ایف بی آر کو ٹیکس اہداف حاصل کرنے کیلیے ہر ممکن کوشش کی ہدایت

خصوصی رپورٹر / اے پی پی  جمعرات 7 جون 2018
ایمنسٹی اسکیموںاورری بیٹ کے ٹیکس اہداف پراثرات کی رپورٹ طلب، وزارت تجارت سے بھی درآمدات پربریفنگ مانگ لی۔ فوٹو : فائل

ایمنسٹی اسکیموںاورری بیٹ کے ٹیکس اہداف پراثرات کی رپورٹ طلب، وزارت تجارت سے بھی درآمدات پربریفنگ مانگ لی۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  نگران وزیر خزانہ، ریونیو، اقتصادی امور،تجارت، شماریات و منصوبہ بندی ڈاکٹر شمشاد اختر نے جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کو بڑھانے اور ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹیکس نظام کی اپ گریڈیشن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ایف بی آر کو ہدایت کی ہے کہ رواں مالی سال کے ٹیکس اہداف کے حصول کے لیے تمام ممکنہ کوششیں بروئے کار لائی جائیں۔

چیئرمین ایف بی آر طارق محمود پاشا نے انہیں نئی ذمہ داری سنبھالنے پر مبارکباد دی اور ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولیوں اور ٹیکس دہندگان کو سہولتوں دینے سے متعلق اقدامات کے بارے میں پریزنٹیشن دی۔

چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح جو 2012-13 میں 8.7 فیصد تھی بڑھ کر 2017-18 میں 12.4 فیصد ہو گئی ہے، اسی طرح گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد 14 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جبکہ 300 ارب روپے کے ایس آر اوز ختم کردیے گئے ہیں۔ انہوں نے ٹیکس دہندگان کی سہولت اور ریفنڈز کے سلسلے میں کیے گئے اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔

وزیر خزانہ نے ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال اور ایف بی آر کی اہمیت پر بات چیت کی اورکہا کہ ملک میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے درکار مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایف بی آر کے چیئرمین سے سابق حکومت کی جانب سے مختلف ایمنسٹی اسکیموں اور ٹیکس ری بیٹ کے مجموعی محصولات کے اہداف پر اثرات کے بارے میں رپورٹ طلب کی۔

وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے سینئر حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔علاوہ ازیں وفاقی وزیر تجارت ڈاکٹر شمشاد اختر کی زیرصدارت وزارت کی کا رکر د گی پر جائزہ اجلاس منعقد کیا گیا جس میں برآمدات بڑھانے اور درآمدات محدود کرنے کے سلسلے میں قلیل مدتی اقدامات زیر بحث لائے گئے۔

سیکریٹری تجارت یونس ڈاگھانے بریفنگ دی اور تجارت سے متعلق پالیسی فریم ورک سے بھی آگاہ کیا جس پر وزیر تجارت نے وزارت کو آئندہ اجلاس میں غیرضروری درآمدات پر بریفنگ دینے اور اسٹرکچرل مسائل سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔