سی پیک، پاکستان کےلیے نہیں!

خلیل احمد  پير 11 جون 2018
سی پیک کیلئے حکومت نے کوئی ٹھوس تحقیق نہیں کی بلکہ سارے منصوبے شریف خاندان کے شاہی مزاج کے زیر اثر بنائے گئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سی پیک کیلئے حکومت نے کوئی ٹھوس تحقیق نہیں کی بلکہ سارے منصوبے شریف خاندان کے شاہی مزاج کے زیر اثر بنائے گئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جس عجلت اور تنگ نظری سے ن لیگ نے پاک چین اقتصادی راہداری یا ’’سی پیک‘‘ (CPEC) کے حوالے سے چین کے ساتھ شرائط و ضوابط طے کیے ہیں اور جو منصوبے لانچ کیے ہیں، ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ پاکستان اور پاکستان کے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ ملک و قوم کے ساتھ بالکل مخلص نہیں، یہ ذاتی مفادات کی خاطر غیر ملکیوں کو پاکستانیوں پر ترجیح دیتے ہیں بلکہ ان کےلیے پاکستانیوں کو زندہ درگور کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

منصوبوں کی تیاری، ان کےلیے بجٹ کی منظوری، ان کے طویل و مختصر مدتی معاشی، سماجی اور سیاسی اثرات اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے اس حکومت نے کوئی ٹھوس اور جامع تحقیق نہیں کی بلکہ یہ سارے منصوبے اسی شاہی مزاج کے زیر اثر بنائے گئے جو شریف خاندان کا خاصّہ ہے۔ ان منصوبوں سے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات نہیں پڑیں گے بلکہ پاکستان کی معیشت مزید مشکلات کا شکار ہوگی۔ اگرچہ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے اور یہ پاکستان کےلیے ضروری بھی ہے مگر یہ اسی وقت پاکستان کےلیے فائدہ مند ہو سکتا ہے جب اس پر کام کرنے والے حکمران پاکستان کےلیے مخلص ہوں اور انہیں قومی مفاد اپنے ذاتی مفاد سے زیادہ عزیز ہو۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت اس منصوبے میں بڑی بڑی خامیاں موجود ہیں جو آنے والے دنوں میں پاکستان کی نہ صرف معیشت بلکہ سالمیت و بقا کےلیے بھی خطرناک ثابت ہوں گی۔ اگر بروقت ان خامیوں کو دور نہ کیا گیا اور مناسب اقدامات کے ذریعے پاکستانی عوام تک اس منصوبے کے ثمرات نہ پہنچائے گئے اور صرف چائنیز کو ہی نوازا گیا تو اس ملک میں ایسٹ انڈیا کمپنی پارٹ ٹو کا خطرہ درپیش ہے۔

بے شک چین پاکستان دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری، شہد سے میٹھی اور فولاد سے زیادہ مضبوط ہے مگر یہ بات ذہن میں رکھیے کہ چین زیادہ چالاک اور ہوشیار ہے۔ چین ایک کاروباری سوچ کا حامل ملک ہے۔ اس کا ہر قدم اپنے قومی مفادات کو پورا کرنے میں اٹھتا ہے، وہ لوگوں کو اپنا غلام بنانے کی نئی تکنیک سے باخبر ہے، وہ کاروباری اور تجارتی پیمانے پر دیگر ممالک کو اپنا محتاج اور دست نگر بنانے کا ہنر جان چکا ہے، اسے دیگر ممالک کی تاریخ سے معلوم ہوچکا ہے کہ جنگ سے ملکوں کو فتح نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان ممالک میں اپنی مصنوعات کی اجارہ داری قائم کرکے اور اس ملک کی اپنی مقامی صنعت کو تباہ کرکے اس ملک کو اپنا معاشی غلام بنانا زیادہ آسان اور منافع بخش ہے اور چین اسی سوچ کے تحت پوری دنیا میں اپنا کاروباری و صنعتی دائرہ تیزی سے پھیلا رہا ہے اور سی پیک، چین کے اس بڑے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔

مگر دوسری طرف پاکستانی حکمران جو صرف اپنے ملک کو لوٹنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں، ان میں اس طرح کی کوئی چالاکی اور دور اندیشی نہیں پائی جاتی۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ جب مقامی صنعت تباہ ہوجائے گی اور ہماری تمام مصنوعات چین یا دیگر ممالک سے آئیں گی تو پاکستان کے 21 کروڑ عوام کس طرح زندگی گزاریں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستان ہر شعبے میں خود کفیل ہونے کی طرف بڑھے اور اپنی تمام اقسام کی پیداوار میں اضافے کی منصوبہ بندی کرے، اپنی برآمدات کو زیادہ اور درآمدات کو کم کرے اور پاکستانی لوگوں کےلیے روزگار کے مواقع زیادہ سے زیادہ پیدا کرے تاکہ ملک میں بے روزگاری کا خاتمہ ہو اور پھر ترقی کی اگلی منازل طے کی جائیں۔ مگر یہاں کیا ہورہا ہے؟

پاکستانی صنعت کا بیڑا غرق کیا جارہا ہے، پاکستانی سرمایہ کاروں کو بد ظن کیا جارہا ہے، پاکستانی کی پڑھی لکھی افرادی قوت کو استعمال کرنے کے بجائے صرف چینیوں کو مواقع دیئے جا رہے ہیں، انہیں پاکستانیوں کے مقابلے میں ٹیکس کی چھوٹ اور دیگر معاشی مراعات دی جا رہی ہیں، ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا جارہا ہے، ان کےلیے قوانین اور ویزا پالیسی نرم کی جارہی ہے، وہ پاکستانی کاروبار پر قبضہ کر رہے ہیں، وہ اپنی مصنوعات کو براہ راست پاکستان میں خود بیچ رہے ہیں۔ اس طرح پاکستانی معیشت کو دو طرح سے نقصان ہورہا ہے۔ اوّل یہ کہ پاکستان میں بننے والی مصنوعات کی طلب کم ہو رہی ہے، جس سے پاکستانی صنعت کاروں کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور دوسرے نمبر پر ان لوگوں کا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے جو چائنا سے مال درآمد کرتے تھے اور اس میں سے کچھ نفع کما کر اپنا رزق کماتے تھے۔ اب دونوں سطحوں پر چینی قبضہ کررہے ہیں، یعنی اب وہ خود مصنوعات بنارہے ہیں اور خود ہی بیچ رہے ہیں۔

ذرا ہوش کے ناخن لیجیے کہ پاکستان کے صنعتکار، مزدور اور تاجر کیا کریں گے؟ اگرچہ پاکستان میں بننے والی چیزیں کچھ مہنگی ہوتی ہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم غیر ملکیوں کو اجازت دے دیں کہ وہ آکر ہمارے کاروبار پر قبضہ کرلیں۔ پاکستان میں چیزیں مہنگی ہیں تو اس کے پیچھے ان ہی کرپٹ اور بدمعاش حکمرانوں کی پالیسیاں ہیں کہ قومی خزانے کو کرپشن کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کےلیے زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگائے جاتے ہیں جس سے مہنگائی بڑھتی ہے ورنہ مقامی مصنوعات ہمیشہ سستی ہوتی ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ سی پیک کی وجہ سے چین کو پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات عام کرنے اور اجارہ داری قائم کرنے کےلیے زیادہ آسان اور سستا ذریعہ فراہم کردیا گیا ہے جو خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ اگر اس منصوبے پر ذرا غور کیا جائے تو اس میں زیادہ تر سڑکیں ہیں جو چائنا کو پاکستان کے ساتھ براہ راست زمینی راستے سے منسلک کردیں گی اور چائنا کےلیے اپنی مصنوعات پاکستان میں لانا نہایت ہی آسان ہوجائے گا اور مقامی صنعت بری طرح تباہ ہو جائے گی۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان کے کسی بھی علاقے میں کوئی نئی صنعت یا فیکٹری نہیں لگائی گئی کہ جہاں پر پاکستانی پروفیشنلز اور مزدوروں کو ملازمت دی جاتی، پاکستان اپنا خام مال خود مفید مصنوعات میں تبدیل کرتا اور سارا فائدہ پاکستانی عوام اور حکومت کو ہوتا۔

سی پیک ہمارے لیے فائدہ مند ہو سکتا تھا اگر ہمارے حکمران کرپٹ، خودغرض اور غدار نہ ہوتے۔ اب تو ہم نے اس کاریڈور کے ذریعے غیر ملکیوں کو خود ہی اجازت دے دی ہے کہ وہ ہم پر معاشی طور پر قبضہ کرلیں اور جب ہم معاشی لحاظ سے ان کے دست نگر ہوں گے تو ہماری ثقافت، تہذیب اور معاشرت بھی مجبوراً ان سے کندھا ملائے گی۔ ابھی تک ہم انگریزوں کے سماجی و نفسیاتی اثرات سے نہیں نکلے کہ ایک اور مصیبت سر پر منڈ لا رہی ہے۔

جس طرح حکومت نے دعوی کیا ہے کہ سی پیک پاکستان کےلیے گیم چینجر ہے اور یہ پاکستانی معیشت کےلیے آکسیجن ہے، تو یہ دعوی سراسر جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کےلیے کوئی زیادہ سود مند نہیں بلکہ آنے والے حالات میں یہ ملک کےلیے نقصان دہ ثابت ہو گا؛ اگر اس میں موجود قباحتوں اور خامیوں کو دور نہ کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی یہ کوئی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوگا۔

پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنے اور بے روزگاری کے خاتمے کےلیے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح اپنی مقامی صنعت کو فروغ دینا ہوگا اور اسی ملک میں ہی اپنی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ زرعی شعبے سے لے کر دفاعی شعبے تک، ہر جگہ ہمیں اپنے زور بازو اور ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہوگا اور یہی ہماری کامیابی کی کلید ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خلیل احمد

خلیل احمد

بلاگر نے یونیورسٹی آف انجیئنرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے کیمیکل انجینئرنگ میں بی ای کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایل ایل بھی کیا ہے۔ بلاگر کا تعلق ضلع لودھراں سے ہے جبکہ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی Khalila57727600 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔