سینیٹ الیکشن آئندہ انتخابات کا ماڈل، ینگ پارلیمنٹ نظر آرہی ہے، ماہرین

اجمل ستار ملک  بدھ 13 جون 2018
خواجہ حارث کا کیس سے دستبردار ہونا سیاسی ہے، رمضان چوہدری، فوج، سیاستدانوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارا نہیں، عاصم اللہ بخش

خواجہ حارث کا کیس سے دستبردار ہونا سیاسی ہے، رمضان چوہدری، فوج، سیاستدانوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارا نہیں، عاصم اللہ بخش

 لاہور:  ملک میں نظریاتی نہیں انتخابی سیاست ہورہی ہے، انتخابات قریب ہیں مگر کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے انتخابی منشور کا اعلان نہیں کرسکی۔

سینیٹ الیکشن آئندہ انتخابات کا ماڈل ہے، بات ہنگ پارلیمنٹ کی طرف جارہی ہے ، کسی بھی بڑی جماعت کا وزیراعظم نہیں بنے گا تاہم محمد خان جونیجو اور صادق سنجرانی جیسی شخصیت سامنے آئے گی۔ خواجہ حارث کا کیس سے دستبردار ہونے کا اقدام پروفیشنل مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے، یہ عدالتی کارروائی اور کیس کو التوا کا شکار بنانے کی منظم کوشش ہے، ان خیالات کا اظہار سیاسی تجزیہ نگاروں و قانونی ماہرین نے ’’ملکی سیاسی صورتحال‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے انجام دیے۔ سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ جولائی میں پہلی مرتبہ عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں، اس ماہ میں موسم شدید گرم ہوتا ہے جس کے اثرات ٹرن آئوٹ پر پڑ سکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس عوام کے پاس لیجانے کیلئے کچھ نہیں ہے، انہوں نے کرپشن کے کیسز کو سیاسی بنانے اور اس بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، اسی لیے اب ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگا کر یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم سویلین بالادستی چاہتے ہیں۔4 سے 5 جماعتوں پر مشتمل حکومت بنے گی۔

کسی بھی بڑی جماعت کا وزیراعظم نہیں بنے گا بلکہ محمد خان جونیجو یا صادق سنجرانی جیسے کسی نام پر سب کو اتفاق کرنا پڑے گا۔ ماہر قانون رمضان چوہدری نے کہا کہ نیب قوانین کے مطابق ریفرنس کا فیصلہ 30 دن میں کرنا ہوتا ہے مگر سپریم کورٹ نیب عدالت کو نے 6 ماہ کا وقت دیا ، بعدازاں اس میں توسیع دے دی گئی اور اب ایک بار پھر توسیع کے بعد ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے لہٰذا ریفرنسز کی جلد بازی میں سماعت اور عدالتی پریشر کا بیانیہ درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتیں آزاد ہیں اور ان پر کسی قسم کا کوئی پریشر نہیں ہے تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے کہا کہ سیاستدان اختیارات کو ذمے داری سمجھنے کے بجائے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے رہے، فوج ملکی مفاد کا دفاع کرتے کرتے آگے بڑھی تو ادارہ جاتی مفاد اور ملکی مفاد کے درمیان لکیر دھندلا گئی اور اب ادارہ جاتی مفاد ہی ملکی مفاد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔