پورے ملک سے انتخابات میں حصہ لیں گے، انیس قائم خانی

سید بابر علی / محمد نعمان  اتوار 10 جون 2018
مہاجرصوبے کے مطالبے سے لاشوں کی بو آتی ہے، مہاجر تمام لسانی اکائیوں کے ساتھ مل کر سیاست کریں، پی ایس پی رہنما۔ فوٹو : فائل

مہاجرصوبے کے مطالبے سے لاشوں کی بو آتی ہے، مہاجر تمام لسانی اکائیوں کے ساتھ مل کر سیاست کریں، پی ایس پی رہنما۔ فوٹو : فائل

ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کو جب مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کے لیے سیاسی جدوجہد کرنے کی دعوت دی گئی تو اس نوجوان نے بھی مہاجروں اور اس طبقۂ سماج کے ساتھ ناانصافیوں اور زیادتیوں کو زیادہ شدت سے محسوس کیا۔

سہولیات اور وسائل کی تقسیم میں نظرانداز کیے جانے کی شکایات کے ساتھ سرکاری ملازمتوں سے لے کر تعلیمی اداروں تک استحصال اور اس سے پیدا ہونے والے احساسِ محرومی نے اسے ایک ایسی تنظیم کا رکن بنا دیا جس نے کئی دہائیوں تک سندھ کے شہری علاقوں پر بلاشبہہ راج کیا۔ بعد میں اسی جماعت نے علاقائی سیاست سے نکل کر ملک گیر سطح پر اپنے نظریات اور فکر و فلسفے کا پرچار شروع کیا تو یہ بھی متحدہ قومی موومنٹ کے اہم رکن اور پارٹی عہدے دار کی حیثیت سے سرگرم نظر آئے۔بانی تحریک اور دیگر قائدین کے ساتھ اس سیاسی سفر میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔

ریاستی سطح پر جماعت کے خلاف آپریشن، تنظیمی مسائل، مختلف معاملات پر آپس کے معمولی اور شدید اختلافات کے ساتھ گرفتاریاں، گم شدگیاں اور کارکنوں کی لاشیں بھی دیکھیں۔ صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کے ساتھ اپوزیشن جماعت کے طور پر ایم کیو ایم کا تمام سیاسی سفر ان کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔

متحدہ کے پلیٹ فارم سے چاروں صوبوں کے غریب اور متوسط طبقے کے حقوق کی جدوجہد کے دوران وہ اچانک منظر سے ہٹ گئے اور پھر ایک دن اچانک سابق ناظمِ کراچی مصطفیٰ کمال کا ہاتھ تھامے منظر پر نمودار ہوئے۔ یہ تذکرہ ہے سیاست کے خار زار میں لگ بھگ تین دہائیاں گزارنے والے سیاسی کارکن، پاک سرزمین پارٹی کے بانیوں میں شامل اور پی ایس پی کے صدر انیس قائم خانی کا۔ انیس قائم خانی سے گذشتہ دنوں ہونے والی نشست میں پی ایس پی کے حال اور مستقبل، انتخابات اور دیگر حوالوں سے گفتگو ہوئی، جو قارئین کے لیے پیش ہے۔

ایکسپریس: سیاست میں کیسے آئے۔ سیاست میں آنے پر گھر والوں کی مخالفت یا حمایت کس حد تک رہی؟

انیس قائم خانی: جس وقت مہاجر قومی موومنٹ نئی نئی بن رہی تھی تو میرے کچھ دوستوں نے مجھے اس میں شمولیت کی دعوت دی اور اس کے کچھ عرصے بعد ہی میں ایم کیو ایم کا کارکن بن گیا۔ میرے اس فیصلے پر ابتدا میں تو گھر والوں کی کافی مخالفت ہوئی، تاہم بعد میں گھر والے قائل ہوگئے۔

ایکسپریس: سیاسی مصروفیات کے باوجود اہلیہ اور بچوں کے لیے وقت کس طرح نکالتے ہیں؟ یا گھر والوں نے اس بات پر سمجھوتا کرلیا ہے؟

 انیس قائم خانی: مجھے گھر سے نکلے ہوئے ستائیس سال ہوگئے ہیں، اب گھر والے بھی اس بات کے عادی ہوگئے ہیں، پہلے والدین میری مصروفیات اور گھر پر وقت نہ دینے پر کمپرومائز کرتے رہے اور یہی کام اب بیوی بچے کر رہے ہیں، لیکن ابھی بھی میں موقع ملنے پر گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کرتا ہوں۔

ایکسپریس: پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کس کے کہنے پر کیا؟ ایم کیو ایم میں غیرفعال ہونے کے بعد مصطفی کمال سے پہلی بار رابطہ کب اور کس کے توسط سے ہوا؟

انیس قائم خانی: میں نے پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کہ بلکہ یہ میں نے اور مصطفی کمال نے مل کر بنائی ہے۔ مصطفی کمال اگست 2013 میں متحدہ قومی موومنٹ چھوڑ کر امریکا چلے گئے تھے اور اس کے چار ماہ بعد میں بھی پارٹی چھوڑ کر دبئی چلا گیا تھا، کچھ عرصے بعد وہ بھی دبئی آکر میرے ساتھ رہنے لگے تھے۔

ایکسپریس: سینیٹ کے انتخابات میں پاک سرزمین پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین رابطے ہوئے اور آپ نے ان کی حمایت بھی کی۔ کیا اس بار عام انتخابات میں پی ٹی آئی، پاکستان پیپلزپارٹٰی یا متحدہ قومی موومنٹ سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا امکان ہے؟

انیس قائم خانی: ہماری جماعت کا ایک اصولی فیصلہ ہے کہ ہم انتخابات سے پہلے کسی بھی جماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور اتحاد نہیں کریں گے۔ پاک سرزمین پارٹی اپنے انتخابی نشان ڈولفن پر پورے ملک میں انتخابات میں حصہ لے گی۔ ہاں انتخابات کے بعد اگر کوئی جماعت ہمارے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہے گی تو ہم اس سے ضرور اتحاد کریں گے لیکن اس کے لیے شرط یہی ہے کہ وہ جماعت عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہو۔ لیکن ایک بات میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پی ایس پی ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ کسی بھی صورت میں اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرے گی۔

ایکسپریس: آئندہ آنے والے انتخابات کے حوالے سے کیا تیاریاں ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ پاک سرزمین پارٹی پورے پاکستان سے سیٹیں لینے میں کام یاب ہوگی؟

انیس قائم خانی: ویسے تو ہم تقریبا پورے پاکستان سے انتخابات میں حصہ لیں گے لیکن ہماری اولین ترجیح سندھ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سندھ کے عوام بالخصوص کراچی اور حیدرآباد والوں کو ہمیں ووٹ دینا چاہیے کیوں کہ ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی نے آج تک انہیں کچھ نہیں دیا۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، پینے کا پانی نہیں ہے، تعلیم اور روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ گڈ گورنینس، تعلیم روزگار اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ہمارے منشور میں سر فہرست ہے۔ میں آپ کے اخبار کے توسط سے یہ بات بھی کہہ رہا ہوں کہ انشا اللہ سندھ کا اگلا وزیراعلیٰ پاک سرزمین پارٹی کا یا اس کا حمایت یافتہ ہوگا۔

ایکسپریس: پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں پورے پاکستان خصوصاً سندھ میں کلین سوئپ کر ے گی، اپ اس بارے میں کیا کہیں گے۔

انیس قائم خانی: سندھ میں تو پاکستان تحریک انصاف ہے ہی نہیں اور کراچی میں ان کی کام یابی کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ سندھ میں ہمیں ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے، ہمارا یہاں مقابلہ ایم کیو ایم پاکستان سے تھا لیکن اب وہ خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ہم سندھ میںلاڑکانہ سے لے کر دادو، دادو سے لے کر بدین تک ہر حلقے میں کام یابی حاصل کریں گے، کیوں کہ اب اندرون سندھ کے لوگ بھی ہمارے مقصد، ہماری سوچ کو سمجھ گئے ہیں وہ ہمیں لسانی تنظیم نہیں سمجھتے۔ ہم سندھ میں جہاں بھی گئے وہاں سندھیوں نے ہمارا بڑا زبردست استقبال کیا۔ ہم تو عمر کوٹ تک گئے ہیں۔

اس وقت کراچی میں ہمارے بائیس ہزار کارکنان ہیں جن میں اکثریت اردو بولنے والوں کی ہے، لیکن ہماری جماعت میں ہر قومیت اور زبان بولنے والا موجود ہے، ہمارا کارکن بنارس کالونی میں بھی ہے، لیاری میں بھی اور لیاقت آباد میں بھی۔ سندھ کے بعد بلوچستان میں پی ایس پی سب کو سرپرائز دے گی۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بھی ہم کام کر رہے ہیں لیکن ابھی ہمیں وہاں سے بہت زیادہ سیٹیں حاصل ہونے کی امید کم ہے، لیکن 2023کے عام انتخابات میں پاک سرزمین پارٹی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بڑے مارجن کے ساتھ جیتے گی اور ہمیں امید ہے کہ 2023کے انتخابات میں وزیر اعظم مصطفی کمال ہوگا، اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔

ایکسپریس : آپ کی رکن سندھ اسمبلی نائلہ لطیف نے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بہت اور عقیدت اور احترام سے الطاف حسین کے حق میں تقریر کی اس بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا آپ کی پارٹی میں شامل لوگوں کی ہم دردیاں اب بھی الطاف حسین کے ساتھ ہیں؟

انیس قائم خانی: سے سے پہلے تو اس بات کو سمجھیں کہ انہوں نے وہ تقریر کس تناظر میں کی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان سندھ اسمبلی نے ہماری جماعت کے ایم پی ایز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مینڈیٹ واپس نہیں کیا، تو اس کے ری ایکشن میںنائلہ لطیف نے ایم کیو ایم پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آج اس ایوان میں الطاف حسین کے مینڈیٹ کی وجہ سے ہیں اور اگر ان میں اخلاقی جُرأت تھی تو وہ مستعفی کیوں نہیں ہوئے؟ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ مینڈیٹ ایم کیو ایم پاکستان کا نہیں الطاف حسین کا ہے تو ایم کیو ایم پاکستان کے راہ نما اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے الطاف حسین کا مینڈیٹ انہیں واپس کریں۔

انہوں نے اس پیرائے میں گفت گو کی تھی، جس میں انہوں نے کوئی غیراصولی بات نہیں کی۔ جہاں تک الطاف حسین سے ہم دردی کی بات ہے تو اس کی پاک سر زمین پارٹی میں کہیں بھی گنجائش نہیں ہے۔ ہم محب وطن لوگ ہیں، یہ ایم کیو ایم بہادر آباد یا پی آئی بی نہیں ہے، ہاں ماضی میں ہمارا الطاف حسین سے تعلق تھا لیکن اب ہم الطاف حسین کو ملک دشمن سمجھتے ہیں اور یہ میرا، مصطفی کمال اور پی ایس پی میں شامل ہر کارکن کا اصولی موقف ہے۔

ایکسپریس : سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی پہلی جے آئی ٹی رپورٹ میں حماد صدیقی اور رحمان بھولا کے ساتھ آپ کو بھی ملوث قرار دیا گیا تھا، لیکن دوسری رپورٹ میں آپ کا نام سرے سے ہی نکال دیا گیا، کیا پی ایس پی میں شمولیت کی وجہ سے آپ کا نام نکالاگیا؟

انیس قائم خانی: میرا نام کبھی بھی سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے حوالے سے بننے والی جے آئی ٹی رپورٹ شامل نہیں رہا، اگر کسی کے پاس اس بات کا ثبوت موجود ہے تو وہ سامنے لے آئے۔ جب ایک واقعے میں میرا نام ہے ہی نہیں تو پھر پتا نہیں کیوں اتنی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جی ہم حماد صدیقی کو سپورٹ کرتے ہیں، ہم اسے سپورٹ نہیں کرتے، حقیقت بیان کرتے ہیں۔ میرا اور مصطفی کمال کا ماننا ہے کہ حماد صدیقی کا بلدیہ ٹاؤن سانحے سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور اسے جان بوجھ کر اس واقعے میں ملوث کیا گیا ہے۔

ایکسپریس : بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آتش زدگی میں آپ کی جماعت کے چند لوگ ملوث بتائے جاتے ہیں، کیا یہ درست ہے کہ یہ سب بھتا نہ ملنے پر کیا گیا؟

انیس قائم خانی: سانحہ بلدیہ ٹاؤن ایک حادثہ اور افسوس ناک سانحہ تھا۔ مالکان باہر بیٹھ کر الٹی سیدھی باتیں کر رہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ انہیں وطن واپس لاکر ازسرنو تحقیقات کرے تو ساری حقیقت سامنے آجائے گی۔ پاک سرزمین پارٹی اسے ایک حادثہ سمجھتی ہے اور اس حوالے سے تمام افواہوں اور پروپیگنڈے کی تردید کرتی ہے۔

ایکسپریس: گذشتہ سال مصطفی کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار نے مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک ہونے کا اعلان کیا لیکن اگلے ہی دن ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی۔ اس مشترکہ پریس کانفرنس کا فیصلہ کس کا تھا؟ اور اس اتحاد کے ٖفوری خاتمے کی وجہ کیا تھی؟

انیس قائم خانی: ہم پر بزنس کمیونٹی کا دباؤ تھا کہ بہتر مفاد کے لیے مل کر ایک نئی جماعت بنائیں، اس سلسلے میں ہمارے ایم کیو ایم کے ساتھ آٹھ ماہ سے مذاکرات چل رہے تھے، جن میں یہ طے پایا تھا کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ختم کرکے اور ہم پاک سر زمین پارٹی کو ختم کر کے ایک نئے نام کے ساتھ نئی جماعت بنائیں گے۔ پہلے مرحلے میں اس کا اعلان کیا جائے گا اس کے بعد مزید معاملات طے ہوں گے، لیکن اگلے ہی دن ڈاکٹر فاروق ستار نے پریس کانفرنس کرکے سب گڑبڑ کردیا۔ اس معاملے میں ہماری پہلی بنیادی شرط ہی یہی تھی کہ نئی بننے والی جماعت لسانی بنیادوں پر قائم نہیں ہوگی اور ہم زبان کی بنیاد پر سیاست نہیں کریں گے۔ میں، مصطفیٰ کمال اور پاک سر زمین پارٹی کی پوری قیادت لسانی سیاست کی سخت مخالف ہے، ہم پاکستان میں رہنے والی تمام لسانی اکائیوں کو ایک حقیقت سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس: حال ہی میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے الگ صوبے کے مطالبے پر بہت سخت تقریر کی۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور قوم پرست جماعتوں کا یہ طرزعمل اُردو بولنے والوں میں احساس محرومی کا سبب بن رہا ہے؟

انیس قائم خانی: دیکھیں یہ زبان کی بنیاد پر صرف اور صرف معصوم لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ کارڈ سوٹ کرتا ہے تو وہ ہر الیکشن سے پہلے اسے کھیلنے کی کوشش کرتی ہے اور ایم کیو ایم مہاجر کارڈ استعمال کرتی ہے۔ اور یہ ان کی ملی بھگت سے ہی ہوتا ہے۔ چار سال آٹھ ماہ تک کسی کو سندھی اور مہاجر یاد نہیں آیا لیکن اب الیکشن میں معصوم لوگوں کو مروانے کے لیے، لوگوں کی ہم دردی حاصل کرنے کے لیے لسانیت کے اس کارڈ کو استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ایکسپریس: آپ شہری سندھ کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وزیراعلیٰ سندھ کے نئے صوبے کی بابت حالیہ بیان پر آپ کی جماعت کی جانب سے کوئی سخت موقف اختیار نہیں کیا گیا، اس بارے میں کیا کہیں گے؟

انیس قائم خانی: ہم نہ ہی لسانیت کی سیاست کر رہے ہیں اور نہ ہی ہم نے شہری اور دیہی سندھ کی تفریق رکھی ہے۔ ہم اردو بولتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری پہلی سپورٹ شہری علاقوں کی ہے، لیکن ہمارے پورے سندھ کے 26 ڈسٹرکٹ میں دفاتر ہیں، ہر زبان بولنے والا ہمارے ساتھ ہے۔ بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بھی ہمارا کام بہت اچھا چل رہا ہے۔ جہاں تک سخت موقف کی بات ہے تو مصطفی کمال نے مراد علی شاہ کی اس تقریر بہت سخت موقف اختیار کرتے ہوئے دونوں جماعتوں کو لسانی کارڈ کے استعمال سے گریز کا کہا تھا۔ ہمیں مراد علی شاہ کی اس تقریر اور ایم کیو ایم کی جانب سے مہاجر صوبے کے مطالبے سے لاشوں کی بو آتی ہے، بھائی کو بھائی سے لڑانے کی سازش کی بو آتی ہے۔ مراد علی شاہ یہ بات کرکے سندھیوں کو اور ایم کیو ایم اردو بولنے والوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

آخر الیکشن سے پہلے مہاجر صوبہ بنانے کا شوشہ چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ پی ایس پی جھوٹ کی اس سیاست کو مسترد اور اس کی پُرزور مذمت کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مہاجروں کے لیے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ یہاں رہنے والی تمام لسانی اکائیوں کے ساتھ مل کر سیاست کریں۔ لسانیت کو فروغ دینے والی سیاست پاکستان کے حق میں اچھی نہیں ہے۔ ملک میں صوبے بننے چاہییں یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ صوبے بننے سے عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ صوبے انتظامی بنیاد پر بننے چاہییں لسانی بنیاد پر نہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے اس موقف سے ہمارا ووٹ بینک جس کی اکثریت اردو بولنے والوں کی ہے، متاثر ہوگا۔

ہوسکتا ہے کہ ان کی یہ بات درست ہو لیکن ہمیں لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانا ہے۔ ہمیں اپنے ووٹ بینک سے زیادہ لوگوں کی فکر ہے، ہم عوام کے جذبات ابھار کر ووٹ نہیں لیں گے۔ ایم کیو ایم پینتیس سال سے کراچی سے ووٹ لے رہی ہے تو انہوں نے اب تک صوبے کی بات نہیں کیوں نہیں کی؟ لوگوں کو پینے کا صاف پانی، سیوریج کا نظام اور صحت کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں، آپ اس پر بات کیوں نہیں کرتے ۔ بنیادی مسائل پر بات کر نہیں رہے اور لسانی بنیاد پر لوگوں کو مشتعل کر رہے ہیں۔ لوگوں کو کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہیے، چاہے وہ سندھی ہو، بلوچ ہو یا کسی بھی زبان کا بولنے والا ہو۔

ایکسپریس : آفاق احمد جنوبی سندھ صوبے کے لیے پُرزور مہم چلا رہے ہیں، کیا آپ کے خیال میں مہاجروں کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے الگ صوبے کا قیام ناگزیز ہے؟ کیا انہوں نے اس سلسلے میں رابطہ کیا؟ مستقبل میں ایم کیو ایم حقیقی کے پی ایس پی میں ضم ہونے کے کیا امکانات ہیں؟

انیس قائم خانی: آفاق آحمد پہلے یو سی کا الیکشن جیت لیں۔ اس کے بعد وہ یہ باتیں کرتے ہوئے اچھے لگیں گے۔ پاک سر زمین پارٹی لسانیت کی بنیاد پر کبھی سیاست نہیں کرے گی تو پھر اس بات کا کوئی جواز ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم آفاق احمد یا ایسی کسی اور تنظیم سے اس بابت بات کریں اور ویسے بھی ہمارا حال یا مستقبل میں ان سے اتحاد کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ایکسپریس: مہاجر صوبے کا نعرہ بار بار لگایا جاتا ہے اور پھر یہ نعرہ پُراسرار طور پر غائب ہوجاتا ہے۔ یہ نعرہ لگنے اور اس کے غائب ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟

انیس قائم خانی: اس نعرے کے مقاصد خالصتاً سیاسی ہیں، زبان کے نام پر عوام کا استحصال کرنے والی جماعتیں اپنے مفاد اور ووٹر کی جذباتی ہم دردی حاصل کرنے کے لیے یہ نعرہ لگاتی ہیں۔

ایکسپریس: بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ انتخابی حلقہ بندیوں کے ذریعے واضح طور پر اُردو بولنے والوں کے اکثریتی حلقوں کو اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ آیندہ مہاجروں کی کسی بھی نمائندہ جماعت کے لیے یہاں سرخرو ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے؟ آپ نے اس حوالے سے کوئی چارہ جوئی کی؟

انیس قائم خانی: ہم لسانیت کی سیاست نہیں کر رہے تو اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، میرا ووٹر سندھی بھی ہے، پنجابی بھی اور بلوچ اور پٹھان بھی۔ تو مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہر زبان بولنے والا ہمارے لیے قابل احترام ہے۔ مہاجروں کے لیے فائدہ مند ہے کہ وہ سب بھائیوں کے ساتھ مل کر سیاست کریں، انہوں نے پینتیس سال تک نو انتخابات میں مہاجر نام پر سیاست کی ہے لیکن کیا ان کے مسائل حل ہوئے؟ مجھے مہاجر ہونے پر فخر ہے اور امید ہے کہ اردو بولنے والا مہاجر طبقہ ہمیں کھل کر ووٹ دے گا، مہاجر اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ آج اور پینتیس سال پہلے کے کراچی میں کیا فرق ہے۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے آپ کا بنایا ہوا حیدرآباد گروپ غیراعلانیہ طور پر نائن زیرو کے سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا تھا، یہ کیا ماجرا تھا؟

انیس قائم خانی: میں پارٹی کا ڈپٹی کنونیئر تھا، میں پچیس سال سے کراچی میں رہ رہا ہوں، کیا کراچی، کیا حیدرآباد، سب لوگ میرے بچے ہیں۔ مجھے تو حیدرآباد سے زیادہ کراچی کے لوگوں سے محبت ہے۔

ایکسپریس: الطاف حسین کی متنازعہ تقاریر کی وضاحت رابطہ کمیٹی کے ارکان کرتے تھے، ایسے میں ان کا آف دی ریکارڈ ردعمل کیا ہوتا تھا، ایسا کوئی واقعہ سنائیں۔

انیس قائم خانی: آپ مجھ سے یہ مت پوچھیں۔ یہ سب کو پتا ہے کہ ان کا کیا رد عمل ہوتا تھا ۔ لوگوں کو اب الطاف حسین سے کوئی غرض نہیں ہے۔ وہ شخص اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ اب تو لوگ یہ چاہ رہے ہیں کہ یہ کچرے کے ڈھیر کیسے ختم ہوں گے، پانی کب ملے گا۔

ایکسپریس: کیا آپ کو نہیں لگتا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے اندرونی اختلافات سے دوسری جماعتوں خصوصاً پی ایس پی کو فائدہ پہنچے گا؟

انیس قائم خانی: ایم کیوایم پاکستان کے اندرونی اختلافات کا نقصان صرف انہی کو ہو رہا ہے۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ کارکردگی ہو یا نہ ہو لیکن ہر بار ووٹ آپ کو ملتا رہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی جماعت ہمیشہ جیتتی رہے۔ ایک طرف تو آپ کی خواہش ہے کہ جی لاہور میں عمران خان آجائے، پشاور میں عمران خان کی جگہ کوئی دوسرا آجائے۔ لیکن کراچی میں آپ چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کو پانی دیں نہ دیں، تعلیم، صحت اور روزگار دیں یا نہ دیں، لیکن ووٹ صرف ایم کیو ایم کو ہی ملے۔ جو جماعت کام کرے ووٹ اسی کو ملنا چاہیے۔

ایکسپریس: آپ کے خیال میں ایم کیو ایم پاکستان میں جاری اختلافات کی وجہ صرف کامران ٹیسوری ہی ہیں؟ یا پھر یہ عہدے اور اختیار کی رساکشی ہے؟

انیس قائم خانی: اختلافات کی وجہ صرف کامران ٹیسوری ہی نہیں ہیں۔ اختلافات کی کوئی نوعیت تو ہو، لیکن اُن کے یہاں تو جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ ہماری جماعت میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

ایکسپریس: آپ ہوں یا متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قائدین، سب کے سب سارے بگاڑ کا ذمے دار صرف ایک شخص الطاف حسین کو قرار دیتے ہیں، کیا پہلے کسی نادیدہ قوت نے آپ سب کو خاموشی سے صرف تماشا دیکھنے پر مجبور کررکھا تھا؟ کیا صرف ایک الطاف حسین پر سارا ملبہ ڈال کر بری الذمہ ہوا جاسکتا ہے؟

انیس قائم خانی: ایسا نہیں ہے کہ سارے بگاڑ کا ذمے دار ایک ہی شخص تھا مجھ میں اور مصطفی کمال میں اتنی اخلاقی جرأت تھی کہ پہلے مرحلے پر ہمیں جب لگا کہ ہم سب اس کے حصے دار ہیں اور ہمیں مزید اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے تو ہم 2013 میں پارٹی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ آج ہماری پارٹی ہے تو اس میں اگر کوئی بد نظمی، کرپشن یا بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اس کی ذمے داری مجھ پر اور مصطفی کمال پر آئے گی، کیوں کہ جو گھر کا بڑا ہوتا ہے اس پر سب سے بڑی ذمے داری عاید ہوتی ہے۔ اسی طرح سارے بگاڑ کا ذمے دار صرف ایک الطاف حسین کو قرار دے کر بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔ اگر گھر کا بڑا ہی خراب ہوں تو گھر کے سارے معاملات ہی خراب ہوتے ہیں اور وہ ہی سارے بگاڑ کا ذمے دار ہوتا ہے۔ چیزوں کو سدھارنا تو تنظیم کے بڑوں کا کام تھا۔

ایکسپریس : ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدرآباد میں پر تیس سال سے زائد عرصے تک سیاست کی، آپ نے بھی اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ اس تنظیم کو دیا، آج آپ خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟ ایم کیو ایم اپنے وہ مقاصد حاصل کرنے میں کیوں کر ناکام رہی جس کی بنیاد پر یہ قائم کی گئی تھی؟

انیس قائم خانی: میں ایک کارکن سے ڈپٹی کنونیئر کے عہدے تک پہنچا، انسان اپنے تجربے سے سیکھتا ضرور ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے کارکنوں سے اپنے لوگوں سے جو وعدہ کیا اسے پورا نہیں کیا، یہ ایم کیو کی ناکامی ہے۔ اسی لیے تو ہم نے دوسری پارٹی بنالی۔ اگر ایم کیو ایم میں خامیاں نہ ہوتیں تو ہم یہ دوسرا راستہ کیوں چُنتے۔

ایکسپریس: ماضی میں ایم کیو ایم حقیقی وجود میں آئی جس کے بانیوں میں سے ایک عامر خان آج ایم کیو ایم پاکستان کا حصہ ہیں، آفاق احمد اور عامر خان پارٹی سے الگ کیوں ہوئے اور کن وجوہات کی بنا پر حقیقی بنائی؟

انیس قائم خانی: ایم کیو ایم حقیقی ہے کون؟ یہ آج تک ایک یو سی کی سیٹ تو لے نہیں سکے۔ یہ جماعت کس کے کہنے پر بنائی گئی وہ سب کو پتا ہے۔ اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اور نہ ہی میں اس بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ آپ نے ایم کیو ایم کے منحرف رُکن عامر خان کو واپس لانے میں اہم کردار ادا کیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ الطاف حسین اور عامر خان کے درمیان رابطے بھی آپ ہی کے ذریعے ہوتے تھے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

انیس قائم خانی: نہیں اس میں میرا کوئی کردار نہیں ہے، میرا کردار محض اتنا تھا کہ عامر خان نے الطاف حسین صاحب کو ایک درخواست دی تھی جس پر انہوں کہا کہ آپ ان سے مل کر انہیں نائن زیرو لے آئیں۔ ہم ان کے کارکن تھے وہ جیسا حکم دیتے تھے ہم اس پر عمل درآمد کرتے تھے۔

ایکسپریس: آپ کا ڈاکٹر عمران فاروق سے بھی تعلق رہا، انھیں آپ نے کیسا پایا، اس بات میں کس حد تک سچائی ہے کہ عمران فاروق الگ پارٹی بنا رہے تھے؟

انیس قائم خانی: ڈاکٹرعمران فاروق بہت زبردست آدمی تھے، ان کا ایم کیو ایم میں مرکزی کردار تھا، وہ الطاف حسین کے بعد دوسرے مرکزی راہ نما تھے، جہاں تک تعلق اس بات کا تعلق ہے کہ وہ الگ پارٹی بنا رہے تھے یا نہیں تو مجھے اس بابت کچھ نہیں پتا، کیوں کہ وہ لندن میں تھے اور ان کے سارے معاملات وہیں چل رہے تھے۔

ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا پسند ہیں۔ پسندیدہ شاعر؟ پسندیدہ ادیب؟

انیس قائم خانی: کتابیں ہر موضوع پر پڑھنا پسند ہے، لیکن چوںکہ میں تاریخ کا طالب علم رہا ہوں تو تاریخ اور مذہب کی کتابیں بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔ پسندیدہ ادیبوں اور شاعروں کی فہرست تو بہت طویل ہے۔

ایکسپریس : گلوکار کون سا اچھا لگا؟ اداکار؟ اداکارہ؟ فلم جو پسند آئی؟

انیس قائم خانی: غزلیں بہت شوق سے سنتا ہوں۔ فلمیں جب بھی موقع ملے تو دیکھ لیتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔