ووٹ کی عزت

عبدالقادر حسن  جمعرات 14 جون 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

الیکشن کی رونق سیاست دانوں کے دم قدم سے رہی ہے وہی الیکشن لڑتے اور اسے زندہ رکھتے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا الیکشن کا اہم اور بنیادی مرحلہ ختم ہو چکا ہے ۔ خوش قسمت امیدواروں کو ان کی پسند کی پارٹی کے ٹکٹ مل گئے ہیں اور وہ اب اپنے حلقوں میںباقاعدہ الیکشن کی مہم شروع کر چکے ہیں۔

ووٹروں کی قسمت کے دن آ چکے ہیں اور یہ دن پانچ سال کے بعد ہی مختصر سی مدت کے لیے آتے ہیں اور پلک جھپکتے ہی گزر جاتے ہیں اور پھر عوام اور ان کے نمایندوں کا رابطہ ایک معینہ مدت کے لیے منقطع ہو جاتا ہے چونکہ اگلے الیکشن کے لیے ایک میعاد مقرر ہے اس لیے پانچ سال کے بعد ہی اس میعاد کے بعد پھر ووٹر کے دن آتے ہیں اوراگر ووٹر کی خوش قسمتی ساتھ دے اور اس کو اچھا لیڈر مل جائے تو ووٹر کا رابطہ اپنے نمایندے کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں مستقلاً برقرار رہتا ہے اور ووٹر کے ساتھ رابطہ ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کے لیے آکسیجن کا کام کرتا ہے۔

جب کوئی حکومت ووٹر کے ساتھ اپنے تعلق کو چھوڑ دیتی ہے تو مقبول اصطلاح میں وہ ایک کمزور حکومت کے زمرے میں آجاتی ہے اور ایک کمزور حکومت پر کسی بھی وقت اس کا کوئی بھی مخالف حملہ آور ہو سکتا ہے اوراس حملہ کی صورت سیاست دانوں کے لیے بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے، اس حملے کی کامیابی کی صورت میں کسی بھی منتخب حکومت کو قبل از وقت ہی رخصت کر دیا جاتا ہے اور اگر رخصت کرنے والے کی نیت اچھی ہو اور وہ الیکشن کرانے کے موڈ میں ہو تو ووٹر ایک بار پھر اہمیت اختیار کر جاتا ہے لیکن اس بات کا انحصار منتخب حکومت رخصت کرنے والے پر ہی ہوتا ہے۔

ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اس دفعہ میاں نواز شریف نے لگایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اسی نعرے پرانتخابات میں حصہ لیں گے اور ان کی انتخابی مہم اسی نعرے پر چلے گی۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ منتخب نمایندوں کو غیر جمہوری طاقتیں اقتدار سے الگ کر دیتی ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے حکمران غیر جمہوری طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا بننے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ عوام کو لگانا چاہیے کیونکہ ووٹ عوام کے ہوتے ہیں اور ان ووٹوں سے ہی حکمران منتخب ہوتے ہیں اور پھر عوام پر حکومت کرتے ہیں۔ یہ جمہوری حکومتیں کس طرح کی ہوتی ہیں ان کو ہم گزشتہ ستر برسوں سے دیکھتے اور بھگتتے چلے آرہے ہیں۔ جمہوری حکمران خود ہی عوام کے ووٹ کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر عوام کے حق پر ہی ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔

ہمارے جو بھی حکمران رہے انھوں نے اپنے مقصد اور مفاد کے مطابق حکمرانی کی لیکن جن کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے تھے ان کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا ۔ اب جب کہ میاں نواز شریف ایک بار پھر اقتدار سے الگ کر دیے گئے ہیں تو ان کو عوام اور ان کے ووٹ یاد آگئے ہیں اور وہ اپنے نکالے جانے کو عوام اور ان کے ووٹوں کی توہین قرار دے رہے ہیں ۔کیا کبھی کسی حکمران نے یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا کی ہے کہ یہ عوام ہی ہیں جو ان کو منتخب کر کے حکمران بناتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان حکمران بنتے ہی سب سے پہلے عوام کو بھول جاتے ہیں اور عوام اپنے ووٹ سے بنائے گئے حکمرانوں کو دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو بھی اپنا ووٹ اتنا ہی عزیز ہوتا ہے جتنا کسی حکمران کو اقتدار لیکن ہوتا یہ ہے کہ اقتدار عوام اور ان کا ووٹ بھلا دیتا ہے مگر عوام اپنے ووٹ کو یاد رکھتے ہیں لیکن یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کسی حکمران نے اقتدار سے علیحدگی کے بعدبھی عوام کو ان کے ووٹ کی اہمیت اور تقدس کے بارے میں آگا ہ کیا ہے، یہ وہ حکمران ہیں جو کہ اگر خود ووٹ کو اہمیت دیں تو کسی غیر جمہوری طاقت کی یہ جرات نہیں ہو سکتی کہ ایک جمہوری اور عوام کے ووٹوں سے منتخب حکمران کو حکومت سے الگ کر دے ۔

میاں نواز شریف مسلسل اس بات کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ عوام کے ووٹ کا تقدس غیر جمہوری قوتوں نے پامال کر دیا ہے اور وہ ایک بار پھر عوام کی طاقت سے اقتدار حاصل کر کے ووٹ کی عزت بحال کرائیں گے۔ان کی یہ بات ابھی واضح نہیں کہ ان کا اشارہ عدلیہ یا فوج میں سے کس کی طرف ہے اور وہ کس سے ووٹ کی عزت بحال کرانے کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ووٹ کو عزت دینے کی سب سے پہلی ذمے داری ان ووٹوں سے منتخب سیاست دانوں کی ہوتی ہے کیونکہ وہ انھی ووٹوں کے سہارے حکمران بنتے ہیں اگر وہ صرف اپنے انتخابی منشور پر ہی عمل کر لیں تو عوام کے بہت سارے مسئلے حل ہو جائیں گے جب کوئی جمہوری حکومت عوامی مسائل کے حل کے لیے اقدامات کرتی ہے اور ان اقدامات کے نتیجے میںمسائل حل ہونا شروع بھی ہوجاتے ہیں تو عوام خود بخود حکومت کے ساتھ جڑ جاتے ہیں کیونکہ وہ حکومت کی شکل میں اپنا مسیحا دیکھ رہے ہوتے ہیں جو ان کے لیے کام کر رہی ہے، ایسی حکومتوں کو خود بخود عوامی تائید حاصل ہو جاتی اور اس کے لیے ان کوکوئی تگ ودو نہیں کرنی پڑتی ۔

عوامی تائید کی حامل حکومتوں کو نادیدہ یا غیر جمہوری طاقتیں اقتدار سے الگ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں کیونکہ وہ یہ دیکھ رہی ہوتی ہیں کہ عوام حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور عوامی طاقت کے آگے کوئی ٹک نہیں سکتا، پر بھی نہیں مار سکتا لیکن وہ حکومتیں جو اپنے غیر مقبول اقدامات کی وجہ سے عوامی تائید کھو بیٹھتی ہیں ان کا اقتدار میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے وہ کسی بھی غیر جمہوری طاقت کا آسان نشانہ بن جاتی ہیں ۔ دراصل ہمارے حکمران  ووٹ کی پرچی حاصل کرنے کے بعد اس کو اگلی پرچی کے حصول تک بھلا دیتے ہیں اور اپنے اس بھلانے کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں پھر ووٹ کی عزت ان کویاد آجاتی ہے۔

میاں نواز شریف سمیت تمام سیاستدانوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہو گی کہ جب تک وہ خود عوام کے ووٹ کی عزت نہیں کریں گے عوام کا ووٹ بھی سیاستدانوں کے لیے بھاری مینڈیٹ کی طرح پامال ہوتا رہے گا جیسے کہ اس دفعہ ہوا ہے۔ سیاستدانوں کو کسی دوسرے فریق پر انگلی اٹھانے کے بجائے عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کے لیے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گااور ووٹ کی عزت بحال رکھنا ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔