قومی جسم کو لاحق بیماری

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 15 جون 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

قومی سطح پر کوئی کام کیا جاتا ہے تو اس کے اغراض و مقاصد دائرہ کار اور طریقہ کار پہلے طے کیا جاتا ہے۔ 70 سال گزرنے کے بعد ایک اہم بلکہ اہم ترین مسئلے پر کام شروع ہوا ہے اور اس کام کی ابتدا عدلیہ نے کی ہے، یہ کام ہے کرپشن کا خاتمہ۔ اس حوالے سے فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کرپشن کیا آج ہی کا مسئلہ ہے؟ کیا 70 سال سے ملک کرپشن سے پاک تھا؟

ایسا نہیں ہے، کرپشن پاکستان کی عمر کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے، یہ وبا پاکستان کی عمر اتنی طویل نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی عمر اتنی طویل ہے، چونکہ پاکستان کا وجود سرمایہ دارانہ نظام کے دوران ہی ہوا ہے لہٰذا کرپشن پاکستان کے وجود میں آنے کے  ساتھ ہی اس سے چمٹ گئی ہے۔

کرپشن ہے کیا؟ اس  سوال کا جواب ہے ناجائز ذرایع سے حاصل کی جانے والی دولت، چونکہ یہ بیماری ڈھائی سو سال پرانی ہے اس لیے اس دوران وجود میں آنے والے ملکوں سے اس کا لپٹ جانا فطری ہے۔ اب اس حوالے سے دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 70 سال کے دوران اس زندگی لیوا بیماری کا علاج کیوں نہیں کیا گیا؟ اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ اس دوران کرپٹ عناصر اس قدر طاقتور تھے کہ کرپشن کے خلاف حقیقی معنوں میں اقدامات کرنا محال است و جنوں کا سا تھا۔ ملک کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جو کرپشن کے خلاف عملی اقدامات کی جرأت کرسکتا، ملک کے سارے ادارے یا تو کرپشن میں مبتلا تھے یا پھر کرپشن کے خلاف قدم اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے تھے، وقت کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے دو چیزوں میں اضافہ ہوتا گیا۔

کرپشن لاکھوں کروڑوں کی سرحد عبور کرکے اربوں کھربوں کی حدود میں داخل ہوگئی اور سرمایہ دارانہ نظام کے متولیوں نے کرپشن کے تحفظ کے لیے ایسے ایسے حیرت انگیز طریقے ایجاد کیے کہ کرپشن کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھانا مشکل ہوگیا۔ کرپشن کے تحفظ کے لیے ایسے ایسے حربے ایجاد کیے کہ کرپشن ثابت کرنا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن بنادیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اربوں کی کرپشن کے ملزمان سینہ ٹھونک کر کہہ رہے ہیں کہ ذرا ہمارے خلاف ایک پائی کی کرپشن تو ثابت کرکے دکھائو۔ اس دیدہ دلیری کے پیچھے جہاں بعض پر اسرار طاقتیں ہیں، وہیں سرمایہ دارانہ نظام کا وہ حیرت انگیز میکنزم ہے جو اشرافیہ کو کرپشن کے طریقے بھی سکھاتا ہے اور اس کے تحفظ کے ایسے دائو پیچ بھی بتاتا ہے کہ قانون اور قانون دان سر پکڑ رہ جاتے ہیں۔

پاکستان میں بڑے پیمانے پر کرپشن اقتدار سے جڑی ہوئی ہے، برسر اقتدار طبقوں کی ملک کے ہر شعبے پر گرفت اس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ کوئی اس کرپشن کے خلاف منہ کھولنے کی ہمت نہیں کرسکتا، ویسے زبانی کلامی لاکھ چیختے رہیں کوئی نوٹس نہیں لیتا، البتہ اگر کوئی بندہ بشر اس حوالے سے کسی قسم کے عملی قدم اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا اﷲ ہی حافظ ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ یہ شیطانی کام اس قدر منظم اور مربوط طریقے سے کیا جاتا ہے اور اس کی چیف اتنی دراز ہوتی ہے کہ کہیں سے اس چین میں گیپ نہیں آسکتا۔

اس کا سب سے قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ کرپشن کا براہ راست اور بالواسطہ شکار غریب طبقات ہی ہوتے ہیں۔ہر ملک میں ترقیاتی کاموں کا ثمر عموماً غریب طبقات کو ہی جاتا ہے، لیکن جب اربوں کھربوں روپے کے ترقیاتی کاموں میں کرپشن گھس جاتی ہے تو اس کا ثمر اوپر ہی اوپر تقسیم ہوجاتا ہے اور جن غریب طبقات کے لیے یہ بڑے بڑے اربوں کھربوں کے منصوبے بنتے ہیں، ان کا فائدہ غریب طبقات تک پہنچتا ہی نہیں، یہ کام اس قدر منظم انداز میں اس قدر محفوظ طریقوں سے انجام دیے جاتے ہیں کہ ان کی گرفت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

پاناما لیکس نے دنیا کے کرپٹ افراد کی جو فہرست شایع کی ہے اس سے کچھ کرپٹ عناصر قوم کی نظروں میں تو آگئے اور یہ بھی پتا چلا کہ کرپشن کے اس دھندے کے پھیلائو میں آف شور کمپنیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن رول تو سرمایہ دارانہ نظام کے قانون اور انصاف میں اتنی لچک ہوتی ہے کہ بڑے بڑے کرپٹ عناصر مختلف قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے بچ نکلتے ہیں جن کا مشاہدہ ہم خود اپنے ملک میں کرسکتے ہیں۔ یہ پورا کرپٹ نظام بڑے ماہرانہ انداز میں اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ بڑے بڑے گھاگ کرپٹ عناصر کرپشن کے الزامات سے مکھن سے بال کی طرح نکل آتے ہیں، عام آدمی کی نظر ان پراسرار عوامل پر نہیں جاتی جو اس شیطانی کھیل کی اہم بنیادیں ہیں اس لیے وہ کنفیوژ کا شکار رہتا ہے۔

پاکستان میں پہلی بار مستقل مزاجی سے کرپشن کے خلاف اقدامات کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔ اشرافیہ کی دیدہ دلیری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ اپنے جرائم سے شرمندہ ہونے یا دفاعی طریقہ استعمال کرنے کے بجائے جارحانہ اور جابرانہ طریقوں پر عمل پیرا ہے، اب تک یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا کہ یہ مہم امتیازی ہے جس کا مقصد شرفا کو تنگ کرتا ہے، اس حوالے سے بھاری سرمائے کی مدد سے ایک ایسی جوابی مہم چلائی گئی اور اس تکنیک سے چلائی گئی کہ عام آدمی سخت کنفوژڈ ہوکر اس مخمصے میں گرفتار ہورہا ہے کہ کوئی صحیح ہے کوئی غلط۔

کرپشن کو ہجام یا نائی کا بال دان کہا جاتا ہے کہ جتنا کھنگالیں اندر سے بالوں کے اتنے ہی زیادہ گچھے برآمد ہوتے ہیں، امتیازی آپریشن کا الزام اب دم توڑ رہا ہے کیونکہ ہر روز کسی نہ کسی نئے کرپشن اسکینڈل پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے، اس حوالے سے ایک اعتراض یہ تھا کہ پاناما کے 435 ملزموں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جارہا ہے، یہ اعتراض بجا تھا لیکن اب 435 پر بھی ہاتھ ڈالا جارہا ہے، دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بینکوں سے اربوں کا قرض لے کر معاف کرانے والوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا ہے، اب ان شرفا پر بھی ہاتھ ڈالا جارہا ہے، اس حوالے سے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ چند افراد یا چند خاندانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی بیماری ہے جس کا علاج قومی سطح پر ہی کیا جانا چاہیے، چند افراد یا چند خاندانوں کے خلاف کارروائی سے یہ جسم کو کھانے والی خطرناک بیماری پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔