عوامی مسائل اور ان کا حل

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 26 اپريل 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

پاکستانی، جرمن، جاپانی اور چینی آپس میں دوست تھے۔ ایک روز جرمن نے اپنے دوستوں کو سوئی بناکر دکھائی جس میں دھاگا ڈالنے کے لیے سوراخ نہ تھا۔ جرمن نے کہا کہ آپ لوگ میری اس ایجاد میں کوئی اضافہ کریں گے؟

جاپانی دوست آگے بڑھا سوئی لے کر اگلے مہینے کا وعدہ کیا۔ اگلے مہینے جاپانی نے اس سوئی میں سوراخ یعنی ناکہ بناکر پیش کیا۔ جرمن دوست بہت خوش ہوا۔

جرمن نے پھر کہا کوئی اور اس میں اضافہ کرے گا؟ چینی دوست آگے بڑھا سوئی حاصل کی اور اگلے مہینے کا وقت لیا اور اگلے مہینے سوئی پیش کی۔ سوئی پر پالش ہوچکی تھی۔ جرمن دوست بہت خوش ہوا اور پھر پاکستانی دوست کی جانب متوجہ ہوکر بولا! تم بھی کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہو؟

پاکستانی بولا، کیوں نہیں آپ مجھے سوئی دیں میں ابھی آتا ہوں۔ یہ کہہ کر پاکستانی سوئی لے گیا اور تھوڑی ہی دیر میں واپس لاکر سوئی جرمن کو دے دی۔ سارے دوست پریشان تھے کہ اتنی جلدی اس پاکستانی نے کیا کیا ہوگا۔ جرمن نے سوئی کو غور سے دیکھا تو سوئی پر یہ تحریر تھا۔ ’’میڈ ان پاکستان‘‘

پاکستانیوں کو اگر ہر فن مولا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ آج بھی جب اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو مہنگائی کے ہاتھوں مارے بے چارے عوام کوئی نہ کوئی طریقہ یا توڑ نکال کر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور چند سکے بچانے کے لیے بھی راستے نکال لیتے ہیں مثلاً موبائل فون کا استعمال عام ہوا تو ایک دوسرے کو پیغام دینے کے لیے SMS کے پیسے بھی بچانے کا راستہ نکال لیا اور مس کال دے کر ابلاغ (Communicate) کرنے کا راستہ اپنالیا۔

جاپان نے لوڈنگ ٹرک بناکر مارکیٹ میں بھیجے تو پاکستانیوں نے ان لوڈنگ ٹرکوں کو مزدا ویگنوں میں تبدیل کرکے مسافروں کے لیے سروس شروع کردی، کیونکہ یہ مسافر بسوں کے مقابلے میں قیمتاً کم تھے۔ جب اچانک ان ٹرکوں کی ڈیمانڈ بڑھی تو جاپانی حیران ہوئے اور انھوں نے اپنے وفد کو پاکستان بھیجا کہ وہ خود جاکر جائزہ لے کر آئیں آخر پاکستان میں ان ٹرکوں کا کیا کیا جارہا ہے۔ جب وہ پاکستان آئے تو یہ راز کھلا کہ پاکستانی ان ٹرکوں کو مسافر بسوں کی جگہ استعمال کر رہے ہیں۔

بھارت میں سائیکل رکشہ چلانے سے گردوں کے مرض میں اضافہ ہورہا تھا، پاکستان میں یہ سائیکل رکشے کریانہ کا سامان لے جانے کے لیے استعمال ہوتے تھے لیکن پاکستانیوں نے ان میں ایک بیٹری اور موٹر لگاکر وزن کھینچنے کا حل نکال لیا اور بازار کی تنگ گلیوں میں جہاں بڑی گاڑیاں چلانا مشکل ہوتا ہے وہاں یہ ان سے با آسانی سامان کی نقل وحرکت کا کام لیتے۔

اسی طرح موٹر سائیکل پر دو افراد سوار ہوسکتے ہیں، یہ دو افراد کی ہی سواری ہے لیکن بعض غریب خاندان کے افراد نے موٹر سائیکل کے پیچھے اسٹینڈ اور گرل کے استعمال سے 4 بچوں اور میاں بیوی کی بیک وقت سواری بھی شروع کردی اور بیک وقت دو خواتین کو بٹھا کر موٹر سائیکل پر سواری کرنا تو عام ہو ہی چکا ہے۔ ایک اور مثال چنگ چی موٹر سائیکل رکشوں کی ہے، ان کی آمد سے جہاں لوگوں کو سستا روزگار ملا ہے وہیں عوام کو کم کرائے میں سفر کی سہولت بھی میسر آگئی ہے۔

یہاں ان تمام چیزوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ بتانا مقصود ہے کہ عوام کی اکثریت انتہائی گمبھیر مسائل میں گھری ہوئی ہے اور خاص کر مہنگائی سے انتہائی تنگ ہے اور اپنے طور پر اس سے نکلنے کی کوشش کرتی رہتی ہے لیکن ان کوششوں کو اس وقت شدید دھچکا لگتا ہے کہ جب حکمرانوں کی جانب سے عوام دشمن فیصلے کیے جاتے ہیں اور ہمارے منتخب نمایندے بھی ان فیصلوں کے آگے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ مثلاً ایسا ہی ایک اہم فیصلہ شہریوں کے لیے موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی کا فیصلہ ہے جو موجودہ نگراں حکومت کے دور میں بھی جاری ہے۔

اس سے انکار نہیں کہ کرائم کو کنٹرول کرنے میں اس عمل سے مدد ملتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کس قدر اور کس قیمت پر؟ مہنگائی کے دور میں لاکھوں لوگوں کو سستی سواری کے حق سے محروم کردینا کس حد تک انصاف پر مبنی ہے؟ ’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘ کے مصداق جو فیصلے امیر طبقے کے لیے ہوں وہ فوراً ہوجاتے ہیں لیکن غریب عوام کے حقوق کے لیے کانوں پر جوں نہیں رینگتی، مثلاً نگراں حکومت کا یہ فیصلہ دیکھ لیں کہ نئی گاڑیوں کی خریداری کے لیے این ٹی این نمبر کی شرط ختم کردی گئی یعنی قومی ٹیکس نمبر ظاہر کیے بغیر نئی گاڑی خریدنے کی اجازت، یوں ٹیکس گوشواروں میں نئی نئی گاڑیوں کی تفصیلات دینے سے نجات۔

اسی طرح مہنگی ترین گاڑیوں کے کالے شیشے اور بغیر نمبر پلیٹ کے مناظر صبح و شام سڑکوں پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں جو کہ دہشت گردی کے لیے انتہائی موزوں ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف مدد لی جاتی ہے تو صرف موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی سے۔ ڈبل سواری پر پابندی کے باعث ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے دوستوں یا گھر میں رہنے والے بھائیوں کو اپنے روزمرہ کے سفر کے لیے ایک ہی موٹر سائیکل پر سفر کے بجائے الگ الگ سفر کرنا پڑتا ہے، یوں اضافی رقم کرائے کی شکل میں خرچ کرنا پڑتی ہے اور وقت الگ ضایع ہوتا ہے۔

اسی طرح سی این جی اسٹیشن بند ہونے اور ہڑتال ہونے سے مسائل اور بھی بڑھ جاتے ہیں اور غریب عوام کا بھرکس ہی نکل جاتا ہے، ایمرجنسی میں ٹیکسی کرکے اسپتال وغیرہ پہنچنا ہو تو ہزار پانچ سو روپے صرف کرائے میں ہی لگ جاتے ہیں، یعنی تقریباً ایک مزدور کی دو دن کی دہاڑی۔ پاکستان کے غریب عوام ابھی تک ڈبل سواری پر پابندی اور ہڑتال کے باعث ہونے والی پریشانیوں کا توڑ نہیں نکال سکے ہیں۔

کاش ہمارے حکمران اپنے عوام کی ان تکالیف کا بھی خیال کریں اور اپنے فیصلے کرتے وقت تھوڑا بہت عوام کے لیے بھی سوچ لیں۔ کاش دہشت گردی کو روکنے کے لیے ڈبل سواری پر پابندی کے بجائے دیگر طریقے اپنالیں۔ کاش تمام جماعتیں یہ ضابطہ اخلاق بنالیں کہ کسی بھی ہڑتال میں پٹرول پمپ، میڈیکل اسٹور، موٹر سائیکلوں اور چنگ چی رکشا و ٹیکسیوں کو بند کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا تاکہ عوام کی مشکلات میں زیادہ اضافہ نہ ہو، کاش جلسے جلوس اور احتجاج کے وہ طریقے اپنالیں جس سے غریب عوام کا استحصال نہ ہو، کاش ہم سب اس پر غور کرلیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔