انتخابات کے شور میں کالا باغ ڈیم کا غلغلہ 

تنویر قیصر شاہد  پير 11 جون 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ممتاز مغربی دانشور اور تحقیق نگار لیزی کولنگھم نے اپنی تازہ ترین ضخیم کتاب The Hungry Empire میںبتایا ہے کہ برسہا برس تک کئی مغربی ممالک،خصوصاً برطانیہ، محض خوراک کے حصول میں حریف ممالک سے جنگیں کرتے رہے تاکہ اپنی افواج کے لیے بھی مناسب اور وافر مقدار میں خوراک کا ذخیرہ کیا جا سکے اور اپنے عوام کو بھی بھوک سے بچایا جا سکے۔

اِن مقاصد کے حصول کے لیے مغربی ممالک نے اپنی دشمن طاقتوں کا بے دردی سے خون بھی بہایا اور اُن کا استحصال کرنے کے لیے کئی خفیہ سازشیں بھی کیں۔ یہ جنگیں اپنے اختتام کو پہنچیں تو طاقتور اقوام نے تیل کے حصول کے لیے نئی جنگوں کا آغاز کر دیا۔ اپنے صنعتی ممالک کی ترقی کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لیے امریکا اور یورپی ممالک نے مل اور متحد ہو کر دنیا کے ہر اُس ملک کا استحصال کیا جہاں جہاں یہ سیال سونا پایا جاتا تھا۔ اور جو شخص، گروہ اور ملک اُن کے راستے کی رکاوٹ بنا، اُسے طاقت اور سازش سے راستے سے ہٹا دیا گیا۔

تیل کے حصول کے لیے امریکا اور مغرب نے جنوبی امریکا کے تمام غریب ممالک پر بھی مظالم ڈھائے اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی۔ اگر ہم جان پرکنز کی نہائیت شاندار کتاب Confessions of an Economic Hit Man پڑھیں تو صاف طورپر عیاں ہوتا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک کی تیل کی بھوکی کمپنیاں تیل کے ذخائر پر قبضے کے لیے کیا کیا ظلم کرتی رہی ہیں۔ یہ تیل ہی تھا جس پر قبضے کی خاطر امریکا نے خلیج کی دو جنگیں کروائیں اور یوں اپنے راستے سے صدام حسین اور کرنل قذافی کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا۔

یہ تیل کی دولت ہی ہے جس کے لالچ میں امریکا نے،صدام اور قذافی کی ہلاکتوں کے بعد،بڑی مکاری سے ’’داعش‘‘ کا بیج کاشت کر دیا تاکہ ’’داعش‘‘ قیادت کے توسط سے تیل کی دولت چوری کی جا سکے۔ اِس سازش میں امریکا کامیاب بھی رہا ہے۔ پھر ہم نے یہ سننا شروع کیا کہ اب پانی پر جنگیں ہُوا کریں گی۔ سمجھ نہیں آتا تھا: کیسے اور کیونکر؟ہم دوسروں کی بات تو یہاں فی الحال نہیں کریں گے لیکن جنوبی ایشیا کی حد تک سمجھ آنے لگی ہے کہ عنقریب پانی پر ضرور ہی جنگیں ہُوا کریں گی۔ اِس کے لیے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔

4 جون2018ء کو افواجِ پاکستان کے ترجمان، میجر جنرل آصف غفور، نے جس پریس بریفنگ کا انعقاد کیا، اِس میں بھی ( مستقبل میں) پانی پر ہونے والی جنگوں کے خدشے کی باز گشت سنائی دی گئی ہے ۔

آصف غفور صاحب نے کہا: ’’پانی کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ آئندہ اگر کبھی جنگیں ہُوئیں تو اِسی مسئلے پر ہوں گی۔‘‘ پاکستان کے پانیوں پر بھارت نے رفتہ رفتہ جس طرح قبضہ کیا ہے، ڈیم پر ڈیم بنائے ہیں، اِس نے اِن خدشات کو تقویت دی ہے کہ ممکن ہے آئندہ جب بھی پاکستان اور بھارت میں تصادم ہوگا، پانی کی تقسیم پر ہوگا۔ پاکستان کے خلاف بھارتی آبی جارحیتوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔بھارت نے مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں کرتے ہُوئے پاکستان کا پانی روکا ہے۔

پاکستان کی نہریں اور دریا خشک ہو رہے ہیں۔ اِس کی وجہ سے ہماری زراعت کو براہِ راست دھچکے پہنچ رہے ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت میں تو پاکستان کے خلاف بھارتی آبی یلغاروں میں کئی گنا اضافہ ہُوا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ عالمی ادارے (مثال کے طور پر ورلڈ بینک) جنھوں نے پاکستان کو ’’سندھ طاس معاہدے‘‘ کی ضمانتیں دے رکھی ہیں، وہ بھی پاکستان کی مدد کرنے کے بجائے بھارت کی طرف جھک رہے ہیں۔ اب صاف نظر آنے لگا ہے کہ پاکستان میں پانی کا قحط پڑنے والا ہے۔ پانی کمیابی کی شکل میں شہر شہر لڑائیاں تو شروع ہو چکی ہیں۔

واران (بلوچستان) میں پانی کی کمیابی میں اضافہ ہُوا ہے تو اِسے بنیاد بنا کو ’’بلوچ سب نیشنلسٹس‘‘ نے ملک کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ اِس منفی عمل کے خلاف ہماری سیکیورٹی فورسز بروقت بروئے کار آئی ہیں۔ اگر جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف کالا باغ ڈیم بنا جاتے تو آج ہم پانی کے شدید بحران میں مبتلا نہ ہوتے لیکن جنرل ضیاء دس سال اور جنرل مشرف آٹھ سال صرف اپنی اپنی کرسی مضبوط کرنے میں لگے رہے۔ کالا باغ ڈیم پر مگر قوم کو متحد اور متفق نہ کر سکے۔

اگر کالا باغ ڈیم مکمل ہو جاتا تو آج ہمیں بجلی کی عذابناک کمی کا شکار بھی نہ ہونا پڑتا، نہ ہماری زراعت بھارت کے رحم وکرم پر ہوتی اور نہ ہی پانی پر جنگوں کا ذکر ہوتا۔ کالاباغ ڈیم بننے سے پاکستان کو3600 میگاواٹ کی سستی پَن بجلی میسر آتی۔ ہمارے وارے نیارے ہو جاتے۔ ہماری صنعتوں کا پہیہ پیہم گردش میں رہتا۔ ہماری کئی نہروں میں سارا سال پانی بہتا رہتا اور ہماری فصلیں لہلہاتی رہتیں، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شُدہ۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ صرف پنجاب ہی کالا باغ ڈیم بنانے کا حامی ہے لیکن اب تو ’’خیر سے‘‘ پنجاب سے بھی کالا باغ ڈیم کے خلاف نمایاں سیاستدانوں کی آوازیں اُٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔

مثال کے طور پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے نام سے منسوب5 جون 2018ء کو ایک ٹویٹ یوں سامنے آئی: ’’مانتا ہُوں کہ معاشی اعتبار سے کالا باغ ڈیم پاکستان کے لیے بہت مفید ہے لیکن پاکستان کی سلامتی اور اتحاد سے زیادہ اہم نہیں۔ مَیں کالا باغ ڈیم پروجیکٹ کی اُس وقت تک حمائت نہیں کر سکتا جب تک دوسرے صوبے معترض ہیں۔‘‘ چھوٹے میاں صاحب اِس سے قبل بھی سندھ جا کر مبینہ طور پر کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں بیان داغ چکے ہیں۔

لیکن انتخابات کے اِس شور میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف شور چہ معنی دارد؟ کیا کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر کے کوئی سب کا محبوب بننا چاہتا ہے؟ لیکن سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور سابق ڈپٹی پرائم منسٹر، چوہدری پرویز الٰہی، سینہ ٹھونک کر کالا باغ ڈیم کی حمائیت میں نکلے ہیں۔ اُنہیں اس کی پروا نہیں ہے کہ کالا باغ ڈیم کے حق میں بازو اور آواز بلند کرنے پر وہ کسی کی نظر میں نکّو بن جائیں گے یا اُن کے ووٹ کم ہو جائیں گے۔ اگلے روز اُنہوں نے خم ٹھونک کر ایک بھرے انتخابی جلسے میں کہا: ’’پاکستان کے خلاف بھارت کی مسلسل آبی جارحیتوں کا واحد جواب یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جائے۔

پاکستان کی زراعت کے تحفظ اور بجلی بحران کے حل کے لیے بھی یہ قدم اُٹھانا ہو گا۔‘‘ یہ آواز مخلص پاکستانیوں کی ترجمانی کرتی ہے لیکن ابھی اِس آواز کی بازگشت مدہم بھی نہ پڑی تھی کہ ’’عوامی نیشنل پارٹی‘‘ کے مرکزی صدر، اسفند یار ولی خان، کی آواز یوں اُبھری: ’’کوئی مائی کا لعل کالاباغ ڈیم تعمیر نہیں کر سکتا۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے کچھ لوگ سپریم کورٹ گئے ہیں مگر مَیں چیف جسٹس آف پاکستان پر واضح کرنا چاہتا ہُوں کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو بٹھا کر کالا باغ ڈیم کے نقصانات اور افادیت سے آگاہی حاصل کریں۔‘‘

یہ الیکشن کے دن ہیں۔ اسفند یار ولی خان صاحب کو یہی سُوٹ کرتا ہے کہ وہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کریں۔ ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر۔ ملکی اور عوامی مفادات پسِ پشت بھی ڈالنا پڑیں تو ڈال دیے جائیں۔ خیبر پختون خوا میں شمس الملک ایسے وہ لوگ بھی ’’گردن زدنی‘‘ ہیں جو اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں ثابت کر رہے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے کے پی کے کبھی نقصان اور خسارے میں نہیں رہے گا۔ شمس الملک ایسے بے ریا انسانوں کو چونکہ الیکشن نہیں لڑنا ہے، اسلیے اُن کی اخلاص بھری آواز گویا نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے اگلے روز جس دردمندی سے کالاباغ ڈیم پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کا ذکر کیا ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ حیرت ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے حصول کے لیے ایک بار پھر اکٹھی ہونے والی ’’ایم ایم اے‘‘ بھی کالا باغ ڈیم کا نام نہیں لے رہی۔ ’’ایم ایم اے‘‘ نے اپنے تازہ انتخابی منشور میں پانی اور بجلی کے شدید بحرانوں کا ذکر تو کیا ہے لیکن حل کے لیے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا ذکر گول کر دیا گیا ہے۔ اِس پر مولانا فضل الرحمن بھی خاموش رہے اور سراج الحق بھی۔ شائد ووٹوں کی خواہش اجتماعی قومی مفادات پر غالب آگئی ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔