الیکشن کی رونقیں جن کے دم سے ہیں

بشیر واثق  اتوار 28 اپريل 2013
پرنٹرز، پریس ایجنٹ،پینٹرز،اشتہارات لگانے اورجلسوں کا انتظام کرنے والے پس پردہ رہ کر سیاست کا میدان سجاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

پرنٹرز، پریس ایجنٹ،پینٹرز،اشتہارات لگانے اورجلسوں کا انتظام کرنے والے پس پردہ رہ کر سیاست کا میدان سجاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

انتخابات کا اعلان ہوتے ہی معاشرے میں جیسے کوئی برقی رو دوڑ جاتی ہے اور دوریوں کے خاتمے اور میل جول کے موسم کا آغازہو جاتا ہے۔

ہر کوئی انتخابات کے حوالے سے کسی نہ کسی طرح متحرک نظر آتا ہے حتیٰ کہ وہ لوگ جو انتخابات کے عمل اور الیکشن میں حصہ لینے والوں سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں وہ بھی اپنی رائے کا اظہار کسی نہ کسی حوالے سے کرتے دکھائی دیتے ہیں ،گویا ان کا اعلان لاتعلقی ہی ان کے متحرک ہونے کا ثبوت ہے، ہاں البتہ ایسے افراد جو الیکشن کے دنوں میں بالکل خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور کسی بھی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتے ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ الگ تھلگ ہیں۔

حق رائے دہی ملنا انمول نعمت ہے، اس کا احساس ہی انسان کو جو ش و جذبے سے بھر دیتا ہے ، کیونکہ ووٹ ڈالنے کا حق ملنے سے امیر ہو یا غریب ، چوہدری ہو یا کمّی ، برابر ہو جاتے ہیں اور دونوں کی طاقت ایک جیسی ہو جاتی ہے، اگر امیر کسی کو ووٹ ڈال کر منتخب کرنا چاہے تو غریب اسے اپنے ووٹ کی طاقت سے مسترد کر سکتا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں معاشی اور سماجی مجبوریاں عام ووٹر کو آزاد نہیں رہنے دیتیں اور وہ مکمل طور پر اپنی مرضی استعمال نہیں کرسکتا۔

جب بھی کوئی میدان سجتا ہے تو پہلے اس کی تیاریاں کی جاتی ہیں ، چاہے وہ کھیل کا میدان ہو یا سیاست کا پنڈال۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی گویا سیاسی نقارہ بج جاتا ہے اور مد مقابل حضرات خم ٹھونک کر میدان میں آ جاتے ہیں، الیکشن کی تیاری ، اسے رنگا رنگ اور خوبصورت بنانے میں بہت سے پیشہ ور افراد اہم کردار ادا کرتے ہیں جیسے وہ الیکشن کی تیاری نہیں بلکہ آرٹ کا کوئی کام سرانجام دے رہے ہوں ، اگر یہ لوگ نہ ہوں تو الیکشن کا رنگ بالکل پھیکا اور بے جان ہو۔

ان میں سب سے اہم الیکشن مہم چلانے والے ہیں جو عموماً پارٹی کارکن ہوتے ہیں جو بڑے جوش و جذبے سے بغیر کسی لالچ کے اس کام کو سرانجام دیتے ہیں، اگر ایسے افراد پارٹی کارکن نہ ہوں تو انھیں معاوضہ دیا جاتا ہے اور وہ دن رات الیکشن مہم چلانے میں مصروف نظر آتے ہیں،نعرے بازی میں انھیں خاص مہارت حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنے امیدوار کی کامیابی کی ہوا باندھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اس کے بعد تشہیری مہم کے شعبے کو اہمیت حاصل ہے اس کے دوحصے ہیں ایک تو وہ جو اشتہارات ، بینر یا پینا فلیکس چھاپتے ہیں، دوسرے جو ان اشتہارا ت کو دیواروں پر لگاتے ہیں، ان دونوں گروپوں کے درمیان ایک تیسرا فرد کام کر رہا ہوتا ہے جو مڈل مین کا کام کرتا ہے جسے پریس ایجنٹ کہتے ہیں۔

الیکشن لڑنے والوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ پریس والوں سے رابطہ کریں اور اشتہارات ، بینرز یا پینا فلیکس کے معاملات طے کریں، اس کے لئے انھیں ایسے فرد کی ضرورت ہوتی ہے جو ان تمام معاملات کو بخوبی نبھا سکے، ایسے میں پریس ایجنٹ ان کے کام آتا ہے جو اپنا کمیشن لے کر ان کا کام کردیتا ہے۔ پریس سے اشتہارات چھپوانے اور انھیں عوامی مقامات پر لگانے تک سارے کام وہ سنبھال لیتا ہے۔ اشہارات یا بینرز وغیرہ لگوانے کے لئے وہ ایسے پیشہ ور افراد سے رابطہ کرتا ہے جو ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کے چھوٹے سے لے کر جہازی سائز کے پینا فلیکس بلند و بالا سائن بورڈز پر لگاتے ہیں، یوں مناسب معاوضہ ادا کر کے الیکشن امیدوارکا کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔

فوٹو: فائل

سیاسی پارٹیوں کے لئے پرچم بنانے والوں کا کام بھی خوب چمکتا ہے ، دوتین مہینوں میں لاکھوں جھنڈے تیار کرنے کا آرڈر ملنے سے ان کی چاندی ہو جاتی ہے۔ کسی زمانے میں الیکشن کے دنوں میں پینٹرز بہت زیادہ مصروف ہوجاتے تھے کیونکہ انھیں بینرز لکھنے کے ساتھ وال چاکنگ بھی کرنا پڑتی تھی جس کا انھیں اچھا خاصا معاوضہ ملتا تھا ، اب حکومت نے وال چاکنگ پر پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے ان کا کام کم ہو گیا ہے ، مگر بینر لکھنے کا کام بھی جاری ہے۔

الیکشن مہم کے دوران کارنر میٹنگز اور جلسوں کا اہتمام ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے مگر اسے بھی جلسوں کی تزئین و آرائش کرنے والوں نے آسان کر دیا ہے۔ الیکشن جوں جوں قریب آتے ہیں جلسوں کا اہتمام کرنے والوں کا کام بڑھتا چلا جاتا ہے، ادھر جلسے کا اہتمام کرنے کا آرڈر ملا اور ادھر تیاری مکمل، سجا سجایا پنڈال پارٹی کو پیش کر دیا جاتا ہے،مگر اس کا خاطر خواہ معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے، ایسے ہی الیکشن کے قریب آتے ہی ٹرانسپورٹ والوں کاکام بھی خوب بڑھ جاتا ہے۔

جن گاڑیوں کو پہلے کوئی کرائے پر لے جانے کے لئے تیار نہیں ہوتا ان کے مالکان بھی منہ مانگا کرایہ لیتے ہیں اور گاڑیوں کی کم یابی کی وجہ سے الیکشن امیدوار یا اس کے حمایتی اس کی بات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ الیکشن کے قریب آتے ہی سوزوکی وین یا موٹر سائیکل رکشہ والوں کی بھی سنی جاتی ہے اور الیکشن سے ایک روز قبل ہی تمام ویگنوں اور رکشے والوں کو ایڈوانس دے دیا جاتا ہے اور وہ سارا دن ووٹروں کو گھروں سے لانے اور لے جانے میں مصروف نظر آتے ہیں ، تاہم اس مرتبہ الیکشن کمیشن کی طرف سے پابندی کی وجہ سے شائد ایسا نہ ہو سکے، کیونکہ الیکشن کمیشن نے ووٹروں کو گاڑیوں میں گھر وں سے لانے پر پابندی لگا دی ہے اور اسے غیر قانونی قرار دیا ہے۔

پینا فلیکس کی موجودہ الیکشن میں اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ اس کی خوبصورتی قریب سے گزرنے والے کو فوراً متوجہ کر لیتی ہے ، دوسرے اس کی مشین کو چلانا بھی آسان ہے اس لئے اس کاروبار کو بہت عروج حاصل ہوا ہے۔  پینا فلیکس بنانے والے عاصم خان  نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ الیکشن کے دنوں میں ہمارا کام بہت بڑھ جاتا ہے جس کا ہمیں خاطر خواہ مالی فائدہ ہوتا ہے۔ عام طور پر الیکشن امیدوار اور ان کے حمایتی ہمارے ساتھ رابطہ کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق ڈیزائننگ کراتے ہیں ، فلیکس ڈیزائننگ میں ایک بہت بڑا فائدہ یہی ہے کہ گاہگ وہیں بیٹھ کر خود ڈیزائننگ کرا سکتاہے ، دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ بجلی جانے کی صورت میں اس مشین کو یوپی ایس پر بھی چلایا جا سکتا ہے، ورنہ آج کل جیسے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے ، وقت پر آرڈر تیار نہیں کئے جا سکتے تھے۔

پینا فلیکس کا ریٹ عام طور پر تیرہ سے پندرہ روپے فی مربع فٹ ہے جو کچھ زیادہ نہیں ہے ، دو ، تین سو روپے میں بڑی خوبصورت پینا فلیکس تیار ہو جاتی ہے، تاہم ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو اچھا میٹریل استعمال کرانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے معاوضہ بڑھ جاتا ہے ، ہمارا اس میں مارجن صرف ایک یا دو روپے فی مربع فٹ ہے ، مگر کام چونکہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے ہمیں کافی منافع ہوتا ہے۔ خود اندازہ کریں کہ اگر دس ہزار مربع فٹ کا آرڈر ہو تو ایک روپے کے حساب سے ہمیں دس ہزار روپے بچت ہو گی ، ہم تو چاہتے ہیں کہ الیکشن کا موسم بار بار آئے، اس سے ہمیں ہی نہیں دوسرے بہت سے پیشہ ور افراد کو بھی بہت فائدہ ہوتاہے۔‘‘

فوٹو: فائل

اشتہارات اورسٹکر چھاپنے والے محمد یاسین نے بتایا کہ الیکشن کے دنوں میں ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے چونکہ معمول سے ہٹ کر ہمارے پاس بہت زیادہ کام آتا ہے،مگراس مرتبہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہونے کی وجہ سے ہمارا کام بہت ڈسٹرب ہو رہا ہے۔ گزشتہ الیکشن میں چونکہ بجلی بند نہیں ہوتی تھی اور ہم دن رات کام کرتے تھے جس کی وجہ سے ہفتے میں چالیس ہزار روپے تک کما لیتے تھے اب تو پورے مہینے میں بھی چالیس ہزار کما لیں تو بڑی بات ہے، لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کام بھی نہیں پکڑ سکتے کیونکہ گاہک کو وقت پر کام نہ ملے تومارکیٹ میں ہماری ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ پینا فلیکس بنانے والوں کی وجہ سے بھی ہمارا کام متاثر ہوا ہے کیونکہ اب لوگ سٹکر اور اشتہارات کم اور فلیکس زیادہ بناتے ہیں ، ان کا کام لوڈشیڈنگ کے باوجود اس لئے چل جاتا ہے کہ پینا فلیکس مشین یو پی ایس پر بھی چلائی جا سکتی ہے جبکہ ہمیں بڑا جنریٹر چاہیے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔دوسری بات یہ کہ اشتہارات کا میٹریل بھی کافی مہنگا ہو گیا ہے جس سے ہماری بچت کم ہو گئی ہے ، اس لئے موجودہ الیکشن میں وہ بات نہیں جو پہلے ہوا کرتی تھی۔

پریس ایجنٹ شیخ محمد افضل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ الیکشن کے دنوں میں ہمارے پاس عام دنوں کی نسبت کام زیادہ ہوتا ہے ، مگر ہمیں زیادہ فائدہ چھوٹے الیکشن یعنی بلدیاتی الیکشن میں ہوتا ہے کیونکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے دنوں میں کام چونکہ بہت زیادہ ہوتا ہے اس لئے اشتہارات یا پینا فلیکس چھپوانے والے پرنٹنگ پریس والوں کے پاس خود ہی پہنچ جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچت کر سکیں ، فرض کریں قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے لئے اگر بیس ہزار اشہارات اور پچیس ہزار سکوائر فٹ پینا فلیکس چھپوانا ہو تو ایک روپے بچت کی صورت میں بھی پچاس ہزار روپے کا فرق آئے گا۔

اتنے بڑے آرڈر میں ہمارے لئے مشکل یہ ہوتی ہے کہ پریس والوں کو ادائیگی ہم نے کرنا ہوتی ہے اگر پارٹی سے پیسے نہ ملیں تو ہمارے لئے بہت مشکل ہو جاتی ہے اس لئے بڑے آرڈر میں ہم کم ہی ہاتھ ڈالتے ہیں تاہم اس میں بچت کافی زیادہ ہو جاتی ہے، البتہ چھوٹے آرڈرز جیسے کوئی پارٹی کارکن دوچار پینا فلیکس اپنی پارٹی کے حق میں بنوانا چاہے تو اس میں ہمیں آسانی ہوتی ہے کیونکہ اس میں بچت زیادہ اور پیسے ڈوبنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ گزشتہ الیکشن کی نسبت اس مرتبہ اشتہارات، بینرزاورسٹکرز کا کام بہت کم ہے ، ہمیں اس میں بہت فائدہ تھا ، مگر اب لوگ پینا فلیکس زیادہ بنوا رہے ہیں جس سے ہمارا کام متاثر ہوا ہے۔‘‘

پینٹر محمد کاشف نے بتایا ’’وال چاکنگ پر پابندی کی وجہ سے ہمارا کام بہت کم ہو گیا ہے ، کیونکہ اصل میں ہمارا کام تو وہی تھا ، اوپر سے پینا فلیکس نے بینر کی جگہ لے لی ہے اس لئے ہمارے پاس تو اب کام بہت کم رہ گیا ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی بجائے ہمارے پاس ان کے سپورٹر دوچار بینر لکھوانے آ جاتے ہیں ، آپ خود اندازہ لگائیں کہ ایک بینر لکھنے کے ہم اڑھائی سو روپے لیتے ہیں جس میں بینر کا کپڑا بھی ہمارا ہوتا ہے یوں ہمیں بینر لکھنے میں صرف محنت ہی بچتی ہے، البتہ ایک کام اس مرتبہ نیا یہ ہوا کہ کہ جن افراد نے پہلے وال چاکنگ کرائی تھی اب وہ اسے مٹا نے کے لئے پینٹرز سے رابطہ کرتے ہیں یوں اس طرح بھی آمدن کا ایک ذریعہ بنا ہے، اسی طرح سے بینر لکھنے کے بعد لگوانے کے لئے بھی بعض اوقات ہمیں ہی ٹھیکہ دے دیا جا تا ہے تو ہم بینر لگا بھی دیتے ہیں اس کے لئے ہمیں رسیوں اورڈنڈوں سمیت پچاس روپے ملتے ہیں اگر یہ سامان ہمارا ہو تو پچاس روپے فی بینر ملتے ہیں ، اس کے لئے ہم عموماً ایک،دو مزدور ساتھ لے لیتے ہیں یوں ان کا بھی روزگار کا سلسلہ بن جاتا ہے۔

الیکشن کے دوران جلسوں کا بندوبست کرنے والے ملک آصف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ الیکشن کے دنوں میں ہمیں فائدہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ جلسوں میں سٹیج ، کرسیاں اور دیگر لوازمات لگانے سے ہمیں فائدہ پہنچتا ہے، مگر یہی فائدہ اس وقت کم ہو جاتا ہے جب کرسیاں چوری ہو جاتی ہیں یا توڑ دی جاتی ہیں ، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کارنر میٹنگ میں سامان لگایا تو کوئی پیسہ بھی نہ ملا اور ادھار ہنوز ادھا ر ہی رہا۔‘‘

گو پینٹرز، پریس ایجنٹ ، پرنٹرز، اشتہارات لگانے اور جلسوں کا بندوبست کرنے والوں کی عام دنوں میں اتنی اہمیت نہیں ہے مگر الیکشن کی تزئین و آرائش اور اسے حسن بخشنے میں یہی پیشے اہم کردار ادا کرتے ہیں اور الیکشن کی تمام رونقیں انہی کے دم سے ہوتی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔