسلوبی سے حل کیا جاسکتا ہے کہ امیدوار نامزدگی فارم سے نکالے جانے والی شقوں کے بارے میں بیان حلفی جمع کرا دے تو بات کسی حد تک وہیں پہنچ جائے گی جہاں پہلے تھی اور امیدواروں کو سخت سکروٹنی کے عمل سے گزرنا پڑے۔

قوم چاہتی بھی یہی ہے کہ اس کے آنے والے منتخب نمایندے صاف شفاف شخصیت کے مالک ہوں لیکن لگتا یہی ہے کہ ابھی قوم کی قسمت نہیں بدلی اور ایک بارپھر ہمارے حکمران وہی ہوں جن کو ہم پچھلے کئی دہائیوں سے بھگتتے چلے آرہے ہیں۔ کیا ہماری تقدیر بدلے گی اور تب بدلے جب ہم اسے بدلیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔