ناقص پولیسنگ کے باعث جرائم پیشہ عناصر بے لگام ہو گئے

صالح مغل  اتوار 10 جون 2018
ڈکیتی کی وارداتوں میں چار شہری قتل، سوائے ایک واردات کے تمام ملزم قانون کی گرفت سے آزاد۔ فوٹو : فائل

ڈکیتی کی وارداتوں میں چار شہری قتل، سوائے ایک واردات کے تمام ملزم قانون کی گرفت سے آزاد۔ فوٹو : فائل

راولپنڈی: راولپنڈی شہر اور گردونواح میں لوٹ مار، قتل و غارت، ڈکیتی و چوری کے باوجود پولیس کا راوی سب اچھا لکھتا ہے۔

عوام کی جان و مال کے محافظ پولیس افسران کی آپس کی چپقلش ، من پسند تعیناتیاں پانے کے چکر یا فرائض میں عدم دلچسپی کے باعث جرائم پیشہ عناصر اور قانون شکنوں کو جیسے کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔

شہر کو کرائم فری سٹی بنانے کے دعوے ریت کی دیوار ثابت ہورہے ہیں ،خصوصا ماہ مقدس میں تو راولپنڈی سٹریٹ کرائم کے حوالے سے انتہائی سنگین صورت حال کا شکار ہے، ڈکیتی ، راہزنی سمیت کار و موٹرسائیکل چوری کے تواتر سے ہوتے ہوئے واقعات کے باعث عوام اور تاجر طبقے سمیت ہر ذی شعور میں تشویش پائی جا رہی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ آئے روز بڑھتی ہوئی ایسی وارداتوں اور اس کے مقابلے میں پولیس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پولیسنگ کے معیار کو شدید ٹھیس پہنچی ہے توغلط نہ ہوگا۔

شہری علاقہ ہو یا دیہی کوئی بھی مقام ایسا نہیں جہاں جرائم پیشہ عناصر نے پولیس کی رٹ کو چیلنج نہ کیا ہو، لیکن رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کے دوران سٹریٹ کرائم کی صورتحال نے خود ایڈیشنل آئی جی راولپنڈی وصال فخر سلطان راجہ، اور راولپنڈی پولیس کے سربراہ افضال احمد کوثر سمیت دیگر پولیس افسران کو بھی چکرا کررکھ دیا۔ انتہائی قلیل عرصے میں ڈکیتی و سرقہ بالجبر کی وارداتوں کے دوران نہ صرف معروف ڈاکٹر کو اس کے کلینک میں گھس کر قتل کردیاگیا بلکہ ایک تاجر اور دو محنت کش بھی ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ڈاکووں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔

اسی طرح وارداتوں کے دوران مزاحمت پر فائرنگ سے زخمی کیے جانے کے بھی متعدد واقعات رونما ہوئے، راول ڈویژن جس کا دوہرا چارج ایس ایس پی آپریشن محمد بن اشرف کے پاس ہے کے علاقے میں واقع تھانہ نیوٹاون میں 29 مئی کو درج کی جانے والی ایف ائی آر میں محمد عمران نے پولیس کو بتایاکہ وہ سیٹلائیٹ ٹاون میں واقع ایک کلینک میں ریسیپشنسٹ کی حیثیت سے ملازمت کرتا ہے، وقوعہ کے روز اچانک تین نوجوان جن کی عمریں بیس سے چوبیس سال کے مابین تھیں، مسلح حالت میں کلینک کے اندر آگئے اور اسے تشدد کرتے ہوئے ڈاکٹر نوشاد خالد کے کیبن میں لے گئے اور ان سے نقدی وغیرہ کا مطالبہ کیا تو انہوں نے اٹھارہ سے بیس ہزار روپے جو بیگ میں پڑے تھے نکال کر ان کے حوالے کردیئے لیکن وہ مزید رقم کا مطالبہ کرتے رہے جنہیں بتایاگیا کہ مزید رقم نہیں ہے تو ملزمان نے فائرنگ شروع کردی جس سے ڈاکٹر نوشاد خالد گولی لگنے سے موقع پر دم توڑ گئے۔

ڈاکٹر نوشاد خالد کے قتل کی خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور نہ صرف میڈیکل کے شعبے سے وابستہ افراد بلکہ بڑی تعداد میں ایسے شہری جو ان سے علاج کراتے تھے نے افسوسناک واقعہ کی سخت مذمت کی، لیکن افسوس مجرم تاحال قانون کی گرفت سے دور ہیں۔

ڈکیتی و سرقہ بلجبر کی ایک اور واردات صدر ڈویژن میں ہوئی، جہاں ایس پی ہیڈکواٹر بہرام خان کو دوہرا چارج سونپا گیا ہے۔ تھانہ روات کی حدود میں مسلح افراد راولپنڈی کے رہائشی ٹیکسی ڈرائیو محمد خا ن کو ٹیکسی چھیننے کے بعد قتل کرکے فرار ہوگئے۔ ابھی ان سانحات کا سلسلہ تھما نہ تھا کہ صدر ڈویژن کے ہی علاقے قائداعظم کالونی میں اکتیس مئی کی شب تین مسلح ڈاکووں نے تین بھائیوں سہیل، کامران اور زوہیب کو زخمی کردیا۔

واقعات کے مطابق تینوں بھائیوں میں سے ایک بھائی سہیل اعظم کام میں مصروف تھا کہ تین مسلح ڈاکووں نے اس کو آن لیا، صورت حال بھانپ کر سہیل نے دکان میں نصب سیکورٹی الارم جو قریب ہی ان کے گھر میں بجتا تھا کا بٹن دبایا تو کامران اور زوہیب دنوں بھائی اس کی مدد کو پہنچے ہی تھے کے مسلح ڈاکوؤں نے فائرنگ شروع کردی اور تینوں کو زخمی کرکے فرار ہوگئے، ان میں سے شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے سہیل دم توڑ گیا۔

واردات کے بعد متوفی کے لواحقین اور اہلیان قائداعظم کالونی نے چکری دھمیال روڈ پر شدید احتجاج بھی کیا لیکن ابھی اس واردات کی بازگشت تھمی نہ تھی کہ پوٹھوہار ڈویژن میں واقع تھانہ آرے بازار کے علاقے جھاورا میں آئس کریم کمپنی کی ڈیلیوری وین پر سیلز مین کی حیثیت سے کام کرنے والے نارووال کے رہائشی وحید احمد کو مسلح ڈاکووں نے ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

چند روز کے اندر اوپر تلے چار سنگین واقعات اور رمضان المبارک کے بیس دنوں میں سٹریٹ کرائم کی پے در پے وارداتوں سے شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ سی پی و راولپنڈی افضال احمد کوثر جنہوں نے حال ہی میں راولپنڈی کے پولیس سربراہ کی حیثیت سے چارج سنبھالا ہے نے ماضی کے پولیس افسروںکے برعکس ایس ایس پی آپریشن سمیت تمام ڈویژنل ایس پیز اور دیگر شعبوں کے پولیس افسران کو اختیارات سونپ کر انھیں ایس او پی اور قانون کے مطابق فرائض منصبی سرانجام دینے کے لیے اوپن فیلڈ دی، لیکن کام کی تمام تر آزادی اور وسائل کے باوجود صورت حال میں خاطر خواہ بہتری نہ آسکی، تاہم شہر و کینٹ میں جگہ جگہ پولیس ناکوں کی تعداد میں اضافہ ضرور ہوگیا ہے۔

قابل غور امر یہ ہے کہ شہر کی ہر مصروف شاہراہ پر اگر ناکے پر ناکے ہی لگنے ہیں تو کثیر سرمایہ خرچ کر کے لانچ کی جانے والی ترکی ماڈل کی ڈولفن فورس اور تھانوں کی سطح پر تشکیل دیئے گئے محافظ فورس وغیرہ کا کیا مقصد ہے؟ تاہم ان ابتر حالات کے دوران پوٹھوہار ڈویژن کی پولیس کی جانب سے ایک اچھی اور مثبت پیش رفت چند روز قبل سامنے آئی جب ایس پی پوٹھوہار سید علی کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے تھانہ آرے بازار میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کیے جانے والے آئس کریم کمپنی کے سیلز مین وحید احمد کو قتل کرنے والے گینگ کا سراغ لگا لیا۔

اس حوالے سے ایس پی پوٹھوہار ڈویژن سید علی نے ڈی ایس پی کینٹ فرحان اسلم اور ایس ایچ او آرے بازار طارق مسعود کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایاکہ واردات کے چند گھنٹوں کے اندر ہی علاقے میں ایک سکول پر نصب کلوز سرکٹ ٹی وی کیمروں کی مدد سے گلی میں کھڑی کار میں سوار افراد کی حرکات مشکوک نظر آنے پر آئی ٹی لیب کی ٹیم اور جیو فیسنگ کی مدد سے شوائد اکھٹے کیے گئے تو واردات میں اسی کمپنی کی گاڑی کا ڈرائیور عبدل غفور ملوث نکلا جس کو گرفتار کرکے موبائل فون برآمد کیے تو اس نے انکشاف کیا کہ وہ باقاعدہ ایک گینگ کا رکن ہے جو مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرکے وارداتیں کرتے ہیں اور اس کے ساتھ واردات میں دو مزید ملزمان بھی شامل تھے، جن کی گرفتاری کے لیے پولیس مصروف عمل ہے۔

ایک واردات کے ملزموںکی شناخت اپنی جگہ لیکن امن و امان کی مجموعی صورت حال بہتر کرنے کے لئے پولیس کو ہنگامی بنیادوں پر قانون کے اندر رہتے ہوئے اقدامات کرنا ہوں گے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔