پی ٹی آئی کی صفوں میں پورس کے ہاتھی؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 15 جون 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

کپتان خان کی سابق دوسری اہلیہ محترمہ کا اُٹھایا گیا طوفان ابھی تک ماند نہیں پڑ رہا۔ مبینہ کتاب کے مندرجات کی طرف شائد کوئی اتنی توجہ ہی نہ دیتا اگر کپتان خان کے اپنے چند دوست خیر خواہی کی شکل میں دشمنی کا ثبوت فراہم نہ کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ کپتان خان کے یہ دوست اُن کا گہرا قرب اور اعتماد رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیڈر کی محبت میں اخلاص کے ساتھ یہی سوچا ہوگا کہ اگر ہمPre epmt  کرتے ہُوئے مبینہ کتاب کے مبینہ اقتباسات الم نشرح کردیں گے تو ہوا کا رُخ موڑ ڈالیں گے۔

ایسا مگر ہو نہیں سکا ہے۔ اُلٹا کپتان خان کو نقصان ہی ہُوا ہے اور ابھی مزید نقصانات پہنچنے کے اندیشے موجود ہیں۔ کپتان کی یہ سابقہ اہلیہ صاحبہ بھارتی نجی ٹی وی چینلوںپر بھی کپتان کے خلاف قیامتیں ڈھا رہی ہیں۔ پہلے انھوں نے نسبتاً ایک کم معروف بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دے کر اپنے سابق سرتاج کے خلاف دل کے پھپھولے بھی پھوڑے اور اپنے تئیں بھَد بھی اُڑائی۔ کپتان اور اُن کے دوستوں کی یہ غلط فہمی ہے کہ مبینہ کتاب پی ٹی آئی کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکے گی۔

ابھی اِس خاتون کے پہلے انٹرویو کی گرد بیٹھی بھی نہیں تھی کہ وہ دوسرے زیادہ مشہور انڈین ٹی وی( این ڈی ٹی وی) پر جا بیٹھیں اور بعض ایسی باتیں کہہ ڈالیں جو ہم پاکستانیوں اور کپتان خان کے چاہنے والوںکو نامناسب لگی ہیں۔ یہ انٹرویو بدقسمتی سے اُس وقت نشر ہُوا جب کپتان خان اپنی تیسری اہلیہ محترمہ کے ساتھ عمرہ ادا کررہے تھے۔ اگر تو کپتان خان سے سنگین غلطیوں کا ارتکاب ہُوا ہے(جن کی یہ خاتون گواہی کا دعویٰ رکھتی ہیں) تو یقینی طور پر اِن غلطیوں کی سزا کپتان کو ملنی چاہیے۔

ہم کسی ایسے شخص کو اپنا حکمران کیسے بنا لیں جو دانستہ خطا در خطا کا مرتکب ہوتا رہا ہے؟ پاکستان اور پاکستان کے موجودہ انتخابات کے بارے میں موصوفہ نے این ڈی ٹی وی سے تازہ مکالمے میں جو کچھ کہا ہے، سُن کر ہمارے بھی جذبات مجروح ہُوئے ہیں۔ سوال ہمارے ہاں مگر یہ اُٹھایا گیا ہے کہ اِس خاتون کو انڈین ٹی وی کو انٹرویو نہیں دینے چاہئیں تھے۔ کیوں؟ کیا انڈین ٹی وی سے گفتگو کرنا گناہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو جنرل پرویز مشرف اب تک کئی انڈین میڈیا آؤٹ لیٹس کو کیوں متعدد بار انٹرویو دے چکے ہیں۔ خود کپتان خان بھارت جا کر انڈین نجی ٹی ویز سے مکالمہ کر چکے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سربراہ کی حیثیت میں۔ اُن کے انٹرویوز کے کئی مندرجات سے پاکستان میں اختلاف کیا گیا۔ ہمارے نامور عالمِ دین ڈاکٹر طاہر القادری بھی بھارتی الیکٹرانک میڈیا کے رُوبرو بیٹھ چکے ہیں۔ پھر کپتان خان کی دوسری سابق اہلیہ محترمہ نے بھارتیوں سے بات چیت کر لی ہے تو کونسا آسمان ٹوٹ پڑا ہے؟کیا کسی سابق یا حاضر سروس بھارتی آرمی چیف یا صدر نے آج تک پاکستان کے کسی ٹی وی کو انٹرویو دیا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ اِس کے برعکس ہماری طرف سے تو ایسا ہو چکا ہے۔

پی ٹی آئی کی صفوں میں تو، کپتان کی خاص اجازت سے، ایک ایسا شخص بھی آ چکا ہے جس نے کبھی یہ دعویٰ اور اعلان کیا تھا کہ ’’مَیں بھارتی ٹینکوں پر سوار ہو کر پاکستان آؤں گا۔‘‘ اُن کا یہ دعویٰ کئی برس قبل، جب کہ موصوف برطانیہ میں خود ساختہ جلاوطنی کے دن گزاررہے تھے، ایک مشہور برطانوی ہفت روزہ جریدے میں شایع ہُوا تھا(’’مائی فیوڈل لارڈ‘‘ کتاب میں بھی اِس کا ذکر موجود ہے) راقم نے وطنِ عزیز کے ایک معروف جریدے میں اس آرٹیکل کا اُردو ترجمہ یوں شایع کیا تھا کہ اصل آرٹیکل کا عکس بھی ساتھ ہی شامل تھا۔ یہ باتیں ہم کیسے فراموش کر دیں؟ یہ شخص پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر بھی رہا ہے اور وفاقی وزیر بھی ۔ اور اب اِسے پی ٹی آئی کی طرف سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ بھی دیا جا چکا ہے۔ الیکٹ ایبلز کے لالچ میں کپتان خان اپنے بنیادی آدرشوں اور اصولوں کو شائد کہیں طاقِ نسیاں میں رکھ بیٹھے ہیں۔

جو شخص یہ نازک فیصلے کررہا ہے، کہیں وہ انجانے اور نادانستگی میں اپنی پارٹی کے لیے پورس کا ہاتھی تو ثابت نہیں ہورہا؟ ہم سب کو اِس امر کا احساس اور ادراک ہے کہ کپتان خان نے بڑی محنت سے ، اینٹ اینٹ کرکے ، پی ٹی آئی کی یہ عمارت کھڑی کی ہے۔ کپتان کا اخلاص اور کمٹمنٹ سب پر واضح اور منکشف ہے لیکن اُن کے کئی حالیہ فیصلے اور اقدامات پہاڑ ایسی غلطیاں ثابت ہو سکتے ہیں۔ درست ہے کہ لوگ انھیں آئیڈیالائز کرتے ہیں لیکن اُس کی شخصیت اب بُری طرح شکست وریخت کی زَد میں ہے۔

پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم اور اُن کی آل اولاد کی لندنی جائیدادوں کے بارے میں طوفان اُٹھا کر اُس نے خوب سیاسی فائدے اُٹھائے ہیں، عوام الناس کو اپنے حق میں موبلائز بھی کیا ہے لیکن شومئی قسمت سے وہ اپنے دائیں بائیں کھڑے دو مشہور اشخاص کے بارے میں جواب دینے سے قاصر ہیں کہ انھوں نے لندن میں مہنگی جائیدادیں کیسے اور کیونکر بنا لیں؟ یہ دونوں افراد اپنی اپنی منی ٹریل سامنے لانے میں کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟ مبینہ طور پراِن میں سے ایک صاحب کے جیٹ میں سوار ہو کر کپتان خان نے حال ہی میں عمرہ بھی ادا کیا ہے۔

کپتان خان نے اپنے نعروں اور جدوجہد سے پورے پاکستان میں جو ماحول بنایا ہے، اُسی کی بنیاد پر اُس کے چاہنے والے یہ استفسار کررہے ہیں، لیکن کپتان خان کوئی جواب دینے پر تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ جو پیمانہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کے لیے بروئے کار لاتے ہیں، وہی ترازو اپنے دولتمند اور محسن دوستوں کو تولنے اور جانچنے کے لیے استعمال کرنے پر تیار نہیں ہیں۔یوں قول وفعل میں تضاد کی بنیاد پر اُن کے بارے میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔اُن کے لاکھوں چاہنے والے پژمردگی اور مُردنی کا شکار ہو رہے ہیں۔ الیکشنوں سے پہلے یہ فضا کپتان کے لیے سُمِ قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔

زُلفی بخاری کے نئے اسکینڈل نے تو کپتان بارے نئی قیامت ڈھا دی ہے۔ اِس کی زَد میں نگران حکومت کے کئی سینئر حکام بھی آئے ہیں۔ کپتان خان کی شخصیت کو یقینا نیا دھچکا لگا ہے۔ اُس کے دوست میڈیا میں اُس کا موثر دفاع نہیں کر سکے ہیں۔ اس لیے کہ بنیادی قصور پی ٹی آئی کے سربراہ ہی کا ہے۔ خواہ یہ غلطی کتنی ہی چھوٹی اور معمولی ہی کیوں نہیں ہے لیکن قیامت کی نگاہ رکھنے والوں نے بروقت گرفت کی اور کپتان کے لیے پریشانیاں بن گئیں۔ نہیں کہا جا سکتا کہ زُلفی بخاری کے بارے اُڑائی گئی دھول جلد بیٹھ جائے گی۔ کپتان کو اِس کا حساب دینا پڑے گا۔ کپتان کا یہ فیصلہ اور اقدام ایک بار پھر ثابت کر گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی صفوں کو روندنے کے لیے کہیں باہر سے ہاتھی نہیں لانا پڑیں گے۔ پی ٹی آئی کے لشکریوں کو پامال کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے مرکز میں ہاتھی موجود ہیں۔

ممکن ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کے خلاف پروپیگنڈہ کی آگ کچھ زیادہ ہی تیزی سے بھڑک اُٹھی ہے لیکن اِس الاؤ کو ہوا کس نے دی ہے؟ ٹکٹوں کی تقسیم میں پی ٹی آئی کو خونِ جگر دینے والوں کو جس بُری طرح پیچھے دھکیلا گیا ہے، اِس اقدام نے کپتان خان کے دو اساسی نعروں کی عمارت ہی مسمار کر ڈالی ہے۔ 25جولائی کے انتخابات سے پہلے، پی ٹی آئی اپنے اکثریتی ٹکٹ ہولڈروں کی صورت میں،دوسری سیاسی جماعتوں سے قطعی مختلف نظر نہیں آرہی۔

نیا پاکستان بنانے کے نعرے اور تبدیلی سامنے لانے کی دہائیاں کہیں دُور، بہت دُور پھینک دی گئی  ہیں ۔  الیکٹ ایبلز کے لوبھ میں پی ٹی آئی کے سربراہ نے اپنے بنیادی وجود کو بکھیر ڈالا ہے۔ اب فضاؤں میں نیا پاکستان بنانے کی محض بازگشت باقی رہ گئی ہے۔ الیکشنوں سے پہلے کپتان خان نے اپنے چاہنے والوں کے خواب توڑ ڈالے ہیں۔ اب وہ کامیابی کی دیوی سے ہمکنار بھی ہوجاتے ہیں تو بھی شکستہ خوابوں اور ٹوٹے آدرشوں کو پھر سے نہیں جوڑ سکیں گے۔ خواب کوئی جامِ سفال نہیں ہے کہ ایک ٹوٹ جائے تو دوسرا بازار سے نیا خرید لایا جائے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔