کرپشن کیس؛ گھانا فٹبال ایسوسی ایشن تحلیل

خبر ایجنسی  ہفتہ 9 جون 2018
فیفا نے بھی ایکشن لیتے ہوئے سابق چیف کیواسی پر 90یوم کی پابندی عائد کر دی۔فوٹو : فائل

فیفا نے بھی ایکشن لیتے ہوئے سابق چیف کیواسی پر 90یوم کی پابندی عائد کر دی۔فوٹو : فائل

آکرہ:  گھانا نے ریفریز اور ٹاپ آفیشلز کو تحائف اور رشوت لیے جانے کا اسکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد ملکی فٹبال ایسوسی ایشن تحلیل کردی۔

گزشتہ دنوں اسٹنگ آپریشن میں یہ راز فاش کیاگیا تھا جس کے بعد وزیر اطلاعات مصطفیٰ عبدالحامد نے کہا کہ حکومت نے اسکینڈل سامنے آنے پر فوری ایکشن لیتے ہوئے گھانا فٹبال ایسوسی ایشن کو تحلیل کردیا ہے۔

طویل عرصے سے تیار انڈر کور دستاویزی فلم گذشتہ دنوں میڈیا میں پیش کی گئی تھی، جس میں خفیہ کیمروں کے ذریعے ریفریز کو 100 ڈالر فی میچ رشوت لیتے ہوئے دکھایاگیا، اسی میں مذکورہ رپورٹر سے جی ایف اے کے صدر کیویسی نیان ٹیکی کی جانب سے حکومتی کنٹریکٹس دیے جانے کے عوض 11 ملین ڈالرطلب کیے گئے تھے۔

وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ معاملے کی مکمل چھان بین کرنے کے بعد ذمے داروں کیخلاف مزید کارروائی کی جائے گی، گھانا کی حکومت نے اس  بابت سی اے ایف اور فیفا کو بھی مطلع کردیا ہے۔

دوسری جانب فیفا کی فیصلہ ساز کونسل نے گھانا فٹبال کے سابق چیف کیواسی نیان ٹیکی پر 90 یوم کی پابندی عائد کردی۔ وہ زیر تفتیش ہونے کی بنیاد پر معطل کیے گئے اور ان کیخلاف ایتھکس قواعد کی خلاف ورزی پر ایکشن بھی لیا جاسکتا ہے۔

گلوبل سوکر باڈی نے اس کااعلان جمعے کو کردیا، اس سے قبل گھانا کی حکومت نے ملکی فٹبال باڈی ( جی ایف اے ) کو تحلیل کردیا تھا، اس سے قبل دستاویزی فلم نشر ہونے پر کیواسی نے کئی بار درخواست کیے جانے کے باوجود کوئی رائے نہیں دی تھی تاہم جی ایف اے کی جانب سے تحلیل کیے جانے سے پہلے تحقیقات میں مکمل تعاون کرنے کاعزم ظاہر کیاگیا تھا۔

کیواسی 2005 سے جی ایف اے کے صدر منتخب ہوتے چلے آرہے تھے اور انھیں ستمبر2016 میں فیفا کونسل بھی شامل کیاگیا تھا، اس کے علاوہ فیفا نے گھانا حکومت کی جانب سے جی ایف اے تحلیل کیے جانے پر کسی بھی ممکنہ ایکشن پر کوئی رائے نہیں دی۔

واضح رہے کہ عالمی گورننگ باڈی کسی بھی تیسرے فریق کو ملکی فٹبال کے معاملات میں قبول نہیں کرتی ہے، جس میں حکومتی مداخلت پر ممبر ایسوسی ایشن کی رکنیت معطل کردی جاتی ہے، گھانا 14 جون سے روس میں شروع ہونے والے ورلڈ کپ میں شریک نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔