یہ نگران حکمران بھی ہمارے دل جلانے کیلیے تشریف لائے ہیں؟

رحمت علی رازی  اتوار 10 جون 2018
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

اِس تازہ ویڈیو کلپ خبرنے تو ہمیں احساسِ کمتری اور احساسِ شرمندگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہم ایسے حکمرانوں کے خواب دیکھتے رہے ہیں اور اب بھی دیکھ رہے ہیں لیکن ہماری اور ہماری قوم کی اتنی بڑی قسمت کہاں؟یہ خبر نیدر لینڈز سے آئی ہے۔

کافروں کے ملک سے آنے اور وائرل ہونے والی اِس ویڈیو کلپ خبر میں دکھایا گیا ہے کہ نیدر لینڈز کے وزیر اعظم مارک رٹّے بغل میں فائل دبائے جونہی اپنے دفتر میں داخل ہوتے ہیں، ماپ پکڑ کرفرش پر گری چائے صاف کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اُن کے ساتھ نائب وزیر اعظم بھی کھڑا ہے لیکن وہ آگے بڑھ کر اپنے وزیر اعظم کی مدد نہیں کرتا کیونکہ چائے وزیر اعظم سے دروازہ کھولتے ہُوئے گری تھی۔

سامنے وزیر اعظم کے سرکاری دفتر کی کئی خواتین بھی کھڑی ہیں۔ وہ اپنے سوٹڈ بُوٹڈ وزیر اعظم کو فرش صاف کرتے ہُوئے دیکھ بھی رہی ہیں اور ہنس بھی رہی ہیں لیکن کوئی ایک بھی آگے بڑھ کر وزیر اعظم کا ہاتھ بٹانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور وزیر اعظم مارک رٹّے ہیں کہ ہنس ہنس کر فرش صاف کرتے جا رہے ہیں اور اِسے اپنے لیے کوئی عار بھی نہیں سمجھ رہے۔ مساواتِ انسانی کی یہ تازہ ترین مثال ہے۔

اِسی مثال نے وزیر اعظم مارک رٹّے کو اپنے عوام کا محبوب بنا رکھا ہے۔ کیا ہم کبھی تصور بھی کر سکتے ہیں کہ ہمارا کوئی وزیر اعظم اپنے دفتر کا فرش خود صاف کرے؟ گویا عوام کا اصل محبوب اور معشوق بننے کے لیے لازم ہے کہ ہمارے حکمران اور مقتدرین عوامی سطح پر رہیں اور کبھی یہ خیال نہ کریں کہ وہ آسمان سے ٹپک پڑے ہیں اور اُن کا درجہ عوام الناس سے کسی بھی شکل میں اعلیٰ اور اولیٰ ہے۔

عوام اور ملک کا پیسہ دونوں ہاتھوں سے لُوٹ اور کھسوٹ کر اور ناجائز دولت سے بیرونِ ملک جائیدادیں خرید کر کوئی حکمران اور سیاستدان کبھی عوام کے لیے محبوب اور مقبول نہیں ہو سکتا۔ مساوات کے فلسفے پر عملی یقین رکھنے اور عوام کو برابر کا انسان سمجھنے ہی کا یہ کمال اور معجزہ ہے کہ عالمِ مغرب انسانی ترقی کی معراج پر کھڑا ہے۔ یہ وہی مغرب ہے جہاں ہمارے حکمران اور مقتدر طبقات عوام اور ملک کی لُوٹی رقم لے جاتے ہیں اور ہم منہ ہی تکتے رہ جاتے ہیں۔

اِن لُٹیروں کا راستہ ہمارا کوئی ادارہ مسدود نہیں کر سکا ہے۔ ایک تو نیدر لینڈز کا یہ درویش وزیر اعظم ہے اور ایک ہمارے نئے وزیر اعظم صاحب تشریف لائے ہیں۔ نگران وزیر اعظم جناب ناصر الملک۔ ان سے تو ہم نے اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام نے بلند تر توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ یہی کہ وہ سابقہ حکمرانوں سے مختلف ہوں گے لیکن یہ صاحب تو اُنہی کا پر تَو نکلے۔ کوئی فرق ہی نہیں۔ ہمیں تو سابقین سے یہ گلے اور شکوے تھے کہ وہ سرکاری یا نجی کاموں کے لیے باہر نکلتے ہیں توسرکاری مہنگی گاڑیوں کا لاؤلشکر ہمراہ ہوتا ہے۔ ہٹو بچو کا شور تا آسمان پہنچتا ہے۔

افسوس کہ ہمارے نگران وزیر اعظم بھی حلف اُٹھاتے ہی اُسی ڈگر پر چل پڑے۔ وزیر اعظم بنتے ہی وہ سرکاری ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر اپنے آبائی شہر پہنچے، صرف والدین کی آخری آرامگاہوں پر فاتحہ خوانی کے لیے۔ ہیلی پَیڈ سے قبرستان تک اور فاتحہ خوانی کے بعد قبرستان سے اپنے عزیزوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے اور پھر شہر سے ہیلی پَیڈ تک واپسی کے لیے وہی لاؤ لشکر اُن کے ہمرکاب تھا جو کسی منتخب وزیر اعظم کے ساتھ ہم لوگ ہمیشہ دیکھتے رہے ہیں۔

عوام نے نگران وزیر اعظم صاحب کا یہ کرّو فر دیکھا ہے تو حیرت سے انگشت بدنداں رہ گئے ہیں۔ اِس شاہی قافلے پر ایک ہی دن میں لاکھوں روپیہ سرکاری خزانے سے اُڑا دیا گیا اور کسی کے دل پر کوئی بوجھ نہیں پڑا۔ کیا نگران حکمران بنتے ہی ریجھیں پوری کرنے کا وقت آ گیا تھا؟ عوام تو یہ توقعات لگائے بیٹھے تھے کہ نگران وزیر اعظم صاحب ہر قدم پر سادگی اور درویشی کا ثبوت دیں گے لیکن اُن کا تو پہلا قدم ہی اسراف کی جانب اُٹھا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ناصر الملک صاحب نے یہ قدم اُٹھا کر کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی ہے۔ وہ دوتین سرکاری گاڑیوں کے ساتھ بھی فاتحہ خوانی کے لیے تشریف لے جا سکتے تھے لیکن ہائے افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ اگلے دو مہینوں کے دوران نجانے ہم نگرانوں کے حوالے سے ایسے ایسے کیا کیا مناظر دیکھیں گے اور ساری پاکستانی عوام کے ساتھ ہم بھی دل ہی دل میں کُڑتے رہیں گے۔ پھر ہمارے یہ نگران حکمران بھی ہمیں یہ کیوں ڈراوا دے رہے ہیں کہ ملکی خزانے میں زرِ مبادلہ کے ذخائر بہت نیچے گر گئے ہیں۔

یہ خود جُزرسی اور کفائت شعاری کی مثال کیوں قائم نہیں کر سکے ہیں؟ کیا مغربی اور کافروں کے ملک میں کوئی منتخب یا نگران حکمران یعنی عارضی حکمران یہ جرأت کر سکتا ہے کہ والدین کی قبروں پر جانے کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرے؟ پاکستان کے بے بس اور بیکس عوام خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ایوانِ اقتدار نمک کی ایسی کان ہے کہ جو وہاں پہنچتا ہے، نمک بن جاتا ہے؟ نگرانوں کے اِس نئے دَور میں عوام کو ایک دل دہلا دینے والا دھچکا بھی لگا لیکن خدا کا شکر ہے کہ فوری تدارک بھی کر دیا گیا ہے۔

پچھلے حکمرانوں اور اپوزیشن کے سبھی ارکان نے باہمی ملی بھگت سے آئین میں ایک ایسی بھی ترمیم کر دی کہ انتخابات کی آمد آمد کے موقع پر کوئی اُن سے کوئی ایسا سوال نہ پوچھ سکے جس کی بنیاد پر اُنہیں اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔

پہلے تو انتخابات میں حصہ لینے سے قبل امیدوار کو مجاز اتھارٹی کے رُو بروبھی اور کاغذاتِ نامزدگی داخل کرواتے وقت بھی تحریری شکل میں یہ اقرارواعتراف کرنا پڑتا تھا کہ (۱) وہ کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں رکھتا (۲) وہ سرکاری بینکوں کا قرض نادہندہ نہیں ہے (۳) اُس کے پاس غیر ملکی شہریت ہے یا نہیں ہے (۴) اُس کی آل اولاد کا کاروبار کیا ہے (۵) امیدوار کہاں تک تعلیم یافتہ ہے؟ (۶) انکم ٹیکس کتنا دیا اور نیشنل ٹیکس نمبر کیا ہے؟

اِس طرح کی ڈیڑھ درجن شرائط پچھلی اسمبلی نے چوری چھپے ختم کر دیں۔ یہ تو قوم کو دھوکہ دینے اور قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔ تقریباً نصف سال پہلے یہ کیس عدالت میں تھا لیکن نون لیگی حکمرانوں اور اُن کے سنگی ساتھیوں نے دانستہ عدالت سے تعاون ہی نہیں کیا۔ پھر چند دن قبل لاہور ہائیکورٹ کے یک رُکنی بنچ نے کاغذاتِ نامزدگی میں پہلے والی شرائط بحال کر دیں۔ قوم نے اِس فیصلے پر اجتماعی مسرت کا اظہار بھی کیا اور جج محترمہ عائشہ ملک کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا لیکن عوام کی قسمت میں یہ خوشی مستقل اور دیر پا ثابت نہیں ہوسکی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار صاحب نے محترمہ جسٹس عائشہ صاحبہ کے فیصلے کو معطل کر دیا۔ ہمارے دل میں عدالتِ عظمیٰ، چیف جسٹس صاحب اور باقی معزز جج صاحبان کے لیے بے حد احترام پایا جاتا ہے۔ جناب ثاقب نثار صاحب کے کئی فیصلوں اور اقدامات نے اُنہیں پورے ملک میں بے پناہ پذیرائی دی ہے۔ اسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کے بارے میں اُن کے فیصلوں نے اُنہیں عوام کی نظروں میں محبوب بنا دیا ہے لیکن اُنہوں نے جس طرح جج عائشہ ملک صاحبہ کے فیصلے کو معطل کیا، لوگوں کے دل وقتی طور پر بجھ سے گئے۔

اِس کا مطلب یہ لیا گیا کہ مَیں جس انتخابی امیدوار کو اپنا ووٹ دے کر اُسے حکمران بنا رہا ہُوں، مجھے اُس سے یہ پوچھنے کا بھی اختیار نہیں ہے کہ بھائی صاحب، آپ کی تعلیم کیا ہے؟ آپ کے پاس کسی دشمن ملک کی شہریت تو نہیں ہے؟ آپ نے کسی سرکاری بینک سے لیا گیا قرضہ تو ہڑپ نہیں کر لیا؟ آپ نے کسی کا قتل تو نہیں کیا؟ کبھی چوری چکاری کے مرتکب تو نہیں ہُوئے؟

آپ کی غیر ملکی جائیداد کتنی اور کہاں کہاں ہے؟ آخر مجھے اپنے سیاسی و انتخابی امیدوار سے یہ سوالات پوچھنے کا حق کیوں نہیں؟ اور جو میرا یہ حق مجھ سے چھیننے کی کوشش کرتا ہے، وہ ادارہ یا شخص مجھے محبوب کیسے ہو سکتا ہے؟ نئے قوانین کے تحت کوئی پاکستانی شہری جس کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر نہیں ہے اور وہ فائلر بھی نہیں ہے تو وہ نہ تو گاڑی خریدنے کا مجاز ہے اور نہ ہی اب پچاس لاکھ روپے سے زائد کی کوئی جائیداد خرید سکتا ہے لیکن جج عائشہ ملک صاحبہ کے فیصلے کی تعطلی کے بعد یہ کہا جانے لگا تھا کہ 25 جولائی2018ء کو ہونے والے قومی انتخابات میں اُترنے والے تمام امیدواروں کو انکم ٹیکس دینے اور نیشنل ٹیکس نمبر پیش کیے جانے کی شرط سے آزاد کر دیا گیا ہے۔

ہر جانب شور مچ گیا کہ اِس ’’فری فار آل‘‘ اسلوبِ انتخابات کے نتیجے میں جو لوگ منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچیں گے اور پھر ہمارے حکمران بھی بنیں گے، وہ کیا کیا گُل نہیں کھلائیں گے۔ مایوس عوام کہنے لگے تھے: ایسے میں آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کی بھی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری عظیم عدلیہ نے بروقت صحیح تر سمت میں اور قومی استحکام کے وسیع تر مفاد میں فوری فیصلہ سنا دیا ہے۔ یہ فیصلہ فی الحقیقت پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی امنگوں اور دلی خواہشات کا آئینہ دار ہے۔

چیف جسٹس عزت مآب میاں ثاقب نثار صاحب کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کو اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں اُن تمام شرائط کے بارے حلف دینا ہوگا جن شرائط کو رات کے اندھیرے میں پچھلی اسمبلی نے چپکے سے ختم کر دیا تھا۔یہ فیصلہ گویا جج عائشہ ملک صاحبہ کے فیصلے ہی کی توثیق اور تصدیق ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے حکم سے الیکشن کمیشن نے اِس حلف نامے کا متن بھی تیار کر لیا ہے۔

اب جو کوئی انتخابی امیدوار دانستہ اپنے بارے میںقانون کو مطلوب شرائط چھپائے گا یا غلط بیانی سے کام لے گا، وہ جان لے کہ جیت کر بھی وہ ہارا ہی ہو گا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ یقینا قابلِ تعریف اور قابلِ ستائش ہے۔ ساری پاکستانی قوم عدالتِ عظمیٰ میں تشریف فرما اپنے جج صاحبان کی شکر گزار ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ اُنہوں نے اپنی سی کوشش کرکے ڈاکوؤں، لُٹیروں، قرضہ خوروں، ٹیکس چوروں، غیر ملکی شہریت کے حاملین، اقامہ داروں اور اپنی آل اولاد کے نام پر بے نامی جائیدادیں بنانے والوں کو اسمبلیوں میں پہنچنے سے روک دیا ہے۔

اب آگے 25 جولائی کو عام انتخابات میں کیا ہو گا، وہ بھی دیکھ لیا جائے گا۔ پاکستان کا ہر پِیروجواں سپریم کورٹ کے فیصلے پر جسٹس صاحبان کو سلامِ عقیدت پیش کررہا ہے۔ بِلا شبہ یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے۔ ہماری سیاسی، انتخابی، معاشی اور سماجی زندگی پر انشاء اللہ اِس فیصلے کی بنیاد پر گہرے، مثبت اور دُوررَس اثرات مرتب ہوں گے۔

چیف جسٹس عزت مآب میاں ثاقب نثار صاحب نے لاہور میں عدالت کی طرف سے اُس لڑکے (شاہ حسین) کی رہائی کا بھی فوری نوٹس لے کر عوامی محبت حاصل کی ہے جس لڑکے نے اپنی ہی ایک کلاس فیلو خدیجہ صدیقی کو چھریوں کے23 وار کر کے زخمی کر دیا تھا۔ اُس کی رہائی سے عوام میں سخت ردِ عمل پایا گیا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب نے فوری طور پر اِس کا نوٹس لے کر واقعی ثابت کیا ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ بیدار ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پنجاب کے محکمہ صحت میں میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہُوئے اپنے من پسند ڈاکٹروں کی جس طرح بھرتیاں کی جا رہی ہیں، عدالتِ عظمیٰ کے چیف جج صاحب اِس طرف بھی توجہ مبذول فرمائیں گے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں میڈیکل آفیسر، سینئر رجسٹرار، اسسٹنٹ پروفیسر اور پروفیسرز کی خالی آسامیوں کے پینل میں وہ استاد پروفیسر بھی بیٹھنے لگے ہیں جن کے سامنے بیٹھے امیدوار اُنہی کے شاگرد ہیں۔

محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن نے بھرتی کے لیے اپنے سروس رُولز میں سینئر رجسٹرار کے عہدے کے لیے 75 فیصد سیٹوں، اسسٹنٹ پروفیسر کے لیے50 فیصد اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کی33 فیصد سیٹوں پر بھرتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ محکمہ صحت پنجاب کی طرف سے بنائے جانے والے پینل انٹرویو میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان پینلسٹ نے خالی آسامیوں کے لیے اپنے ہی شاگردوں کے انٹرویوز کر کے منتخب کر لیا ہے جو دراصل پبلک سروس کمیشن میں پینل انٹرویو سے لیے جانے والے اوتھ یعنی حلف نامے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

اِس حلف نامے میں لکھا گیا ہے کہ مَیں حلفیہ بیان کرتا/ کرتی ہُوں کہ انٹرویو دینے والے سے میری کوئی رشتہ داری نہیں ہے، نہ ہی وہ میرا شاگرد ہے اور نہ ہی وہ میرے ماتحت کام کرتا ہے یا کرتا رہا ہے۔ اِس رُولز کی خلاف ورزی2017ء میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کی جانب سے ایسوسی ایٹس پروفیسر ای اینڈ ٹی کی دوخالی آسامیوں کے لیے سامنے آئی ہے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے زیر انتظام ہونیوالے اس انٹرویو میں پروفیسر کاشف اقبال ملک، پروفیسر محمد امجد اور پروفیسر محمد اشفاق کا پینل بنایا گیا تھا جس میں ڈاکٹر ارشاد ملک کو بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر منتخب کر لیا گیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ارشاد ملک دراصل پروفیسر کاشف اقبال ملک کے شاگرد ہیں۔پروفیسر کاشف اقبال ملک اس وقت جناح اسپتال/علامہ اقبال میڈیکل کالج میں ای اینڈ ٹی میں بطور سربراہ شعبہ کام کررہے ہیں۔ڈاکٹر ارشاد ملک نے ایف سی پی ایس کے پارٹ ٹو میں بطور ریذیڈنٹ ٹریننگ پروفیسر کاشف اقبال ملک سے جنرل اسپتال میں کی۔ پروفیسر کاشف اقبال ملک جنرل اسپتال میں تعیناتی کے دوران بھی ارشاد ملک کو ٹریننگ کرواتے رہے ہیں۔

ڈاکٹر ارشاد ملک پچھلے آٹھ برسوں سے لاہور کے مختلف بڑے پرائیویٹ اسپتالوں میںپروفیسر کاشف اقبال کے ساتھ آپریشن کررہے ہیں۔ پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہونے کے بعد ڈاکٹر ارشاد ملک گوجرانوالہ میڈیکل کالج میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر ای اینڈ ٹی تعینات ہیں مگر اُنہیں جناح اور جنرل اسپتال میں بھی آپریشنوں کے لیے گوجرانوالہ سے بلایا جاتا ہے اور ہر ماہ کئی آپریشن جناح اور جنرل اسپتال میں پروفیسر کاشف اقبال ملک کے ساتھ مل کرکئے جاتے ہیںجو کہ بنیادی طور پر ایس اوپیز کی خلاف ورزی ہے ۔

اصول یہ ہے کہ جو ڈاکٹر جس اسپتال میں تعینات ہے، وہ صرف وہیں آپریشن کر سکتا ہے۔دوسرے اسپتال میں آپریشن کرنا طے شدہ ڈسپلن کی صاف خلاف ورزی ہے۔متاثرہ ڈاکٹروں کی جناب چیف جسٹس سے استدعا ہے کہ وہ اِس بارے میں فوری نوٹس لے کر ذمے داران کو قرار واقعی سزا بھی دیں اور جن ڈاکٹروں کا حق غصب کیا گیا ہے، اُن کا حق اُنہیں عطا فرمایا جائے۔

دریں اثنا یہ بھی معلوم ہُوا ہے کہ ڈاکٹر کاشف ملک نے اپنے ایک کلاس فیلو ڈاکٹر طاہر رشید کو بھی سلیکٹ کرلیا ہے۔ جس ملک کے صوبے میں میڈیکل کے شعبے میں بھی میرٹ کی یوں دھجیاں بکھیری جاتی ہوں، وہاں مریضوں کی دھجیاں کس طرح اُڑائی جاتی ہوں گی، اِس کا تصور بآسانی کیا جا سکتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ میڈیکل کا شعبہ نہائت مقدس ہے۔ اِس میں کوئی شک اور شبہ بھی نہیں ہے لیکن اِسی مقدس شعبے کی بعض کالی بھیڑیں سارے محکمے کے لیے بد نامی اور بے حرمتی کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ ایسی غاصب اور میرٹ کی دشمن کالی بھیڑوں کا فوری احتساب کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اُنہیں بے لگام چھوڑا جائے گا!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔