افغانستان ، ہیروئن اور منشیات کا مرکز

محمد اختر  اتوار 28 اپريل 2013
افغانستان کی ساڑھے تین کروڑ آبادی میں دس لاکھ سے زائد افراد منشیات کے نشے میں گرفتار ہیں۔ فوٹو: فائل

افغانستان کی ساڑھے تین کروڑ آبادی میں دس لاکھ سے زائد افراد منشیات کے نشے میں گرفتار ہیں۔ فوٹو: فائل

افغانستان دنیا کی نوے فیصد منشیات پیدا کرتا ہے لیکن اس کا شمار منشیات استعمال کرنے والے بڑے ملکوں میں نہیں ہوتاتھا۔

تاہم اب اس کی ساڑھے تین کروڑ آبادی میں دس لاکھ سے زائد افراد منشیات کے نشے میں گرفتار ہیں اورکسی ملک کی آبادی کے تناسب کے اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ کابل کے وسط میں دریائے کابل کے پتھریلے کنارے  پر نشئی جمع ہوتے ہیں اور ہیروئن خریدتے اور استعمال کرتے ہیں۔

دن دیہاڑے یہاں پر درجنوں مرد اور نوعمر لڑکے جمع ہیں  اور سگریٹ نوشی اور ٹیکوں کے ذریعے منشیات استعمال کررہے ہیں۔ان میں کچھ پڑھے لکھے بھی ہیں جیسے ایک ڈاکٹر ، ایک انجینئر اور ایک ترجمان بھی ان میں موجود ہے۔نشے کے خلاف کام کرنے والی ایک این جی او ’’نجات‘‘ سے تعلق رکھنے والے طارق سلیمان باقاعدگی سے یہاں آتے ہیں اور منشیات استعمال کرنے والوں کو علاج کرانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’’ہم پہلے ہی خودکش حملوں ، راکٹ اور بم حملوں کی وجہ سے اپنے بچوں کو کھو رہے ہیں۔‘‘ طارق کا کہنا تھا۔’’لیکن اب منشیات بھی ایک قسم کی دہشت گردی بن چکی ہے جو ہمارے لوگوں کو ہلاک کررہی ہے۔‘‘

بدخشاں سے تعلق رکھنے والا اٹھارہ سال جاوید گذشتہ دس سال سے منشیات کا استعمال کررہاہے۔ اسے منشیات پراس کے چچا نے لگایا تھا جب وہ چھوٹا بچہ تھا۔اس کاچچا کہتا تھا کہ منشیات کے نشے میں سخت کام کرنا آسان لگتا ہے۔’’مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہے۔‘‘  جاوید کا کہنا تھا۔’’ہر کوئی مجھ سے نفرت کرتا ہے۔مجھے اس عمر میں اسکول میں ہونا چاہیے تھا لیکن میں نشہ کرتا ہوں۔‘‘

جاوید کا باپ فوت ہوچکاہے۔ اس کی ماں معذور ہے لیکن اس کے باوجود اپنے بیٹے کے بارے میں ہر وقت فکر مند رہتی ہے۔اس کی صرف ایک ہی خواہش ہے کہ اس کا بیٹا نشہ چھوڑ دے۔وہ بھیک مانگ کر بیٹے کو پیسے دیتی ہے تاکہ وہ نشے کے لیے چوری سے باز رہے۔وہ اپنے بیٹے کو یہی کہتی ہے کہ جب وہ مرے گی تو وہ پل کے نیچے نشیئوں کے ساتھ پڑا سو رہا ہوگا۔

زیادہ تر نشیئوں کا یہی مقدر ہے۔وہ راتوں کو آگ کے الائو کے پاس بیٹھے رہتے اور نشے میں مصروف رہتے ہیں۔پولیس اکثر انھیں مارتی پیٹی اور منتشر کرتی رہتی ہے اور بعض اوقات دریا میں بھی پھینک دیتی ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں افغانی نشہ کرتے ہیں۔واضح طورپر عشروں سے جاری جنگ اور خونریزی کا اس میں واضح کردار ہے۔ان میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو گذشتہ تیس سال کی خانہ جنگی کے دوران ایران اور پاکستان میں رہے ہیں جہاں منشیات کا استعمال بہت عام رہا ہے۔یہ لوگ اب واپس لوٹ رہے ہیں اور اپنی منشیات کی عادت بھی ساتھ لا رہے ہیں۔بے روزگاری کا بھی اس میں بڑا کردار ہے جس کی شرح چالیس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

دریائے کابل کے کنارے نشہ کرنے والے ایک اور نوجوان  فاروق نے بتایا کہ اگر اس کے پاس کوئی نوکری ہوتی تو وہ اس جگہ پر نہ ہوتا۔فاروق پڑھا لکھا ہے اور اس کے پاس میڈیسن میں ڈگری ہے اور وہ اسپتال میں کام کرچکا ہے۔وہ کہتا ہے کہ وہ  پرسکون رہنے کے لیے نشہ کرتا ہے لیکن اب اسے ایسا لگتا ہے کہ اس سے بہتر تھا کہ وہ مرجاتا۔

ایک اور بڑی وجہ ہیروئن کی آسانی سے دستیابی ہے جو گذشتہ ایک عشرے کے دوران خام افیون سے افغانستان کے اندر ہی بنائی جانے لگی ہے۔نشئیوں کا کہنا ہے کہ کابل سے ہیروئن خریدنا ایسے ہی ہے جیسے آپ کھانے پینے کی کوئی عام چیز خرید رہے ہیں۔کابل میں ایک گرام ہیروئن چھ ڈالر میں مل جاتی ہے اور شہر کے کونے کونے میں دستیاب ہے۔

منشیات پر کنٹرول کے حوالے سے اقوام متحدہ کے نمائندے ژاں لوک لیماہیو کا کہنا ہے کہ روایتی طورپر کہا جا تا ہے کہ جب طلب ہو تو رسد بھی ہوتی ہے۔لیکن ہم یہ بھول چکے ہیں کہ جب کسی جگہ پر کوئی چیز بڑے پیمانے پر دستیاب ہو تو مقامی ڈیمانڈ پیدا ہوجاتی ہے۔

2001 میں جب غیرملکی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو ان کا ایک ہدف منشیات کا خاتمہ بھی تھا۔ لیکن اس کے بجائے  انھوں نے تمام ترتوجہ عسکریت پسندوں سے لڑائی میں صرف کردی اور پوست کی پیدوار پر سے آنکھیں بند کرلیں۔افیون افغانستان میں صدیوں سے پیدا ہورہی ہے جو طبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھی۔مزار شریف میں ایک افغان خاتون فاطمہ نے بتایا کہ اس نے افیون اس وقت استعمال کی جب زچگی کے دوران اس کا بہت سا خون بہہ گیا کیونکہ ڈاکٹر کے پاس جانے کے مقابلے میں یہ بہت سستی تھی۔اس کے بعد وہ اپنے بچے کو بھی افیون دینے لگی ا وراب وہ دونوں اس کے عادی ہوچکے ہیں۔

فاطمہ اور ان کے بچوں کا تو اسپتال میں علاج ہورہا ہے لیکن بہت کم تعداد میں نشئی افغانی ایسے ہیں جنہیں یہ سہولت دستیاب ہے۔افغان وزارت صحت ملک میں پچانوے کے قریب منشیات سے بحالی کے مراکز چلا رہی ہے جن میں بمشکل ڈھائی ہزار کے قریب بستر ہیں۔نشئیوں کے لیے اس کے پاس صرف بیس لاکھ ڈالر سالانہ کا بجٹ ہے یعنی ہر نشئی کے لیے صرف دوڈالرسالانہ۔

افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو اب بھی پتھر کے دور میں بستا ہے۔اس کے مسائل کی تعداد بے تحاشا ہے جن میں خانہ جنگی اور عسکریت پسندی سرفہرست ہے۔ ایسے ماحول میں منشیات کے خلاف ٹھوس پالیسی بنانا اور نشے کے خلاف جنگ میں کامیابی کا مستقبل فی الحال بہت غیریقینی دکھائی دیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔