وقت کرتا ہے پرورش برسوں

انوار فطرت  اتوار 28 اپريل 2013
دنیا میں پارلیمان کے ارتقاء کی عہد بہ عہد روداد۔ فوٹو: فائل

دنیا میں پارلیمان کے ارتقاء کی عہد بہ عہد روداد۔ فوٹو: فائل

Rome was not built in a day کی طرح پارلیمنٹ بھی ہتھیلی پر محاورے والی سرسوں کی طرح نہیں اگی، موجودہ صورت پانے کے لیے اسے سیکڑوں برس کے سیکڑوں مراحل سے گزرنا پڑاہے۔

یوں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شاہانِ مطلق العنان کے مکافات عمل کا نتیجہ ہے اور قدرت نے ان سے انتقام کی یہ شکل اختیار کی لیکن سائنسی انداز فکر اسے مختلف طبقات کے درمیان مفادات کے ٹکرائو (جدلیات) کا لازمی نتیجہ قرار دیتی ہے۔ اس سے قبل ان ہی صفحات پر جمہوریت کے ارتقاء کے حوالے سے مضمون میں عرض کیاجا چکا ہے کہ ایوان بالا و زیریں کے قدیم تر آثار سپارتا، ایتھنز، روم اور میسوپوٹیمیا میں (ہر چند مبہم، تاہم) دکھائی دیتے ہیں۔ بہت آغاز سے ہی ایوان بالا، بالائی طبقے کے مفادات اور ایوان زیریں، زیردست طبقے کے مفادات کا نام نہاد محافظ رہا ہے۔

…لیکن جب ہم جدید اور جدید تر جمہوری اداروں کی بات کرتے ہیں تو پھر ہمیں مادرِ جمہوریت، سلطنت متحدہ (یو کے) کی تاریخ میں خاصی گہرائی تک اترنا پڑتا ہے۔ تیرہویں صدی (1236) کے دوران لفظ ’’پارلیمنٹ‘‘ سرکار کے منہ سے پہلی بار سنائی دیتا ہے۔ اس عہد میں اس کا مفہوم شورائی مجلس کے قریب تر تھا۔ بادشاہ مشورے کے لیے اپنے نوابوں اور مراعات یافتہ شخصیات کو طلب کرتا تھا، مذہبی پیش واء(بشپس اور ایبٹس) بھی بلا لیے جاتے تھے تاکہ دین اور دنیا کو مخلوط کرکے اپنی فلاح کی راہ ہم وار کی جائے تاہم اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اس عہد میں ’’پارلیمان‘‘ کوئی ادارہ تھا، یہ محض ایک ’’تقریب بہر ملاقات‘‘ ہوتی تھی اور تب ہی ہوتی تھی جب شاہ کسی گنجل میں پھنستا تھا۔

لفظ پارلیمنٹ فرانسیسی کے لفظ پارلر (Parler) سے ماخوذ ہے جس کا مفہوم گپ شپ، بحث مباحثے یا مذاکرات کی جگہ ہے۔ شاہ کی پارلیمان شاہ کی مرضی پر ہوتی تھی کہ وہ اسے کہاں اور کتنی مدت تک کے لیے منعقد کرنا چاہتا ہے۔ اس میں لوگ بھی وہی بٹھائے جاتے تھے جو ’’جی حضور!‘‘ سے آگے بولنا نہیں جانتے تھے۔

…لیکن یہ ہی تیرہویں صدی ہے جب مراعات یافتہ طبقے (Barons) یا جاگیرداروں کو موقع ملا کہ وہ بادشاہوں کے خلاف دیر سے راکھ تلے سلگتی آگ کوہوا دے پائیں۔ انہوں نے اپنے مفادات کے دوام کے لیے بادشاہوں کے خلاف باغیانہ سرگرمیاں تیز تر کیں۔ وہ سمجھتے تھے، بادشاہ کا طرز حکومت ناقص ہے اور یہ نقص تب ہی دور ہو سکتا ہے جب بادشاہ ان جاگیرداروں کے کہے کے مطابق بادشاہی کرے۔

1215 میں اس طبقے کو کام یابی حاصل ہوئی اور شاہ جون ان کے ساتھ معاہدۂ عظمیٰ (Magna carta) پر دست خط کرنے پر مجبور ہوگیا۔ یہ ’’حقوق کا معاہدہ‘‘ تھا تاہم اس کا عوام کے حقوق سے کوئی علاقہ نہیں تھا بل کہ یہ صرف جاگیردار طبقے کے حقوق کا پاس دار معاہدہ تھا۔

1258 میں جب سلطنت متحدہ کے تخت پر ہنری سوئم براجمان تھا تو جاگیرداروں نے ایک بار پھر بادشاہ پر دبائو ڈالنے کے لیے آکسفورڈ میں پارلیمنٹ طلب کی جس میں شاہ ہنری پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا اور اس کو کچھ ’’شرائط‘‘ قبول کرنے کے لیے مجبور بھی کیا۔ اسے ’’شرائط آکسفورڈ‘‘ یا (Provisions of oxford) کا نام دیا جاتا ہے۔ ان میں پارلیمنٹ کا اجلاس سال میں تین بار منعقد کرنے کا مطالبہ بھی تھا اور یہ بھی کہ پارلیمنٹ میں 12 ایسے نمائندے کائونٹیوں سے بھی شامل کیے جائیں جن کا تعلق شاہی خاندان سے نہ ہو۔ کائونٹی ایک جغرافیائی خطہ ہوتا ہے جو کسی کائونٹ یا وِسکائونٹ کے ماتحت ہوتا تھا۔ بادشاہ کے نزدیک یہ معاملہ یوں تھا کہ اب ’’بازارُو اور گھس بیٹھیے لوگ‘‘ بھی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بادشاہ کے کاروبار حکومت پر جرح و تنقید کریں گے سوشاہ ہنری سوئم نے صاف انکار کر دیا سو شاہ اور اس کے Barons میں ٹھن گئی، جنگ چھڑی تو بادشاہ کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔

بادشاہ کے زخم مندمل نہ پائے تھے کہ Barons کے ہیرو سائمن دی مونٹ فورٹ نے اپنی ذاتی پارلیمان بنالی اور 1265 کے آغاز ہی میں اس کا اجلاس طلب کر لیا تاکہ اس میں بادشاہ کے ساتھ صلح کی شرائط پر اپنی مرضی کے مطابق غور کیا جائے، اسے سائمن کی پارلیمنٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سائمن کی پارلیمان کو جدید پارلیمان کی پیش رو قرار دیا جاتا ہے۔ اس پارلیمان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں یوکے کی تمام کائونٹیوں، شہروں، قصبوں اوردیہات کے نمائندے شامل تھے۔ بعد میں ایک اور جنگ کے دوران سائمن دی مونٹ فورٹ، ہنری سوئم کے بیٹے ایڈورڈ کے ہاتھوں مارا گیا لیکن یہ ہی ایڈورڈ (اول) بعد میں جب بادشاہ بنا تو اس نے پارلیمنٹ کو ادارے کی صورت دی تاہم رعایا کے مفاد کے لیے نہیں بل کہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے۔

ہنری سوئم سے پہلے ہنری اول نے پارلیمنٹ کے ارتقاء میں اپنا حصہ یوں ادا کیا تھا کہ وہ پارلیمان کا اجلاس وقتاً فوقتاً منعقد کرواتا رہتا تھا۔ اس کا دور حکومت 35 سال پر محیط تھا جس میں پارلیمان کے 46 اجلاس منعقد ہوئے۔ ان میں پہلے 20 برسوں میں تو یہ سال میں دو کی اوسط سے ہوتے رہے۔

1278 میں یہ پیش رفت ہوئی کہ پارلیمان کے اجلاسوں کے باقاعدہ سرکاری و تحریری ریکارڈ بنائے جانے لگے۔ ان تحریروں کی رول کرکے ایک ٹکڑے کو دوسرے کے ساتھ سیا جاتا تھا انہیں Rolls of Parliament کہا جاتا ہے۔ ایڈورڈ اول ہی نے 1275 میں اپنی پہلی پارلیمان کا اجلاس طلب کیا تاہم اس کے ساتھ یہ اضافی حکم بھی جاری کیا کہ ہر کائونٹی سے دو دو نمائندے منتخب (Elect) کیے جائیں یہ نمائندے شائروں کے نائٹس (Knights) ہوتے تھے، اس کے علاوہ اس نے ہر شہر اور قصبے سے بھی دو دو نمائندے منتخب کرنے کا حکم دیا جو برجس (Burgess) کے مرتبے کے حامل ہوں۔

برجس ایک شاہی لقب ہے جو مراعات یافتہ طبقے میں شامل ہوتے تھے۔ یہ اجلاس ایک نیا ٹیکس عاید کرنے کے لیے بلایا گیا تھا، جس کی شاہ منظوری لینا چاہتا تھا، بعد میں شاہوں نے اسے وتیرہ بنا لیا، اس طرح وہ نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے لیے اپنے مراعات یافتہ طبقے سے ہامی بھروا لیا کرتے، یہ سلسلہ بہ ہرحال آنے والے زمانوں کے لیے ایک نمونے کی شکل اختیار کر گیا۔ 1295 میں طلب کیے گئے ایک ایسے ہی پارلیمانی اجلاس کو ’’ماڈل پارلیمنٹ‘‘ قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کی ارتقاء یافتہ صورت آج ہمیں جدید پارلیمانی نظام میں دکھائی دے رہی ہے۔

تیرہویں اور چودھویں صدی کے دوران پارلیمانوں کا اجلاس بادشاہ کی ’’خواہشِ پیکار‘‘ کی تکمیل کے لیے منعقد کیے جاتے تھے۔ جنگ کے لیے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں پورا کرنے کے لیے آسان تر راستہ یہ ہوتا تھا کہ رعایا پر نئے ٹیکس عاید کیے جائیں۔ پارلیمنٹ کی منظوری کو اس مقصد کے لیے ایک آڑ بنا لیا جاتا تھا کہ اس میں پرجا کی ’’اِچّھا‘‘ شامل ہے۔

جنوری 1327 کو پارلیمان نے ایڈورڈ دوئم کو تخت سے معزول کر دیا اور اس کے ساتھ ہی پارلیمان ایک نئے عہد میں داخل ہو گئی۔ تیسرے ایڈورڈ کے زمانے میں اسے ادارے کی صورت دے ہی دی گئی تھی، ادارے کی حیثیت سے اس میں لارڈز، عوام اور شاہی نمائندگی کو شامل کر لیا گیا۔

شاہ ایڈورڈ سوئم 1327 میں سریر آرائے سلطنت ہوا تھا۔ 1332 کے بعد یہ تمام لوگ ایک ہی ایوان میں بیٹھنا شروع ہوئے جسے دارالعوام (House of commons) کہا گیا۔ 1341 میں کامنز یعنی عامیوں نے خود کو لارڈوں اور شاہی خاندان سے علیحدہ کر لیا یعنی وہ اسی ایوان میں اپنے الگ اجلاس کرنے لگے۔

ایڈروڈ سوئم نے پارلیمان کا اجلاس ہر سال منعقد کرنے کی تلقین کی تھی سو 1327 سے 1485 کے برسوں میں صرف 42 برس ایسے آئے جن میں اجلاس بہ وجوہ برپا نہ ہو سکے۔

چودھویں صدی عیسوی میں پارلیمان کے اراکین اور بالخصوص کامنز نے اپنی بات کو زیادہ موثر انداز میں منوانے کے لیے پارلیمانی اجلاسوں میں تسلسل پیدا کرنے کی ٹھانی تاکہ پارلیمانی اجلاس محض ٹیکسوں کے نفاذ کا ہتھیار ہی نہ بنے رہیں۔

1376 تک ایڈورڈ سوئم خاصا بڈھا ہو چکا تھا اور اس سے لوگ تنگ بھی بہت تھے۔ اسی سال پارلیمان کے اراکین نے سرپیٹر ڈی لا میئر کو ایوان کا ترجمان (Spokesman) چنا، جو بادشاہ سے مل کر معاملات پر سودے بازی کرتا تھا، بعد میں Spokesman کا عہدہ Speaker میں ڈھلا۔ یوں سرپیڑکو سپیکر شپ کا پیش رو ہونے کا اعزاز حاصل ہے تاہم باقاعدہ سپیکر سرپیٹر کے بعد اگلے سال چنا گیا ٹامس ہنگر فورڈ ہی کہلایا۔

فوٹو: فائل

اچھی پارلیمنٹ:

1376 کی پارلیمنٹ کو Good Parliament کہا جاتا ہے کیوںکہ اس پارلیمان کے اجلاس میں عامیوں (Commons) نے شاہ کے بعض وزراء کو بدعنوان قرار دیا۔ اس طرح، اس طرح کے فرائض بھی اب پارلیمان ادا کرنے لگ گیا۔

زبردست پارلیمنٹ:

1836 کی پارلیمنٹ Wondorful Parliament) قرار دیا جاتا ہے کیوںکہ اس نے ایڈورڈ سوئم کے بعد بادشاہ بننے والے رچرڈ دوئم کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے لارڈ چانسلر کو برطرف کر دے اور اس پر مقدمہ قائم کیا جائے۔

بے رحم پارلیمنٹ:

1838 کی پارلیمنٹ کو Merciless Parliament کہا جاتا ہے کیوںکہ اس پارلیمنٹ نے مذکورہ لارڈ چانسلر اور بعض شاہی افسران کو سزائے موت سنائی نہ صرف یہ بل کہ رچرڈ دوئم کو ہنری بولنگ بروکر کے حامیوں کے ساتھ مل کر معزول کیا، ہنری بعد میں شاہ ہنری چہارم بنا۔ پارلیمان کا یہ اجلاس ویسٹ منسٹر میں ہوا تھا۔

کامنز کی قانون سازی:

1399 میں رچرڈ دوئم کے چچا زاد ہنری یولنگ بروک نے بادشاہ کو معزول کیا تو تخت و تاج پر اپنے دعوے کو جائز قرار دلوانے اور رقم کے حصول کے لیے پارلیمان سے رجوع کیا۔ 1401 میں نئے بادشاہ نے تسلیم کیا کہ عوامی نمائندوں (کامنز) کو اس وقت تک ٹیکس کا پابند نہ بنایا جائے جب تک ان کی شکایات کا ازالہ نہیں کر دیا جاتا تاہم جب بادشاہ نے ایک ٹیکس کے نفاذ کے سلسلے میں لارڈز کے ساتھ مذاکرات میں کامنز (عامیوں) کو نظرانداز کیا تو انہوں نے شدید اعتراضات اٹھائے۔ یہ عمل اس شدت کے ساتھ کیا گیا کہ بادشاہ کو ان کا یہ حق تسلیم کرنا پڑا کہ روپے پیسے کے معاملات میں کامنز ہی کی رائے تسلیم کی جائے گی۔

اس کے علاوہ عامیوں (کامنز) نے قانون سازی میں بھی اپنی برابری کا حق منوا لیا۔ اس سے یہ ہوا کہ پارلیمان ایک ایسے فورم کا فریضہ بھی ادا کرنے لگ گیا جو عوام کی خواہشات پر مبنی معاملات بھی بادشاہ اور لارڈز کو پیش کر سکتا تھا۔ ایسے معاملات ہائوس آف کامنز، ایوان بالا کو بھیجتا اور بادشاہ سے ان پر نئے قوانین منظور کراتا۔ سائل اپنی درخواست دارالعوام کو بھیجتا، دارالعوام ان درخواستوں پر دستاویز سازی کرتا جنہیں بل (Bills) کا نام دیا جاتا یہ بل ایوان بالا کو بھیجا جاتا تھا۔

اب ہوتا یہ تھا کہ جب بل ایوان بالا میں پہنچتا تھا تو لارڈز اس میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کرتا۔ 1414 میں ہائوس آف کامنز نے بادشاہ سے تسلیم کروایا کہ لارڈز کو اس عمل سے باز رکھا جائے اور کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لیے کامنز سے رجوع کیا جائے اور یہ بھی کہ کسی بھی بل کو اس وقت تک ایکٹ کی صورت نہ دی جائے جب تک کامنز کو اعتماد میں نہ لیا جائے ان اقدامات کے نتیجے میں کامنز اور لارڈز کے درمیان قانون سازی کے معاملے میں مساوات کی ایسی کیفیت پیدا ہو گئی۔ پندرہویں صدی میں بادشاہ کو رقوم کے اجراء کے معاملات پوری طرح ہائوس آف کامنز کے ہاتھ آ گئے، اب وہ ’’سائل‘‘ کی حیثیت سے آگے چل کر ’’حصہ دار‘‘ کے مرتبے پر پہنچ گئے۔

قرون وسطیٰ کا ہائوس آف لارڈز:

قرون وسطیٰ کے ایوان بالا میں دو قسم کے لارڈز شامل ہوتے تھے۔ ایک مذہبی لارڈ جیسے بشپ اور ایبٹ وغیرہ اور دوسرے دنیا دار یعنی بالائی طبقہ۔ مذہبی لارڈز کی تعداد بہت قلیل ہوتی تھی۔ یہ لوگ مذہبی ایوانوں کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔ انہیں پارلیمانوں کے اجلاسوں میں بلایا تو جاتا تھا تاہم یہ لوگ کم ہی جایا کرتے تھے۔ ہنری ہشتم کے بعد 1536 تا 1539 کے دوران خانقاہی سلسلہ توڑ دیا گیا اور پارلیمان میں ان کے عہدے بھی اس کے ساتھ ہی ختم ہو گئے البتہ 1661 میں انہیں یعنی بشپس اور ایبٹس کو بحال کیا گیا اور یہ آج بھی ایوان میں بیٹھتے ہیں۔

وسطی قرون کے اوائل میں دنیا دار لارڈز:

(Temporal Lords) میں ایک بہت ہی چھوٹی سی تعداد میں نوابان (Earls) اور بڑی تعداد میں جاگیرداروں (Barons) کو شامل کیا جاتا تھا او ان میں سے بھی صرف ایک تہائی کو ذاتی پارلیمان میں طلب کیا جاتا تھا۔

اصلاحی پارلیمان:

سولہویں صدی میں شاہِ انگلستان ہنری ہشتم اور اس کی اہلیہ کیتھرین آف آراگون کے درمیان طلاق کے قضیے نے سر اٹھایا تو اس پر پاپائے روم نے مذہبی تنازعات و مناقشات کے دروازے کھول دیے، شاہ کے لیے مصیبت کھڑی ہو گئی۔ اس موقع پر اس نے پارلیمان کا اجلاس طلب کر لیا تاکہ اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ ہنری ہشتم کی اس پارلیمنٹ کو درست کرنے والی پارلیمنٹ Reformation Parliament کا نام دیا جاتا ہے۔ اس پارلیمان نے چند ہی برسوں میں بادشاہ کی مدد و نصرت سے ایسے قوانین مرتب کیے جو قومی زندگی پر مکمل دست رس رکھتے تھے، خاص طور پر مذہبی بے لگامی کو قابو میں لایا گیا۔ مذہبی معاملات اس سے قبل چرچ کے ہاتھ میں تھے ان قوانین کے وجود میں آنے کے بعد مذہبی پیش وائوں کی اجارہ داری ختم ہو گئی اور پارلیمان کو حکومت اور سماج کے ہر شعبے پر برتری حاصل ہو گئی۔ پوپ کے اختیارات بادشاہ کو منتقل کر دیے گئے۔

آزاد مباحثے:

ملکہ ایلزبتھ اول کا عہد سولہویں صدی میں آتا ہے۔ اس کے دور میں پارلیمان کا ایک رکن پیٹر ونٹ ورتھ نے بڑی شہرت حاصل کی۔ وجۂ شہرت اس عہد میں اس کی تین مرتبہ گرفتاری تھی۔ اس کا موقف تھا کہ عامیوں (کامنز) کو ہر اس معاملے پر بحث کی اجازت ہونی چاہیے جس کی وہ خواہش کرے، خاص طور پر مذہب کے متنازع امور زیر بحث آنے چاہییں اور یہ کہ ملکہ کو بھی ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

مورخین پیٹر ونٹ ورتھ کو احترام دیتے ہیں کہ اس نے دارالعوام کو زیادہ خود اعتمادی دی اور تاج برطانیہ کے خلاف ایک ادارہ جاتی اختلاف کی صلاحیت کو تقویت پہنچائی تاہم حقیقت یہ ہے کہ سولہویں صدی اور سترہویں صدی کی اوائلی دہائیوں تک اراکین پارلیمان خود کو بادشاہ کے حکم کے غلام ہی سمجھتے رہے اور پارلیمنٹ کو ایسا ایوان، جہاں ’’مقامی امور‘‘ پر قانون سازی کی جاتی تھی۔ پارلیمان میں اس وقت تک قومی اور عالمی سطح کے امور پر بحث مباحثہ نہیں کیا جا سکتا تھا تاہم ان صدیوں تک پارلیمان جہاں پہنچ چکی تھی اس سے آگے بہت کم فاصلہ رہ گیا تھا موجودہ پارلیمان تک پہنچنے کو۔

دنیا جہاں میں، جہاں کہیں جمہوریت یا پارلیمان کی بات کی جائے گی تو تاریخ فوری طور پر آپ کے سامنے ’’مادرِ جمہوریت‘‘ انگلستان کا حوالہ لائے گی، باقی دنیا میں اس کی نقول و امثال ہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔