بیپسی سدھوا کا گلہ۔۔۔۔؟

رئیس فاطمہ  اتوار 28 اپريل 2013

اس کالم کا محرک دراصل بیپسی سدھوا کا وہ انٹرویو ہے جو گزشتہ دنوں ایکسپریس میں چھپا تھا۔ محمود الحسن نے اس پارسی مصنفہ کا انٹرویو کیا اور جس طرح پر تاثر اور دلچسپ انداز میں قارئین تک پہنچایا وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے پارسی بہت اچھے لگتے ہیں۔ میں نے انھیں بہت قریب سے دیکھا ہے۔

یہ لوگ فطرتاً نرم دل، سخی اور ہمدرد ہوتے ہیں۔ جانوروں سے ان کی محبت بے مثال ہے۔ کراچی میں گھوڑوں کے لیے ’’پیاؤ‘‘ پارسی حضرات نے ہی بنوائے تھے جو لینڈ مافیا نے ختم کرا دیے۔ کراچی پر بالخصوص پارسی حضرات کا بڑا احسان ہے۔ انھوں نے جگہ جگہ ڈسپنسریاں قائم کی تھیں جو غریبوں کا مفت علاج کرتی تھیں جو رفتہ رفتہ طالع آزماؤں نے بند کروا دیں۔

صدر ایمپریس مارکیٹ والی ڈسپنسری کا اب صرف بورڈ باقی رہ گیا ہے۔ جمشید نسروانجی نے بحیثیت میئر اس شہر کے لیے بہت کام کیا۔ پارسی سرمایہ داروں نے تعلیمی ادارے قائم کیے۔ NED انجینئرنگ کالج، ڈی جے کالج، BVS اور ماما پارسی گرلز اسکول بھی انھی مخیر حضرات نے قائم کیے۔ سچ تو یہ ہے کہ کراچی کبھی بھی ہندوؤں اور پارسیوں کے احسانات سے سر نہیں اٹھا سکتا۔ سیٹھ بھوجو مل نے مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی کو ایک شہر اور تجارتی مرکز بنا دیا اور پارسیوں نے اسے ایک بین الاقوامی شہر بنا دیا لیکن اس کالم کو لکھنے کی وجہ کچھ اور ہے۔

بیپسی سدھوا نے کہا کہ کبھی کسی نے ان سے پہلے پارسی کمیونٹی کو ادب کا موضوع نہیں بنایا۔ سب سے پہلے انھوں نے ہی ’’کروایٹرز‘‘ میں پارسی کمیونٹی کو موضوع بنایا۔ لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ قرۃ العین حیدر کا لازوال افسانہ ’’نظارہ درمیاں ہے‘‘ کا مرکزی کردار ’’مس پیروجا دستور‘‘ پارسی ہی ہوتی ہے، انھوں نے جس سچائی، ہمدردی اور خلوص سے یہ کہانی لکھی ہے وہ پڑھنے والے کو جگہ جگہ رلاتی ہے۔ یہ ایک غریب پارسی لڑکی کی کہانی ہے جو ایک مسلمان خورشید عالم کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔

خورشید عالم پیروجا دستور کی بے حد خوبصورت آنکھوں کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ لیکن چاندی کی دیوار، ضرورتیں اور عیاریاں بیچ میں آ کر دونوں کو جدا کر دیتی ہیں۔ لیکن پیروجا دستور مر کر بھی زندہ رہتی ہے، اپنی آنکھیں تارا بائی کو عطیہ کر کے… اور خورشید عالم ہمیشہ کے لیے وائلن بجانا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ اتنا اثر انگیز اور بڑا افسانہ ہے کہ قرۃ العین حیدر صرف یہی ایک افسانہ لکھتیں تب بھی شہرت اسی طرح ان کا مقدر ہوتی۔ ایسے افسانے بہت کم لکھے گئے ہیں جو انسان کی روح کو جھنجھوڑ دیں، اور ہمیشہ کے لیے دل و دماغ پر ثبت ہو جائیں لیکن بیپسی کی یہ بات بھی کچھ غلط نہیں کہ لکھنے والوں نے پارسی کمیونٹی کو اپنی تخلیقات کا موضوع نہیں بنایا۔

اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ کمیونٹی خود کو محدود رکھتی ہے۔ یہ دوسروں سے گھلتے ملتے نہیں ہیں، صرف اپنی کمیونٹی کے دائرے ہی میں سرگرم رہتے ہیں۔ ان کے رسم و رواج اور عام زندگی میں ان کے رویوں سے لوگ واقف نہیں ہیں۔ جب کہ یہ ایک بے حد پرامن اور انسان دوست لوگ ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں میں بھی کوئی غیر پارسی نہیں جا سکتا۔ کراچی میں کبھی ان کی بہت بڑی تعداد رہتی تھی لیکن ضیاء الحق کے مذہبی جنون نے انھیں یہاں سے نقل مکانی پر مجبور کر دیا۔ لیکن اب بھی عامل کالونی، صدر، سولجر بازار اور بوہرہ پیر میں ان کی آبادیاں ہیں۔ لیکن پہلے کے مقابلے میں بہت کم۔ کبھی صدر کراچی میں شالیمار ریسٹورنٹ ہوا کرتا تھا جسے ایک پارسی میاں بیوی چلاتے تھے۔ بہترین کنفیکشنری آئٹم تیار کرتے تھے بالکل تازہ۔ یہی ان کی وجہ شہرت بھی تھی، قیمتیں مناسب اور تازہ مال۔

بیپسی کے انٹرویو نے بہت سی ایسی پارسی ہستیوں کی یاد دلادی جنھیں میں نے قریب سے دیکھا تھا۔ سب سے پہلے بچپن میں جس پارسی جوڑے کو والد کے دوستوں میں پایا، ان کا نام تو مجھے یاد نہیں، بس اتنا یاد ہے کہ ہم بہن بھائی ان کی بیگم کو دلناز آنٹی کہتے تھے۔ وہ جب بھی آتیں، بہت سلیقے سے تیار ہو کر آتیں، نہایت گورا پیلاہٹ لیے صاف رنگ، مسکراتا ہوا چہرہ۔ ان کے میاں آتے ہی والد کے ساتھ کبھی تاش کھیلنے بیٹھ جاتے تو کبھی ان سے وائلن پر کوئی دھن سنانے کی فرمائش کرتے۔ دلناز آنٹی کبھی کبھی کوئی فارسی غزل گنگنا دیتیں۔

ایک اور نہایت پیاری مسکراہٹ کی حامل میری اسکول ٹیچر مسز ایرانی تھیں۔ ان کا اصل نام تو ہم میں سے کسی طالب علم کو پتہ نہ تھا۔ سب ہی مسز ایرانی کہتے تھے۔ اس اسکول میں تمام ٹیچرز عیسائی تھیں۔ صرف ایک مسز ایرانی اور مس طلعت کو چھوڑ کے جو ہمیں اردو پڑھاتی تھیں۔ مسز ایرانی کی خاص بات یہ تھی کہ انھیں کبھی غصہ نہیں آتا تھا، مشکل سے مشکل سبق کو اپنی مسکراہٹ اور نرم لہجے سے بہت آسان بنا دیتی تھیں۔ ایک بار مجھے بخار آ گیا اور دو تین دن اسکول نہ جا سکی، تیسرے دن مسز ایرانی اسکول کے کلرک کے ساتھ مجھے دیکھنے آ گئیں، پھول اور ٹافیاں ایک خوبصورت سی بید کی ٹوکری میں انھوں نے میرے سرہانے رکھ دیے۔

ماہر کلاسیکل رقاصہ ایمی مینوالا سے بھلا کون واقف نہ ہو گا جن سے فلم ڈائریکٹر حسن طارق نے شادی کی تھی۔ دو تین دفعہ دیناز مینوالا (گلوکارہ) اور چند دوسری خواتین کے ساتھ ہمارے ایک کرائے دار سے ملنے آیا کرتی تھیں۔ جن کا تعلق سوئٹزرلینڈ سے تھا اور وہ UNO کی طرف سے ہمارے گھر رہ رہے تھے۔

انھیں اور ان کے ساتھ ایک عمر رسیدہ خاتون کو جو غالباً ان کی والدہ یا خالہ تھیں، ہمارا گھر اور اس میں کھلے پھول بہت پسند تھے۔ میں مبہوت ہو کر انھیں دیکھتی تھی۔ والدین اور بھائی بھابی کے ساتھ دو تین بار ان کے رقص اسٹیج پر دیکھے تھے۔ وہ بہت سادہ تھیں، میری والدہ کو ایمی کی یہ بات بہت پسند تھی کہ وہ دوران گفتگو کبھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیتیں تھیں کہ وہ اتنی بڑی اور مشہور رقاصہ ہیں۔

انڈیا میں ایک آرٹ مووی بنی تھی ’’پسٹن جی‘‘ کے نام سے، جو پارسیوں کی زندگی پر بنائی گئی تھی۔ اس میں نصیرالدین شاہ نے پسٹن جی کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ ان کے مقابل کرن کھیر نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ، غالباً شبانہ اعظمی نے بھی اس میں کام کیا تھا۔ نصیرالدین شاہ نے جس مہارت اور خوبی سے یہ کردار ادا کیا تھا کہ ان پر ٹھیٹ پارسی ہونے کا گمان ہوتا تھا۔

ایک اور ڈاکٹر ہوا کرتی تھیں مسز ویرجی، ان کا مطب رابسن روڈ پر ’’افکار‘‘ کے دفتر کے قریب تھا۔ میری والدہ اور بھابی دونوں کی معالج تھیں۔ وہ میرے حافظے میں اس لیے زندہ ہیں کہ وہ واقعی مسیحا تھیں ہمیشہ لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ مریض کا آدھا دکھ درد دور کر دیتی تھی۔ بھابی بتاتی ہیں کہ نادار اور مفلوک الحال لوگوں کا علاج وہ مفت کرتی تھیں اور دوائیں بھی اپنے پاس سے دیتی تھیں۔

میں نے ہمیشہ انھیں سفید ساڑھی ہی میں دیکھا۔ نہایت خوبصورت اور دلکش خاتون تھیں۔ میری والدہ جب تک زندہ رہیں ان کا دیدار ہوتا رہتا تھا۔ کیونکہ وہ اکثر امی سے ملنے گھر بھی آ جاتی تھیں۔ ادب سے بھی لگاؤ رکھتی تھیں۔ ’’امراؤ جان ادا‘‘ ان کا پسندیدہ ناول تھا۔ اسی ضیاالدین روڈ پر ایک پارسی ڈاکٹر بے حد مقبول تھے، لیاری کے اکثر بیمار ان سے علاج کراتے تھے، بلا کے بذلہ سنج، خوش مزاج اور انسان دوست تھے، غریبوں سے پیسے نہیں لیتے تھے۔

کراچی کے پارسی خواتین و حضرات کا ذکر بھلا منفرد کالم نویس آنجہانی اردشیر کاؤس جی کے بغیر کیونکر مکمل ہو سکتا ہے وہ کتنے بڑے آدمی تھے، یہ سب ہی جانتے ہیں۔ ٹی وی کے ٹاک شوز میں وہ اپنی رائے کا اظہار بغیر کسی سے خوفزدہ ہوئے نہایت بے باکی سے کرتے تھے۔

بیپسی سدھوا نے ’’کروایٹرز‘‘ میں اپنی ہی قوم کو ناول کا موضوع بنا کر بہت اچھا کیا، کیونکہ وہ اندر کی باتیں جانتی تھیں۔ دیپا مہتہ نے بیپسی سے ’’ارتھ‘‘ اور ’’واٹر‘‘ کی کہانی لکھوائی۔ دونوں زبردست آرٹ موویز ہیں۔ بیپسی کے قلم کے جادو اور دیپا مہتہ کی ماہرانہ چابکدستی نے دونوں فلموں کو لازوال بنا دیا۔ لیکن پھر یہی کہوں گی کہ قرۃ العین حیدر نے ’’نظارہ درمیاں ہے‘‘ میں جو پارسی لڑکی کا کردار پیش کیا ہے وہ لاجواب ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے بمبئی میں یہ کردار انھوں نے قریب سے دیکھا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔