شجرکاری اور سوچنے کی بات

ایڈیٹوریل  جمعـء 15 جون 2018
شجرکاری علاقے کے ماحول اور ضرورت کے مطابق کی جائے اوراگر پودے لگائے جائیں تو ان کی حفاظت بھی کی جائے۔ فوٹو: فائل

شجرکاری علاقے کے ماحول اور ضرورت کے مطابق کی جائے اوراگر پودے لگائے جائیں تو ان کی حفاظت بھی کی جائے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں مون سون موسم کے آغاز کے ساتھ ہی شجرکاری مہم شروع ہوتی ہے‘ پاکستان میں درختوں کی کیا اہمیت ہے اس سے ملک کا ہر باشعور شہری اور حکومت کے کل پرزے آگاہ ہیں لیکن افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ اس آگہی اور شعور کے باوجود ملک میں جنگلات مسلسل کم ہو رہے ہیں اور اب بہت ہی کم رقبے پر جنگلات بچے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ ملک کے بڑے شہروں میں سڑکوں کے ساتھ ساتھ اور فٹ پاتھوں پر موجود گھنے اور سایہ دار  درخت غائب ہو چکے ہیں‘ جو نئی سڑکیں تعمیر ہو رہی ہیں‘ ان کے کناروں پر ایسے درخت نہیں ہیں‘ ملک کے بڑے شہروں میں جو ہائوسنگ کالونیاں بن رہی ہیں‘ وہاں بھی گھنے اورسایہ دار درختوں کے لیے جگہ بہت کم ہے۔

پارکوں اور باغات میں برسوں پرانے برگد، پیپل، نیم اور ٹاہلی(شیشم) کے درخت کم ہوتے جا رہے ہیں‘ عجیب بات یہ ہے کہ اس المناک صورتحال کے باوجود پورے ملک میں ضلعی سطح پر بھرپور شجرکاری مہم کا بھی آغاز ہوتا ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ لاکھوں کروڑوں پودے لگائے گئے ہیں‘ سرکار کے کھاتے میں ان پودوں کی خریداری اور شجرکاری پر کروڑوں روپے کا خرچ درج ہوتا ہے اور اگر ملک بھرکا تخمینہ لگایا جائے تو یہ رقم اربوں روپے میں ہوجائے گی لیکن اس کا عملی نتیجہ یہ ہے کہ شہروں اور دیہات میں درخت مسلسل کم ہو رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ کراچی‘ لاہور‘ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بڑی شاہراہوں کے کنارے کھجور کے درخت لگائے جا رہے ہیں حالانکہ ماحولیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان علاقوں میں گھنے اور سایہ دار درختوں کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو گرمیوں کے شدید موسم میں زیادہ سے زیادہ سایہ فراہم ہوسکے۔

اس سے ہوا میں آکسیجن بھی بڑھتی ہے جس سے بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک میں تعلیم یافتہ طبقے میں بھی ذہانت کی کمی ہو گئی ہے‘ شجر لگانے والوں کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ کسی شہر یا علاقے میں درخت لگاتے وقت اس علاقے کے موسم اور ماحول کو دیکھا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شجرکاری علاقے کے ماحول اور ضرورت کے مطابق کی جائے اوراگر پودے لگائے جائیں تو ان کی حفاظت بھی کی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔