بہروپیے…؟

رئیس فاطمہ  اتوار 12 اگست 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی یہ بات درست ہو۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں یا عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں، جنھیں پانچواں خلیفۂ راشد بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی ذات با برکت تھی ہی ایسی… یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ دوسرے اسلامی ملکوں میں واقعی شیطان کا داخلہ ممنوع ہو، لیکن پاکستان میں صورت حال یکسر مختلف ہے۔ بے شک ابلیس کو بند کر دیا جاتا ہے لیکن وہ جو اس کے کئی ہزار کارندے ہر طرف نظر آتے ہیں، ان کی جلوہ طرازیوں کے کیا کہنے۔ ان میں زیادہ تر تو ایسے ہیں جنھیں لوگ باآسانی پہچان لیتے ہیں۔ لیکن ابلیس کے یہ کارندے جب مذہب کے نام پر اپنا بھیس بدل کے عوام کے سامنے آتے ہیں تو لوگ انھیں ان کے ظاہری حلیے کی بِنا پہ پہچان نہیں پاتے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ مذہب کے نام پر جو تجارت ہو رہی ہے اس میں صرف میک اپ کا کمال ہے۔ یہ پر نور چہرے، یہ حلیۂ مبارک، یہ بڑی بڑی تقاریر، جنھیں اگر آپ دو منٹ سن لیں تو خود کو جہنمی سمجھیں گے، لیکن ان کے اصلی روپ اگر دیکھ لیں تو کراہت سے منہ پھیر لیں۔

پاکستان میں مذہب کی تجارت ایک بہت منافع بخش کاروبار ہے۔ خاص کر رمضان میں، جیسا کہ میں نے بہت پہلے کسی کالم میں لکھا ہے کہ اس ماہ سب سے زیادہ کاروبار زکوٰۃ اور فطرانے کا ہوتا ہے۔ نہ جانے کتنی NGO’s اور کتنے خیراتی اداروں کے علاوہ مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے کارندوں کے علاوہ اپنی اپنی ذاتی حیثیت میں کون کون کس کس طرح لوگوں کو لوٹنے کے پروگرام بناتا ہے۔

رمضان کے مہینے میں چہرے پر پاکیزگی کا میک اپ کر کے، آواز میں رقت پیدا کر کے، گلیسرین کے آنسوئوں سے چہرۂ پر نور بھگو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے والے، قوم کے لیے دعائیں مانگنے والے۔ لوگوں کے خصوصاً عورتوں کو متاثر کر کے توبہ کرانے والوں کے اصلی چہرے اگر لوگوں کے سامنے آ جائیں تو لوگ ہکا بکا رہ جائیں کہ یہ جو ہمارے سامنے اپنا چہرۂ پر نور لیے کھڑے ہیں جس پر میک اپ نے پاکیزگی کا ماسک لگا دیا ہے، ان کا اصل کاروبار کیا ہے؟ محض کاروبار کو چمکانے، مذہب کے نام پر اپنی مقبولیت کا گراف بڑھانے اور اپنی جیبیں بھرنے کا نام؟ ہر سال رمضان المبارک میں یہ بہروپیے مختلف روپ دھارے نظر آتے ہیں۔ کبھی پِک اپ گاڑیوں میں قرآن مجید کے سستے نسخے نہایت مہنگے داموں بیچتے ہوئے، کبھی غریب اور نادار بچّوں کی تعلیم کے لیے سپارے خریدنے کے لیے اور کبھی انھیں افطار کرانے کے لیے یہ بہروپیے نکل پڑتے ہیں۔

لیکن ان بہروپیوں کا طریقۂ واردات الگ الگ ہے۔ رمضان میں ویسے ہی لوگوں کا دل نرم ہوتا ہے۔ صدقہ اور خیرات کا رجحان بڑھ جاتا ہے، جس سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف یہ کہ پورے ملک کے اٹھائی گیرے اور فقیر کراچی، اسلام آباد اور لاہور کا رخ کرتے ہیں بلکہ کچھ بڑے کلاکار عمرے پر جا کر وہاں صدقہ اور فطرانہ جمع کرنے کا دھندا کرتے ہیں۔ ایسے بہروپیوں کے لیے جو نفسیاتی اثر ڈال کر لوگوں کی جیبوں سے رقم نکلواتے ہیں، ان میں خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ خواتین کی ایک بہت بری عادت یہ ہے کہ ان کے آگے جہاں کسی نے ہاتھ پھیلایا، فوراً ان کے پرس کی زنجیر کھل گئی اور انھوں نے کم از کم 10 روپے ضرور اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ یہی خواتین اس وقت بے تعلق بنی بیٹھی رہتی ہیں جب کوئی غریب شخص انھیں پھول خریدنے کے لیے کہے یا کوئی حلال کی روزی کمانے والا ان کو اخبار فروخت کرنا چاہے یا کوئی غریب چنے اور مونگ پھلی خریدنے کو کہے جب کہ ہٹی کٹی جرائم پیشہ عورتوں، جعلی بھکاریوں کے لیے فوراً ہماری خواتین انھیں کچھ رقم دے کر جنّت میں ایڈوانس بکنگ کروا لیتی ہیں۔

بہروپیے ہر زمانے میں ہوتے تھے، خاص کر 1947 سے پہلے غیر منقسم ہندوستان میں بہروپیوں کی باقاعدہ تاریخ ہے، لیکن یہ وہ بہروپیے ہوتے ہیں جن کے اصل سے سب واقف ہوتے تھے اور جو بھیس صرف اس لیے بدلتے تھے کہ اس سے انھیں سماج کی اصلاح منظور ہوتی تھی۔ ان کے فن سے خوش ہو کر لوگ انھیں انعام و اکرام بھی دیتے تھے، جن سے ان کا گھر چلتا تھا، لیکن آج کے جدید بہروپیے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بے وقوف بنانے اور لوٹنے کا کاروبار بڑے فخر سے کرتے ہیں لیکن افسوس کہ ہم وہ سارا سچ نہیں بتا سکتے۔ ہم باوجود ان کی اصلیت اور کاروبار جاننے کے ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھ سکتے کیونکہ مصلحتوں نے ہمارے قلم کو آزمایش میں ڈالا ہوا ہے۔ ایسے میں ایک گھٹن سی ہوتی ہے کہ یہ جو بہروپیے مختلف رنگ کے میک اپ کر کے کہیں زکوٰۃ مانگ رہے ہیں، کہیں فطرانہ، کہیں صدقہ اور کہیں خیرات اور کہیں لوگوں کو یہ احساس دلا رہے ہیں کہ تم بہت زیادہ گنہگار ہو، میرا پروگرام دیکھو، میری باتیں سنو تو جنّت کا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہے، ورنہ جہنم کا کندہ بننے کو تیار رہو۔ تب جی چاہتا ہے کہ ان بہروپیوں کا اصل چہرہ لوگوں کو دکھا دیں، خصوصاً خواتین کو جو ظاہری چیزوں سے بہت جلدی متاثر ہو جاتی ہیں۔

ابھی میں یہیں تک لکھنے پائی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بڑے زور سے بجی۔ ایسا لگا جیسے کوئی انگلی رکھ کے ہٹانا بھول گیا ہو، جا کر دروازہ کھولا تو نظریں جھکائے دو مولانا نظر آئے۔ جی فرمائیے، میں نے کہا، ’’گھر میں کوئی مرد ہو تو باہر بھیجیے۔‘‘ مجھے شدید غصّہ آیا لیکن پی گئی اور آہستہ سے کہا، ’’آپ کو معلوم نہیں کہ دوپہر ساڑھے بارہ بجے مرد حضرات گھر پر نہیں ہوتے۔ اگر مردوں ہی سے کام تھا تو آپ شام کو تشریف لاتے۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے دروازہ بند کرنا چاہا تو ایک تنومند صاحب نے فوراً گرل کو پکڑ لیا اور بولے ’’بہن کوئی بات نہیں اگر ہمارے بھائی گھر پہ نہیں ہیں لیکن ہمارا مسئلہ تو آپ بھی حل کر سکتی ہیں۔‘‘ میں سمجھ تو گئی کہ معاملہ یقیناً چندے کا ہے، پھر بھی پوچھ لیا تو آواز میں رقت طاری کر کے بولے ’’بہن ہمارا مدرسہ اورنگی ٹائون میں ہے۔ ہمیں اپنے بچّوں کو قرآن پاک اور سپاروں کے علاوہ عید کے لیے نئے کپڑے بھی خرید کر دینے ہیں، اس لیے اس نیک کام میں آپ بھی اپنا حصّہ ڈالیے۔‘‘ یہ کہہ کر ایک رسید پھاڑ کر میرے آگے کردی۔ جس پہ 100، 200 اور 500 کے ہندسے چھپے ہوئے تھے۔ میں نے کہا کہ ہم چندا کسی کو نہیں دیتے، البتہ اگر وہ اپنے مدرسے کا پتہ دے جائیں تو جو کچھ بھی توفیق ہو گی وہ وہیں پہنچا دیا جائے گا۔ یہ سن کر جھٹ سے بولے ’’میری بہن آپ کہاں اتنی دور آئیں گی، بس جو بھی توفیق ہو وہ ہمیں ہی دے دیجیے۔‘‘ میں نے جب یہ کہا کہ آپ بھی تو اتنی دور سے چندا مانگنے آئے ہیں۔ اپنے قریبی علاقوں کو چھوڑ کر یہاں اتنی دور… تو وہ کچھ بڑبڑاتے نیچے اتر گئے۔

اور صرف یہی نہیں ساتویں روزے سے مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے کارکن رسیدیں لیے روزہ افطار ہونے کے بعد گھنٹیاں بجاتے ہیں اور زکوٰۃ و فطرانے کی رقم طلب کرتے ہیں۔ ایسا کئی سال سے ہو رہا ہے، رقم نہ دینے والوں کو دھمکیاں بھی ملتی ہیں اور خطرناک نتائج بھگتنے کے لیے بھی تیار رہنے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہوا؟ اگر ہماری مختلف دینی اور سیاسی جماعتیں زکوٰۃ اور فطرانہ جبراً وصول کروانے کا کلچر متعارف نہ کرواتیں تو یہ طرح طرح کے بہروپیے کیوں لوگوں کو بے وقوف بنانے کی ہمت کرتے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔