کوئی نام ہے میرا نہ سرحد!

شیریں حیدر  اتوار 28 اپريل 2013
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

… زندگی اک مشقت ہے مسلسل
جو کٹتی ہے نہ ختم ہوتی ہے…
نہ ہی کم ہوتی ہے طلب پیٹ کی
میں زندگی کے پہیے سے لپٹا ہوا
اپنے وجود سے لپٹے ہوئے کئی اور وجودوں کی
طلب مٹانے کو سفر میں ہوں
عمر کا سفر تو کٹتا نہیں
زندگی گزر جاتی ہے

میں بے نام و نشان، بے نام منزل کو لوٹ جاتا ہوں!!

میں ایک مزدور ہوں، میرا کوئی نام نہیں، مجھے کوئی کسی بھی نام سے پکار لے، میں مزدور ہی رہوں گا۔ میرا تعلق کسی خطے سے نہیں پھر بھی دنیا کے ہر خطے میںپایا جاتا ہوں، میری عمر کا سفر پیٹ کی طلب کاٹنے کی مشقت میں تمام ہو جاتا ہے۔ آپ لوگ زندگی کی ہر ہر سہولت سے لیس ہیں، مگر پھر بھی آپ کو زندگی مشقت لگتی ہے، اس لیے کہ آپ نے کبھی مشقت کی ہی نہیں… آپ کو مشقت کا مطلب ہی نہیں معلوم۔جن گھروں میں آپ رہتے ہیں، ان گھروں کی تعمیر میں میرا خون پسینہ لگتا ہے، میری صحت متاثر ہوتی ہے، میں چلچلاتی دوپہروں اور بدن کو چیرتی سردیوں میں کام کرتا ہوں ، جب آپ اپنے بستروں سے نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے… اس وقت میں ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھو کر ، چائے کے ساتھ دو سوکھے رس کھا کر …آپ کے گھر کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال رہا ہوتا ہوں۔

آپ جب اپنے نرم اور پرسکون بستروں میں آرام کرتے ہیں، اس وقت میں آٹھ گھنٹے کی مزدوری کر کے یا تو اس دن کی مزدوری کی رقم سے اپنے جھونپڑے میں شام کی روٹی کا سامان لے کر پہنچتا ہوں کہ میرے گھر کا چولہا ہر روز کی مزدروی کا مرہون منت ہوتا ہے… اگر میں بے گھر ہوں تو میں آپ کو کسی سڑک کے کنارے، کسی پل کے نیچے یا کسی بھی قطعہ گھاس پر سویا ہوا مل جاؤں گا کہ میرے پاس ٹھکانہ ہے نہ ٹھکانے کی سکت۔ ایک ایک پائی کما کر مجھے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے پیٹ بھرنا ہوتے ہیں، میرے ماں باپ بھی بیمار ہوتے ہیں، میری بہنیں بھی جوان ہوتی ہیں اور میرے بیوی بچے بھی ہوتے ہیں اور ان کی ضروریات بھی۔

سبزی اور پھل کی منڈی میں میں جن ٹھیلوں کو دن بھر دھکیلتا ہوں، آپ کے خریدے ہوئے پھل اور سبزی کے ٹوکروں کو آپ کے لیے اٹھا کر آپ کی گاڑی تک پہنچاتا ہوں… انھیں میں فقط حسرت سے دیکھ سکتا ہوں، میری سکت نہیں کہ میں ان میں سے کچھ بھی خرید سکوں ۔آپ کے بچوں کو دیکھ کر فقط سوچ سکتا ہوں کہ میرے بچے تو پیوند پر پیوند لگا کر کئی برس تک ایک ہی جوڑا سال کے عید سمیت ہر ایک دن پہنتے ہیں اور آپ کے بچوں کے اللہ نے کیا نصیب بنائے ہیں۔ میں آپ کو دیکھ کر رشک ضرور کرتا ہوں مگر جانتا ہوں کہ میرا غریب ہونا اور آپ کا امیر ہونا اللہ کا فیصلہ ہے، میرا نصیب ہے۔

آپ کئی ہزار کا سودا خرید کر اپنی گاڑی میں مجھ سے رکھواتے ہیں اور ٹپ کے طور پر بیس روپے بھی دیتے ہیں تو میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دل سے آپ اور آپ کے بچوں کے لیے دعا کرتا ہوں۔مارکیٹ میں فٹ پاتھ پر پھیرے کے انتطار میں بیٹھا میں آپ لوگوں کو خریداری کرتے دیکھتا ہوں تو حسرتیں قطار باندھ کر میرے سامنے کھڑی ہوتی ہیں … میری ماں کے پاؤں جن کے نیچے جنت تو ہے مگر ان پیروں میںجوتا نہیں، میری بیوی اور بہنوں کے پھٹے ہوئے آنچل، جنھیں وہ چھپا چھپا کر رکھتی ہیں کہ میری نظر بھی نہ پڑ جائے کہ میں انھیں نئی اوڑھنی تو دلوا نہیں سکتا۔ میری بیٹی کی بن چوڑیوں کی کلائیاں اور مٹی سے لتھڑے اس کے ہاتھ کہ اس کے پاس کھیلنے کے لیے مٹی کے سوا اور کچھ نہیں۔ میرے باپ کا کھانستا اور خون تھوکتا ہوا وجود جو اب مجھے زمانے کے سرد گرم سے نہیں بچا سکتا۔ جب وہ جوان تھا تو اس نے اپنے اسی ناتواں وجود سے ہم سب کے لیے محنت کی اور اسی کی وراثت میں مجھے مزدور کا عہدہ ملا کہ مزدور کا بیٹا اور کیا بن سکتا تھا۔

جب میں ورکشاپ میں فقط سو پچاس کے لیے آپ کی گاڑی کو دھوتا ہوں تو اس کی سیٹوں پر ہاتھ پھیر کر ان کی نرمی کو محسوس کرتا ہوں… کہ کتنا لطف آتا ہو گا ان سبک رفتارا ور نرم گدیلوں والی گاڑیوں میں بیٹھ کر سفر کرنے کا۔ میں تو یہ گاڑیاں کجا، بس میں بھی سفر نہیں کر سکتا اور چند روپے بچانے کو میلوں پیدل چلتا ہوں۔ ان گاڑیوں کو چھونا بھی دل کی کئی دھڑکنوں کو اتھل پتھل کر دیتا ہے… سنا ہے کہ ان کی قیمت… جانے کتنی ہوتی ہے!!! مجھے تودیہاڑی کے پانچ سو روپے سے زائد رقم کا چھونا بھی نصیب نہیں ہوتا کہ اس سے زائد کی میری اوقات نہیں۔ میرے پاس تو دو دن کی دیہاڑی کی رقم بھی اکٹھی نہیں ہو پاتی کہ ہر شام کو نئی نئی ضرورتوں کا عفریت منہ پھاڑے کھڑا ہوتا ہے اور جو کسی دن مزدوری نہ ملے تو اس روز میرے گھر کا چولہا ٹھنڈا رہتا ہے۔

آپ کے بچے زندگی کی جن تفریحات سے لطف اندوز ہوتے ہیں ان سے ہمارے بچے نہیں ہوتے کہ انھیں کوئی انسانوں کے بچے نہیں سمجھتا نہ کوئی مزدور کو انسان سمجھتا ہے۔انھیں کسی پارک میں لے کر جاتے ہیں نہ خریداری پر، نہ کسی ہوٹل میں کھانا کھانے نہ آئس کریم کھلانے… شہروں کی بڑی بڑی عمارتوں میں، قیمتی گاڑیوں میں سوار ہو کر آنے والے لوگوں کو چلتے پھرتے اور باتیں کرتے دیکھنا اور سننا ہی ہمارے لیے الف لیلوی داستانوں جیسا ہوتا ہے۔ ہمیں یہ سب کسی اور ہی دنیا کے باسی لگتے ہیں، ان کی دنیا میں دکھ ہوتا ہے نہ غم، غربت ہے نہ فاقہ کشی، پریشانی کا تو انھیں مطلب بھی نہ آتا ہوگا۔میں جیسا بھی ہوں، اپنے حال پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے بہت سوں سے پھر بھی بہتر بنایا ہے۔

آپ ہنس رہے ہوں گے کہ میں کن سے بہتر ہوں!!! میں ان سے بہتر ہوں جو کوڑے کے ڈھیروں میں سے چن چن کر کھاتے ہیں، میں ان سے بہتر ہوں جو ہاتھ پھیلا کر ،بھیک مانگ کر کھاتے ہیں، جورشوت لیتے ہیں، جودھوکہ دہی کرتے ہیں، جو ملک کے مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں، جو غدار ہیں، جو کام چور ہیں اور حلال رزق نہیں کھاتے جسے ہمارے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سب سے اہم قرار دیا ہے۔ میں نے سن رکھا ہے کہ میرے نبی پاکﷺ نے اپنے پاس مانگنے کے لیے آنیوالے ایک شخص کو بھیک دینے کی بجائے اپنے صحابہ کرام سے کہہ کر اسے دو درہم دئیے تھے اور اس سے کہا کہ ایک کلہاڑا اور ایک رسی خریدو، جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر انھیں بیچو اور بھیک مانگنے کی بجائے محنت کر کے کما کر کھاؤ کہ محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے…

میرا کوئی اور دوست نہیں مگر مجھے اس کا غم نہیں کیونکہ میں اللہ کا دوست ہوں !!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔