ایک نیا لیڈر

عبدالقادر حسن  ہفتہ 9 جون 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

الیکشن کے آغاز سے ہی ملک میں کئی نئی جماعتیں اور لیڈر بھی اچانک نمودار ہو رہے ہیں ان میں سے کچھ تو بالکل نئے ہیں جن کا قوم نے نام بھی نہیں سنا لیکن ان کا بھی اخبارات میں اپنے اشتہار چھپوا کر یہ دعویٰ ہے کہ ملک کی ترقی ان کے بغیر ممکن نہیں اوروہی عوام اور ملک کے اصل خیر خواہ ہیں ۔

ہمارے ہاں چونکہ لیڈری کا معیار ایسے اصول اور نظریات نہیں جو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور عوام میں مقبول رہتے ہیں اس لیے الیکشن میں جس لیڈر کو ووٹ نہ ملیں وہ تو گویا لیڈری سے محروم ہو گیا اسی طرح کے کئی لیڈر بلکہ جن کو فصلی لیڈر کہنا ہی شاید زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ وہ عین الیکشن کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں اور الیکشن کے مکمل ہونے کے بعد یہ اگلے الیکشن تک کہیں گم ہو جاتے ہیں ۔

ان نو وارد لیڈروں کا پاکستان کی ترقی کا تقریباً وہی ایجنڈا ہے جو کہ پاکستان کے باقی ماندہ سیاسی لیڈروں کا ہے لیکن ان نئے لیڈروں کی بد نصیبی یہ ہے کہ ان کو عوام لفٹ نہیں کراتے اور اپنے پرانے دیکھے بھالے لیڈروں کو ہی ترجیح دیتے ہیں حالانکہ ان کے پاس بھی کچھ نیا نہیں ہوتا لیکن وہ چونکہ عوام اور اپنے آزمائے ہوئے لیڈروں کے ہاتھوں دکھ اور دھوکے اٹھا چکے ہیں اس لیے ان کو انھی پرانے لیڈروں کی عادت پڑ گئی ہے اور کسی نئے لیڈرکو مشکل سے ہی عوام میں مقبولیت حاصل ہوتی ہے ۔

یہ موسمی لیڈر الیکشن کے ساتھ اگر غائب نہ ہوں اور تھوڑا بہت عوام کے سامنے رہیں اور آج کل کے جدید دور میں میڈیا استعمال کر کے بھی وہ سیاسی دنیا میں باآسانی زندہ رہ سکتے ہیںلیکن وہ شائد الیکشن کے نتائج سے اتنے دل برداشتہ ہوجاتے ہیں کہ آیندہ کے لیے الیکشن سے توبہ کر لیتے ہیں لیکن پھرجب نیا الیکشن شروع ہوتا ہے تو ان کے اندرسیاست کا کیڑا پھر جاگ اٹھتا ہے اور ایک نئی امید اور امنگ کے سہارے وہ دوبارہ کمر کس لیتے ہیں ۔

پاکستان کی سیاست برسوں برس سے مفادات کا ایسا کھیل بنی ہوئی ہے جس میں قاعدوں اور ضابطوں کا کوئی عمل دخل نہیں ۔ سیاست میں برداشت کا عمل تو بالکل مفقود ہو چکا ہے اور وہ روایات تو کہیں گم ہو گئی ہیں جو اخلاقیات کے قرینوں میں افضل سمجھی جاتی تھیں جو زندگی کو تہذیب کا حسن دیتے تھے مگر ہماری سیاست شخصی اور گروہی مفادات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قومی سیاست ہے جس کی پشت پر سب سے زیادہ تازیانے خود سیاست کاروں نے برسائے اور یہ انھی کی حشر سامانیوں کا کرشمہ ہے کہ ہم دنیا میں ایک تماشہ بن کر رہ گئے ہیں ۔ سیاست کی نئی کھیپ میں اگر کسی نئے سیاست دان کو جگہ ملی ہے تو وہ کرکٹ کے ہیرو عمران خان ہیں ۔

جنہوں نے اپنی ادھیڑ عمری میں پاکستان کے نوجوانوں کو پکارا ہے اور نوجوان کے سہارے سیاست کا رخ کامیابی سے موڑ دیا ہے، وہ ان سیاست دانوں میں سے ہیں جنہوں نے کسی ایک الیکشن کے بعد ہمت نہیں ہاری بلکہ مسلسل سیاسی میدان میں موجود رہے اور اپنی سیاست کو بام عروج پر پہنچا کر دم لیا ۔ اگر حقیقت کی بات کی جائے تو آج کی پاکستانی سیاست عمران خان کے بغیر نامکمل ہے وہ پاکستان کے اس طبقے کے نمایندے کے طور پر سامنے آئے ہیں جس نے کبھی ووٹ ہی نہیں دیا تھا اور گھر بیٹھ کر سیاسی تماشے سے لطف اندوز ہوتا تھا لیکن عمران نے اپنی جاندار سیاست سے اس طبقے کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے نوجوان طبقے نے بھی ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے بزرگوں کے برسوں پرانے سیاسی رشتوں کو خیر باد کہہ دیا اور عمران کے قافلے میں شامل ہو گئے ۔ عمران خان نے اس ملک کی سیاست کا حلیہ ہی بدل دیا ہے ۔کوٹھیوں اور بنگلوں میں بند سیاست کو وہ عوام کے میلے میں لے آئے ہیں ۔

روایتی وڈیروں کی بند بوتل سے انھوں نے اس جن کو نکال دیا ہے اور اب حالت یہ ہے کہ وہ خود بھی آج عوام کے درمیان کھڑے ہیں عوامی خواہشات کا ایک بوجھ ان کے کاندھوں پر ہے اور وہ اس کو اٹھانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں ۔ وہ اب اس مقام تک پہنچ چکے ہیںجہاں پر ان کو اب کسی کی مدد کی ضرورت نہیں بلکہ ان کی مدد کے سہارے بعض پرانے اور جماندرو قسم کے سیاستدان اپنی آخری خواہشیں پوری کرنا چاہتے ہیں اور ان میں سے کئی ایک اپنی سیاسی زندگی کا آخری الیکشن عمران خان کی جماعت کی جانب سے لڑ کر سیاست کو خیر آبا د کہنا چاہتے ہیں جن میں میرے کئی کرم فرما بھی شامل ہیں جن کا کبھی طوطی بولتا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ وہ عمران خان کے مرہون منت ہیں۔ عمران خان کے ساتھ بدقسمتی رہی کہ وہ چونکہ کرکٹ کے ہیرو تھے۔

اس لیے ان کا مزاج ابھی تک کھلنڈرا اور ہیرو والا ہی ہے وہ اپنی مرضی کے مالک ہیںاور وہی کرتے ہیں جو ان کے دل کو بھاتا ہے، اس عادت نے ان کو کئی دفعہ مشکلات سے بھی دوچار کیا اور خاص طور پر اہل سیاست ان کی اس کمزوری سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہر الیکشن سے پہلے ان کے خلاف ایسا مواد تیار رکھتے جو کہ عمران خان کو اپنے اصل مقصد سے ہٹا کر ایک نئی بحث یا کسی نئے معاملے میں الجھا دیتا ہے ۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس دفعہ بھی ان کو الیکشن سے پہلے درپیش ہے لیکن اب چونکہ ان کی پارٹی بہت بڑی پارٹی بن چکی ہے اس لیے ان کے خلاف پروپیگنڈہ اب بے اثر ہوتا جا رہا ہے ۔

عوام اس حد تک باشعور ہو چکے ہیں کہ ان کوبرے بھلے میں فرق معلوم ہو چکا ہے حالانکہ ان کے سیاسی حریفوں نے ان کے خلاف کاری وار کرنے کا منظم منصوبہ تیار کر رکھا تھا لیکن عمران کی سیاسی ٹیم نے نہ صرف اس کا بھرپور دفاع کیا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ انھوں نے دشمنوں کی صفوں میں ابتری پیدا کر دی ہے اور انھیں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ شرافت اور وضع داری کی سیاست ختم ہو چکی، مفادات کا عروج ہے اس میں فی الحال عمران خان فٹ نہیں بیٹھتے وہ ایک نیک نیت اور کھلے ذہن کے انسان ہیں ان کی بشری خامیاں بھی دوسرے انسانوں کی طرح ہیں لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ میانوالی کا یہ سپوت ملک کے ساتھ مخلص ہے اور نیازیوںکی بد نام تاریخ بدلنے کو تیار نظر آتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔