کبھی کبھی میرے دل میں…

سردار قریشی  ہفتہ 9 جون 2018

جاوید صبا اور میں نے 1978ء میں دورانِ مارشل لاء ایک ساتھ جیل کاٹی تھی۔ وہ ’’مساوات‘‘ اور میں ’’ہلالِ پاکستان‘‘ میں کام کرتا تھا جو دونوں بھٹو کے جاری کردہ پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبارات تھے۔ ہم نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائزکنفیڈریشن (اپنیک) کی کال پر چلائی گئی تحریک آزادی صحافت میں کراچی پریس کلب سے بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر گرفتاری دی تھی۔ تحریک کے قائدین میں پی ایف یو جے کے صدر منہاج برنا، سیکریٹری جنرل نثار عثمانی اورکراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) کے صدر احفاظ الرحمان شامل تھے۔

برنا صاحب تو سب سے پہلے بھوک ہڑتال شروع کرکے گرفتار ہونے والے دستے میں شامل تھے، ان کے بعد جلد ہی عثمانی صاحب بھی لاہور سے گرفتار کرلیے گئے۔ دونوں مرکزی رہنماؤں کی عدم موجودگی میں احفاظ الرحمن نے زیر زمین (انڈر گراؤنڈ) رہ کر جس طرح تحریک کی قیادت کی، ٹریڈ یونین تحریکوں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی تفصیل ان کی اپنی تصنیف ’’سب سے بڑی جنگ‘‘ میں موجود ہے جس کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے بھی شایع کیا ہے۔

دورانِ اسیری صباء اور میں درجنوں دوسرے ساتھیوں کے ساتھ پہلے کراچی کی لانڈھی جیل اور بعد ازاں سینٹرل جیل سکھرمیں قید رہے جہاں ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ گہرے دوست بن گئے۔ آزاد فضاء میں تو پاس پاس دفاتر ہونے کے باوجود ہماری جان پہچان رسمی دعا سلام تک محدود تھی، اسیری میں قربت اتنی بڑھی کہ ہروقت ساتھ رہتے، کھانا ساتھ بیٹھ کرکھاتے، دوسروں سے الگ ہوکر گھنٹوں باتیں کرتے یہاں تک کہ ساتھیوں نے اس کا نوٹس لینا شروع کر دیا۔

شبر اعظمی ، جو جیل میں بھی چوڑی دار پاجامہ پہنے رکھتے تھے، ایک دن ٹہلتے ہوئے ہمارے پاس آئے اور بولے یہ تم دونوں ہر وقت کیا باتیں کرتے رہتے ہو، جنرل ضیاء نے تو بغاوت کرکے بھٹو کا تختہ الٹا تھا کہیں تم دونوں اس کا دھڑن تختہ کرنے کا منصوبہ تو نہیں بنا رہے۔ بصیر نوید نے، جو ایسے موقعوں کی تاڑ میں رہتے تھے اور جنہوں نے سکھر کی جھلسا دینے والی گرمی سے گھبراکر قمیص اتارکرکندھے پر رکھ لی تھی، لقمہ دیا نہیں شبر بھائی یہ جیل توڑنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

انھیں الگ کریں ورنہ یہ خود تو فرار ہونے کی کوشش میں دریائے سندھ میں ڈوب مریں گے، ہمیں بھی قہر الٰہی (جیل سپرنٹینڈنٹ نور الٰہی شیخ) کے ہاتھوں بغاوت کے الزام میں پھانسی لگوا کے چھوڑیں گے۔ ان پڑھ مشین مین کریم بلوچ، جس پر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء کے خلاف گالی جیسی سرخی لگا کر جسٹس (ریٹائرڈ) لاری کا انگریزی اخبار ’’سن‘‘ بند کروانے کا الزام تھا، بھلا کہاں پیچھے رہنے والا تھا، شبر اور بصیر کو ہم سے باتیں کرتا دیکھ کر اسپیشل وارڈ کی بیرک کے اندر سے بھاگ کر آیا اور بولا ہم کو اصل بات کا پتہ ہے پر تم کو بتائے گا نہیں۔ صباء جو شرمیلا بھی بہت تھا ان کی ایسی باتیں سن کر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا تو میں اس کا ہاتھ پکڑ لیتا اور کھینچ کر پھر پاس بٹھا لیتا لیکن وہ ان لوگوں کے جانے تک مسلسل کسمساتا رہتا اور کہتا سردار بھائی یہ لوگ کیسی باتیں کرتے ہیں، بھلا ہم کیوں جنرل ضیاء کے خلاف بغاوت کریں گے یا جیل توڑ نے کا منصوبہ بنائیں گے۔ میں کہتا مذاق کرتے ہیں، تم پریشان مت ہو لیکن اس کو یقین نہ آتا۔

صبا نہ صرف بہت اچھا اور آرٹس کونسل تک کے مشاعروں میں مدعو کیا جانے والا شاعر تھا بلکہ گیت اور غزلیں گنگناتا بھی خوب تھا۔ میں جب کبھی اسے موڈ میں دیکھتا ہاتھ پکڑکر بند وارڈ کے عقب میں ہمارے اسپیشل وارڈ کو زنانہ وارڈ سے الگ کرنے والی اونچی دیوار کے پاس لے جاتا جس کے سائے میں بیٹھ کر ہم اپنی شامِ غزل سجاتے۔ وہ جھوم جھوم کر احمد ندیم قاسمی کی غزل ’’ کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا، میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا‘‘ اور لتا و رفیع کا گایا ہوا فلمی دوگانا ’’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے، تجھے زمیں پہ اتارا گیا ہے میرے لیے‘‘ گاتا اور ایسا گاتا کہ مزہ آجاتا۔ ایک دن بڑا عجیب اور دلچسپ واقعہ پیش آیا، ہم دنوں حسب معمول دیوار سے ٹیک لگاکر زمین پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھے تھے۔

صبا نے جوں ہی گانا شروع کیا دیوار کے اس پار سے بھی سْرکے ساتھ سْر ملایا جانے لگا، ایک لائن صبا گاتا تو دوسری وہاں سے سنائی دیتی ۔ وہ گانے میں ایسا مگن تھا کہ کتنی دیر تک میں اکیلا ہی لطف لیتا رہا، اس نے سْر ملانے والی دوسری آواز سنی ہی نہیں لیکن پھر جب اس کے کانوں میں بھی نسوانی آواز نے رس گھولنا شروع کیا تو میں نے دیکھا اس پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا ہو۔ یہ چپ ہوا تو دوسری طرف بھی خاموشی چھا گئی۔

صبا کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا، اچھل کرکھڑا ہوا اور سرپٹ بیرک کی طرف بھاگنے لگا۔ آگے آگے وہ اور پیچھے پیچھے میں، بیرک کے دالان میں پہنچ کر رکا تو میں نے دیکھا بہت گھبرایا ہوا تھا۔ پوچھا کیا ہوا تو پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے بولا سردار بھائی پتہ نہیں کون تھی، میں تو اسے جانتا تک نہیں، شکر ہے ہم دونوں کے سوا وہاں اور کوئی نہیں تھا، اگرکوئی اسے میرے ساتھ گاتے اور سْر ملاتے ہوئے دیکھ لیتا تو اپنی شامت آجاتی۔ اب ہم وہاں نہیں جائیں گے، اس قہر الٰہی کے بچے کو پتہ چل گیا تو فوراً میرا دوسری جیل میں ٹرانسفر کردے گا۔ میں نے اسے تسلی دی اور کہا ایسی کی تیسی قہر الٰہی کی، ہم یہاں اتنے سارے ہیں، تم اکیلے نہیں ہو، وہ تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔

وہ واقعی ڈرگیا تھا، شام کو جب ہم بیرک کے دوسری طرف والے صحن میں درخت سے لگے بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور ساتھی غلام محمد جتوئی ہمیں دو مگوں میں چائے دینے آیا،اس نے رازدارانہ انداز میں پوچھا جیل میں آسیب تو ہو نہیں سکتا، پھر وہ آواز کس کی تھی۔ مجھے مذاق سوجھا سو میں نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے جواب دیا آسیب ہو بھی سکتا ہے اور وہ آسیب تم خود ہو۔ اس کو حیران ہوتا دیکھ کر میں نے کہا یہ سب تمہارے زنانہ تخلص ’’صبا‘‘ کی وجہ سے ہوا، اسے مزید حیران ہوتا دیکھ کر میں نے کہا بھئی کوئی صبا بیگم بھی تو ہوسکتی ہے۔ جیل کے زنانہ وارڈ میں قیدی عورتیں ہی ہوتی ہیں، تمہاری طرح ان میں سے کسی کو بھی گانے کا شوق ہو سکتا ہے، جیسے ہم جاکر بیٹھتے تھے ویسے کوئی ایک یا دو قیدی عورتیں بھی تو دیوار کی اس طرف اپنی حدود میں رہتے ہوئے وہاں بیٹھ کرگانے کا شوق پورا کرسکتی ہیں۔

بہت بھولا اور سادہ لوح آدمی تھا، جانے اتنا اچھا شاعر کیسے بن گیا تھا۔ میں نے ایک دفعہ غلطی سے پوچھ لیا کہ کیا میں شاعر بن سکتا ہوں تو اس نے سنجیدگی سے مجھے شاعری سکھانی شروع کردی، پہلے پہل میں کوئی شعر موزوں کرتا تو وہ اس کی اصلاح کرتا پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ میرے اشعار کی اصلاح کیے بغیر تعریف کرنے لگتا اور دوسرے ساتھیوں کو بھی پڑھ کر سناتا۔ جیل سے رہا ہونے تک میں دو تین غزلیں ہی موزوں کر پایا تھا۔ فرصت کے دن ختم ہوئے تو شاعری کا بھوت بھی سر سے اتر گیا۔ ہمارے دفاتر تو قریب قریب تھے ہی، کبھی میں اس سے ملنے مساوات کے دفتر چلا جاتا جو فریئر روڈ پر سندھ مدرسۃ الاسلام کے بالمقابل سندھ زمیندارکوآپریٹو بینک بلڈنگ میں اوپر ہوا کرتا تھا تو کبھی وہ ٹہلتا ہوا بندر روڈ پر سٹی کورٹ کے سامنے واقع بینک آف انڈیا بلڈنگ میں مجھ سے ملنے آجاتا۔

کبھی کبھی ہم لنچ کرنے پیدل ہی بوتل گلی اور پاکستان چوک کے راستے پریس کلب جا نکلتے۔ پھر کئی دن گزرگئے ہماری ملاقات نہیں ہوئی، میں اس کے دفتر پہنچا تو پتہ چلا صبا کسی کام سے کوئٹہ گیا ہوا ہے۔ کام کچھ زیادہ ہی لمبا ہوگیا، کئی سال بیت گئے ۔ 90۔ 1988ء کے دوران جب میں ضیاء الاسلام انصاری کی جگہ ’’سویرا‘‘ کا ایڈیٹر مقرر ہوا تو ایک دن صبا کا ذکر نکلا، ساتھی سب ایڈیٹر ابوبکر بلوانی نے بتایا کہ وہ اسے جانتا ہے۔ دونوں اورنگی ٹاؤن میں کہیں رہتے تھے۔ میری حیرانی اور خوشی کی کوئی حد نہ رہی جب ایک روز وہ صبا کو اپنے ساتھ دفتر لے آیا۔ ہم بہت دیر تک بیٹھے پرانی یادیں تازہ کرتے رہے۔ بس وہ ہماری آخری ملاقات تھی، مجھے کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ کہاں ہے اورجہاں بھی ہو اللہ اسے خوش رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔