حافظ عبدالکریم کا ڈیرہ غازی خان

اسلم خان  جمعـء 26 اپريل 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

جب پنجاب کے میدانوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں بہار، آمد بہار کا پیام آتا ہے۔ خنکی اپنا دامن سمیٹنے لگتی ہے۔ بہت برس ہوتے ہیں میرے قدم خود بخود ڈیرہ غازی خان کی طرف اٹھنے لگتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کی بے آب و گیاہ وسیع و عریض وادیوں میں، آمد بہار پر ہلکی سی سبزے کی تہہ نمودار ہو جاتی ہے۔ ہر قسم کی آلودگی سے پاک صاف اور صحت بخش ہوا، مشام جاں کو معطر کرتی ہے تو ان وادیوں میں استقبال بہار کا لطف دُوبالا ہو جاتا ہے۔

گئے برسوں میں ساہیوال کے ترقی پسند کاشتکار، ہمدمِ دیرینہ شبیر باجوہ ہمارے میزبان ہوتے تھے کہ ان کے عزیز مدتوں سے محکمہ انہار کے اعلیٰ افسر یہاں تعینات رہے۔  ہرن، پاڑوں اور تیتر کا لحم نایاب فروری کی خنک راتوں میں دھکتے الائو کے گرد براجمان ہم جیسے تن آسانوں کے اندر گرم و سرد لہروں کا جوار بھاٹا اُٹھا دیتا۔ ماحول کی خنکی اور کائنات کی خالص ترین اعلی پروٹین کی حرارت، محکمہ انہار کے ڈاک بنگلوں کے مرغزاروں میں اندھیروں سے اُلجھتے ہوئے الائو کے بھڑکتے ہوئے قد آدم شعلے عجیب منظر دِکھاتے تھے۔ حالات و واقعات اور ظالم مصروفیات نے ہماری سہ رُکنی آوارگان کی منڈلی کو بکھیر کر رکھ دیا ہے

اب یہ خاکسار تن تنہا استقبال بہار کی روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب میرے میزبان ڈاکٹر عبدالرحمٰن قریشی ہوتے ہیں۔ خدا ترس معالج جن کی زندگی کا واحد مقصد دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ٹھہرا۔

اس کالم نگار کو ڈیرہ غازی خان کئی دہائیوں سے محبوب و مطلوب رہا ہے کہ اسی سر زمین سے خدا کے ایک بندے کی ندا، صدائے بلند آہنگ بن کر اُبھری تھی۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید، جنہوں نے سید ابو الاعلیٰ مودودی کے تصوراتی کارکن، اسلامی انقلابی کو اس دور افتادہ اور پسماندہ علاقے میں مجسم اور مصور کر دکھایا تھا۔

مشرقی پنجاب کا مہاجر خاندان، زرخیز زمینوں کی تلاش میں مدتوں پہلے ڈیرہ غازی پہنچا تو اس نے تیشہء فرہاد لے کر صرف نہر نہیں کھودی بلکہ تخلیق کائنات  کے وقت سے بے آباد زمینوں کو سخت کوشی، محنت، صبر اور حوصلے سے سرسبز و شاداب کھیتوں اور کھلیانوں میں بدل دیا تھا۔ اسی جگہ، اسی کاشتکار خاندان میں ڈاکٹر نذیر شہید پروان چڑھے جن کا کل اثاثہ، صرف اور صرف سادگی اور سچائی تھی۔ جس کی طاقت نے بڑے بڑے بلوچ سرداروں، تمن داروں کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا اس بوریا نشین، فقر و فاقہ کی کامل تصویر ڈاکٹر نذیر شہید نے کسی ایرے غیرے کو نہیں، تمن دار لغاری سردار … سردار جمال خان مرحوم کو انتخابی مقابلے میں عوام کی محبت اور وارفتگی کے سہارے شکست دی تھی۔

مدتیں گزر چکیں، اس کالم نگار سے مکالمے کے دوران جب ڈاکٹر نذیر شہید اور سردار جمال خان لغاری کی شکست کا ذکر آیا تو مرحوم فاروق لغاری نے پہلو تہی کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ وہ ہماری قبائلی آویزشوں کا باب تھا جو مدتوں پہلے بند ہو چکا۔ سارے بلوچ سردار اور تمن دار لغاری سردار کے خلاف صف آرا تھے اور انھوں نے لغاری تمن دار کو شکست دینے کے لیے ڈاکٹر نذیر شہید کو اپنا مرکز و محور بنا لیا تھا۔ یہ غالباً پہلا واقعہ تھا کہ روایت شکن سردار شیر باز خان مزاری نے ڈاکٹر نذیر شہید کو رہبر و رہنما تسلیم کر کے بلوچ سماج کی صدیوں پرانی روایت کو چشم زدن میں تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ اپنے اس بیٹے کو اپنے ہی ملک میں جلا وطن ہونے پر مجبور کر دیاگیا ہے۔ مزاری سردار شیر باز خان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی عظیم الشان لائبریری میں گوشہ نشین ہو چکا ہے۔

1970ء کے عام انتخابات میں مغربی پاکستان بھٹو کے سحر کا شکار تھا۔ اک طوفان تھا کہ سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا لیکن یہ طوفان سادگی، خلوص اور خدمت کے تیل سے جلنے والے ڈاکٹر نذیر شہید کے چراغ کو نہ بجھا سکا۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این ڈبلیو 88 ڈیرہ غازی خان1سے ڈاکٹر نذیر احمد کے مقابلے میں لغاری سردار جمال خان پانچویں نمبر پر آئے تھے جب کہ قومی اسمبلی کے دوسرے حلقے این ڈبلیو 89 ڈیرہ غازی خان 2 سے سردار شیر باز خان مزاری 98 ہزار سے زائد ووٹ لے کر آزاد امیدوار کے طور پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔ اس طوفان میں بھٹو مرحوم کی مقبولیت کا سحر متحدہ پاکستان کو بھی تاریکیوں میں ڈبو گیا۔ سارے سردار اور تمن دار خس و خاشاک کی طرح تتر بتر ہو گئے۔

آج اسی ڈیرہ غازی خان میں چار دہائیوں کے بعد ایک اور ڈاکٹر اس خطہ بے نوا میں علم کے ہزاروں، لاکھوں چراغ روشن کرکے خدمت اور علم کی نورانی مشعل لے کر میدان سیاست میں اترا ہے۔ آج ڈیرہ غازی خان شہر کی شناخت کھوسہ، مزاری یا لغاری سردار نہیں، حافظ عبدالکریم ۔۔۔۔  بے آب و گیاہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسنے والے کورائی بلوچوں کا فرزند ارجمند، جس کا سینہ قرآن کے نور سے روشن ہے۔ وہ ڈاکٹر نذیر شہید کی صدائے باز گشت بن کر چار دہائیوں کے بعد ایک بار پھر تمن داروں کو للکار رہا ہے۔

کہتے ہیں کہ2008ء کے عام انتخابات میں مرحوم فارو ق لغاری صرف تین ہزار ووٹوں کی برتری سے جیت سکے تھے جس کے لیے آج کے قیدی کمانڈو جنرل مشرف بذات خود بروئے کار آئے تھے جب کہ ڈیرہ غازی خان کے ریٹرنگ افسر کو بے پناہ دبائو کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کی درس گاہوں میں 5 ہزار سے زائد درماندہ بلوچوں کے بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں جن کی رہائش، خوراک، لباس اور کتب سمیت تمام تر اخراجات حافظ عبدالکریم کے زیر اہتمام چلنے والے ٹرسٹ ادا کرتے ہیں۔

ڈیرہ غازی خان کے پسماندگان خاک صدیوں سے سرداروں کے جبر اور شوریدہ سر رودکوہیوں کے ظلم کا شکار ہیں۔

رودکوہیاں وہ تند و تیز برساتی نالے ہیں جب بپھرتے ہیں تو چشم زدن میں سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔2010ء  کے سیلاب کی کہانی منفرد داستان گو اور ساتھی کالم نگار وسعت اللہ خان نے ’’سیلاب ڈائری‘‘ میں تمام تر جزئیات کے ساتھ بیان کی ہے۔ جس میں انھوں نے ماہر مصور کی طرح ہماری معاشرتی بنت سیاسی اور قبائلی تقسیم تک کو واضح کر دیا ہے اس سیلاب کے دوران سارے سردار، تمن دار اپنی غلام رعایا کو حوادث زمانہ اور سنگدل فطرت کے سپرد کر کے اسلام آباد اور بیرون ملک اپنے عافیت کدوں میں روپوش ہو گئے تو اس ضلع کے پس ماندہ اور دُور افتادہ کونوں کھدروں تک خدمت اور علم کا نور پیام زندگی بن کر پہنچا تھا۔

یہ اُفتادگان ِخاک پہلی بار حافظ عبدالکریم کے نام سے حقیقی معنوں میں روشناس ہوئے۔ اب لغاری، کھوسہ، مزاری، قیصرانی، بزدار، گورچانی اور دریشک تمنوں میں بٹے بلوچ سماج اور ڈیرہ غازی خان کے کونے کونے، چے چپے میں ڈاکٹر عبدالکریم کا نام گونج رہا ہے۔ بلا غرض خدمت، فری شفاخانے، درس گاہوں کا منظم اور مربوط سلسلہ تمن اور سرداروں کی صدیوں سے قائم غیر مرئی اور نادیدہ تقسیم کو مٹا رہا ہے۔

2013ء  کا انتخاب اپنے جلو میں جہاں اور بہت سی حیرانیاں لے کر نمودار ہونے کو ہے وہاں ڈیرہ غازی خان میں مدتوں بعد ایک بار پھر شعلہ بیان مقرر ڈاکٹر نذیر شہید کی صدائے باز گشت گونج رہی ہے۔ اس بار علم حریت، خاک نشینوں کا ہمنوا، بے نوائوں کا غم گسار حافظ عبدالکریم میدان کارزار میں اترا ہے۔ ڈیرہ غازی خان کی شناخت ایک بار پھر بدل رہی ہے۔ ایک  نئی اور طاقتور صدا گونج رہی ہے۔

سنو زمانے والو، ہم بستیوں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔چاروں صوبوں کو باہم ملانے والا سنگم چوک اور اس کا پل ڈاٹ، شالیمار ہوٹل جہاں سے سفاک امریکی، فرزندِ زمین ایمل کانسی کو اغوا کر کے لے گئے تھے وہ شہر بے مثال جہاں ڈاکٹر عبدالرحمٰن قریشی جیسا معالج ہمہ وقت دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے بروئے کار ہے جس کا دن صبح سات بجے شروع اور رات 12 بجے ختم ہوتا ہے۔ اعلیٰ سرکاری معالج ہونے کے بعد باوجود پس ماندگان کی خدمت میں مصروف کار، ڈیرہ غازی خان کی مختلف، شناختیں اور علامتیں بتدریج دور غلامی کے نقوش مٹا رہی ہیں۔ ہر سال ڈاکٹر عبدالکریم کی درس گاہوں سے فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں بچے، بچیاں، روشنی اور امید کا دیا جلا رہی ہیں۔ یہ ماضی کا تاریک چہرہ نہیں، روشن مستقبل کی تابندہ علامت ہیں۔

سب کچھ بدل رہا ہے، علم کی روشنی پھیل رہی ہے۔ وادیوں اور کوہساروں میں اُمیدوں کے چراغ روشن ہیں ۔2013ء کے عام انتخابات خوش گوار حیرتوں کو اپنے جلو میں لیے دستک دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔