سوشل میڈیا ... آسائش سے آزمائش تک

مبین مرزا  ہفتہ 16 جون 2018
سائنسی ایجادات اور آلات کی ہوش رُبا اوربرق رفتارترقی نے اس عہد کے انسان کی سائیکی اور زندگی پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟۔ فوٹو: فائل

سائنسی ایجادات اور آلات کی ہوش رُبا اوربرق رفتارترقی نے اس عہد کے انسان کی سائیکی اور زندگی پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟۔ فوٹو: فائل

سوشل میڈیا نے اکیس ویں صدی کے انسان کی زندگی، روزمرہ معمولات، سوچنے کے انداز، ردِعمل کے طریقے، قربت اور دوری کے احساس اور اظہار کے رویوں کو جس طرح بدل کر رکھ دیا ہے، اس کی کوئی مثال اس سے پہلے کے زمانے میں نہیں ملتی۔

ظاہر ہے، مل ہی نہیں سکتی۔ اس لیے کہ ان رویوں، طریقوں اور معمولات کی تبدیلی کے پس منظر میں کئی ایک چیزیں کام کررہی ہیں۔ مثال کے طور پر سوشل نیٹ ورکس، یعنی فیس بک، واٹس ایپ، ٹیوٹر، لنکڈ اِن اور انسٹاگرام اس دور کی چیزیں ہیں۔ یہ سب پہلے زمانے میں نہیں تھے، اور وہ آلات بھی نہیں تھے جن کے ذریعے ان ذرائع کو استعمال کیا جاتا ہے۔ چناںچہ انسانی تعلقات اور رویوں کی جو صورتِ حال ہے، کیسے ممکن تھا کہ وہ اس سے پہلے کے کسی دور میں ہوتی۔

سائنسی ایجادات اور آلات کی ہوش رُبا اور برق رفتار ترقی نے اس عہد کے انسان کی سائیکی اور زندگی پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ یہ سوال بڑی بنیادی نوعیت کا ہے اور صرف اہلِ علم و ادب یا نفسیات کے شعبے سے وابستہ افراد ہی نہیں، سماجیات، اخلاقیات، جمالیات، مدنیت اور مذہبیات تک وہ سب علوم جو انسانی فکر و احساس سے تعلق رکھتے ہیں ان پر اثر انداز ہوتے ہیں یا اُن کا مطالعہ و تجزیہ کرتے ہیں، آج وہ سب اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس غور و فکر کی ضرورت اس لیے بھی محسوس کی جارہی ہے کہ نئے دور کے انسان کے ذہنی رویوں میں پیدا ہونے والی تبدیلی کے عمل کو سمجھا جائے۔ اصل میں انسانی تعلقات اور سماجی رشتوں کی جو شکلیں اس دور میں سامنے آرہی ہیں، سماجی سائنس دانوں کے لیے وہ بہت سے سوالات پیدا کررہی ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ زندگی کے بارے میں اور خود اپنی ذات کے بارے میں انسان کا رویہ بنا ہے یا بن رہا ہے، وہ پہلے ادوار کی زندگی اور اس کے رویے سے اس قدر مختلف ہے کہ آج سماجی سائنس دانوں کے لیے سخت الجھن کا باعث ہے۔

ابتدا میں جب یہ چیزیں انسانی معاشرے میں متعارف ہورہی تھیں، اس وقت کسی کو یہ گمان بھی نہیں گزرا تھا کہ سہولت اور ضرورت بن کر زندگی میں داخل ہونے والی یہ چیزیں انسان کے شعور کو اس طرح بدل کر رکھ دیں گی، اس کے حواس اور اعصاب پر ایسے اثر انداز ہوں گی کہ حیاتِ انسانی کا معنی و مفہوم بدل کر رہ جائے گا۔ ان چیزوں نے انسان کے افکار ہی کا نہیں اعمال کا نقشہ بھی کچھ سے کچھ کردیا ہے۔ ان سب تبدیلیوں کے اثرات انسان کی زندگی کے داخلی اور خارجی دونوں پہلوؤں پر دیکھے جاسکتے ہیں، اور اِن کی چھوٹ آج انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی دائرے تک صاف پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان اثرات کی زد میں اب کوئی خاص معاشرے یا مخصوص تہذیبیں ہیں اور نہ ہی کسی سماج کے خاص رجحانات رکھنے والے افراد۔ اس کے برعکس امیر غریب، عالم جاہل، مذہبی غیر مذہبی، نیک بد، جوان بوڑھے اور مرد عورت کی ہر تقسیم سے بالاتر پورا کا پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں ہے۔

تبدیلی انسانی زندگی کا لازمہ ہے۔ اسی لیے زندگی کو بہتا ہوا دریا کہا جاتا ہے، جس میں کوئی شخص دو بار نہیں اتر سکتا، خواہ وہ ایک لمحے بعد اور بالکل اسی جگہ کیوں نہ اتر رہا ہو۔ اس لیے کہ جس پانی میں اُس نے پہلی بار پاؤں ڈالا تھا، وہ آگے جاچکا اور ایک لمحے بعد وہ جہاں پاؤں ڈال رہا ہے، وہاں اب نیا پانی ہے۔ زندگی میں بھی ہم ایک ساعت دو بار بسر نہیں کرتے۔ ایک لمحہ جو ایک بار ہم پر گزر گیا، وہ دوبارہ لوٹ کر نہیں آتا۔ ہم اُس میں بارِدگر سانس نہیں لے سکتے۔ وقت، حالات اور زندگی میں آنے والی تبدیلی خواہ ہماری خود اختیار کردہ ہو یا ہماری پسند، خواہش اور منشا کے یکسر خلاف، وہ ہم پر مثبت و منفی اثر ڈالے بغیر نہیں رہتی۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ ہمیں تبدیلی کے اثرات کا علم ہی نہیں ہوتا، یا اگر ہوتا ہے تو ہم ان پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم غور تو کرتے ہیں، لیکن اُن کے بارے میں کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچتے اور اگر پہنچ بھی جائیں تو ان نتائج کو عملاً اختیار نہیں کرتے۔ اصل میں ان معاملات اور مسائل کا تعلق ایک حد تک ہمارے اجتماعی مزاج سے ہے۔

دیکھا جائے تو ہم اجتماعی سطح پر ’’توکل‘‘ اور ’’قناعت‘‘ کا مزاج رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے لاشعوری طور پر یہ بات اپنے اندر واضح کرلی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ مشیتِ الٰہی کے تحت ہورہا ہے۔ اصول کے طور پر یا ایمان کے نکتۂ نظر سے تو یہ بالکل درست ہے، لیکن اس یقین یا توکل کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنا اچھا برا دیکھنا بالکل چھوڑ کر بیٹھ جائیں یا خود کو حالات اور وقت کے دھارے پر اس طرح چھوڑ دیں کہ یہ جاننے کی بھی زحمت نہ کریں کہ وہ ہمیں ساحل پر اتارے گا یا لے جاکر ڈبو دے گا۔ مذہب کے معاملات تو علما یا اہلِ شریعت ہی بتا سمجھا سکتے ہیں، لیکن اتنی شدبد تو آپ اور ہم جیسے عام آدمی کو بھی ہوتی ہے کہ مذہب ہمیں نہ تو زندگی کے حقائق کی طرف سے آنکھیں پھیر لینے کو کہتا ہے اور نہ ہی بے دست و پا اور بے عمل ہوکر بیٹھ رہنے کو۔ اس کے برعکس قرآن تو ہمیں سوچنے، غور کرنے اور اللہ کا فضل تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اب دیکھیے، کیا یہ ہوش مندی اور عمل کی تعلیم نہیں ہے؟

خیر، ہم بات کررہے تھے سوشل میڈیا کی۔ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے ہمارے یہاں بھی اُسی طرح ترقی کی اور فروغ پایا جس طرح اس نے باقی دنیا میں۔ اگر ہم اس کے اپنے یہاں رائج ہونے کی رفتار اور طریقوں کا جائزہ لیں اور سارے معاملے کی چھان پھٹک کریں تو دنیا اور ہمارا فرق انیس بیس ہی کا ہوگا، یعنی برائے نام۔ ماننا چاہیے کہ اکیس ویں صدی کی دنیا واقعی ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے۔

اس میں اچھے برے واقعات، نئی چیزیں، خیالات اور رویے وغیرہ بڑی برق رفتاری سے ایک خطے سے دوسرے میں پہنچتے ہیں اور اسی طرح ان کے اثرات بھی۔ سائنسی ترقی کے یہ سارے پھل اور جدید عہد کی یہ سب آسائشیں ہمارے یہاں بھی اسی وقت اُسی رفتار سے آئی ہیں جس طرح ترقی یافتہ اقوام میں۔ سچ پوچھیے تو بعض چیزوں نے ہمارے یہاں پہلے رواج پایا اور یورپ وغیرہ میں بعد میں عام ہوئیں۔ ممکن ہے، آپ کو یہ بات سن کر تعجب ہوا ہو یا آپ اسے مبالغہ خیال کریں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ ایک نہیں، کئی ایک چیزیں پہلے ہمارے یہاں آئی ہیں۔ اس بات کی گواہی آپ کو وہ لوگ دے سکتے ہیں جو یورپ یا امریکا میں رہتے ہیں اور وقتاً فوقتاً یہاں آتے جاتے ہیں۔

تاہم یہ بات ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا کرنے والی ہرگز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا سبب اور کچھ نہیں، صرف اور صرف مارکیٹنگ ہے۔ دنیا کے کاروبار کرنے والے افراد اور ادارے ہم سے زیادہ ہمارے بارے میں باخبر ہیں۔ وہ ہمیں بڑی صارف منڈی یا کنزیومر مارکیٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایک ایسی صارف منڈی جہاں کسی بھی شے کو دنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ آسانی سے بیچا اور پھیلایا جاسکتا ہے۔ یہ تأثر کچھ غلط بھی نہیں ہے۔

اس لیے کہ ہمارے یہاں اشیا ہوں یا افکار سب کے سب برے بھلے کی چھان بین کے بغیر لوگوں میں اور کوچہ و بازار میں پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ لوگ ذاتی حیثیت میں ان کے بارے میں سوچنے دیکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی اداروں یا حکومتی سطح پر ایسے کسی انتظام و اہتمام کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ جو کچھ آرہا ہے اور جو بھی ہورہا ہے، اسے صرف ظاہری سطح یا فیس ویلیو پر قبول کرلیا جاتا ہے۔ نقصان یا مسائل کے اِکا دُکا واقعات سامنے بھی آجائیں تو انھیں اہم نہیں سمجھا جاتا، ان پر توجہ نہیں دی جاتی، تاوقتے کہ ان کی ضرر رسانی کے پے در پے واقعات کی رپورٹ نہ ملنے لگے یا ان کی وجہ سے اوپر تلے بڑے مسائل نہ پیدا ہونے لگیں۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے یہاں اتائی معالجین اور ناقص دواؤں سے لے کر کھانے پینے کی اشیا اور عام استعمال کی چیزوں سے لے کر فلسفے، نظریے، تخریبی اشیا، حتیٰ کہ ہتھیاروں تک کے پھیلاؤ میں رکاوٹ کا کوئی مرحلہ ہی نہیں آتا۔

یہی صورتِ حال سوشل میڈیا کے سلسلے میں بھی رہی ہے۔ اس کے عام پھیلاؤ میں ہمارا یہی اجتماعی مزاج بنیادی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ہم نے ذاتی سطح پر یا اجتماعی حیثیت میں اوّل تو اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ ہم دیکھیں، یہ ہماری زندگی میں کیا کام کر رہا ہے اور ہمیں کس طرف لے جارہا ہے۔ اگر کہیں انفرادی دائرے میں ایسا کوئی احساس پیدا بھی ہوتا ہے تو اجتماعی ماحول اور سماج اس کی راہ میں مزاحم ہوجاتے ہیں۔ اسے خاطرخواہ حد تک قابلِ توجہ مسئلہ بننے نہیں دیتے۔ اس کے برعکس پڑھی لکھی اقوام، ترقی یافتہ ممالک اور باشعور لوگوں کے حلقے میں اب سوشل میڈیا مسلسل سوالات کی زد میں نظر آتا ہے۔

اس پر مسلسل اعتراضات کی بوچھاڑ ہورہی ہے۔ اس کے اقدامات تنقید و اعتراض کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ سب کچھ بے وجہ یا کسی مخاصمت و عناد کے سبب سے نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پس منظر میں کوئی کاروباری مسابقت ہی موجود ہے۔ اس کے برعکس یہ سارے سوالات اور اقدامات صرف اور صرف انسانی بھلائی اور تحفظ کے سلسلے میں کیے جارہے ہیں۔

خبر رساں اداروں کی ویب سائٹس، الیکٹرونک میڈیا اور خود سوشل میڈیا کے ذریعے اب وہ سب سوالات اور اعتراضات دنیا کے سامنے آرہے ہیں جو اس وقت امریکا اور یورپ میں بالخصوص اداروں اور ایک حد تک حکومتی سطح پر بھی اٹھائے گئے ہیں۔ ویسے تو پورے سوشل میڈیا پر، لیکن بالخصوص فیس بک پر ان دنوں زیادہ اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ دیکھا جائے تو جو سوالات فیس بک کے بارے میں کیے گئے ہیں، اُن کا اطلاق بڑی حد تک سوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع پر بھی ہوتا ہے، مثلاً امریکا میں یہ مسئلہ تشویش کی حد میں داخل ہوگیا ہے کہ فیس بک کے ذریعے اُن دواؤں کی غیرقانونی فروخت میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔

جنھیں نشہ آور ادویات میں شمار کیا جاتا ہے۔ تحقیقات کے مطابق فیس بک کے ذریعے افراد (خصوصاً نوجوانوں) کے کوائف، مزاج اور ذہنی رویوں کا ڈیٹا اُن فارما سیوٹیکل کمپنیز کو فراہم ہوگیا جو باقاعدہ لائسنس کے تحت مخصوص مریضوں کے لیے نشہ آور ادویات تیار اور فروخت کرتی ہیں۔ ان کمپنیز کے اشتہاروں اور ان دواؤں کے تعارفی لٹریچر کی فیس بک پروموشن نے نوجوانوں کو ان نشہ آور ادویات کی طرف مائل کیا۔ دواؤں کی فروخت چوںکہ ڈاکٹر کے نسخے پر ہی ممکن ہے، اس لیے یہ حل بھی فیس بک پر موجود نام نہاد ڈاکٹرز کے ذریعے حاصل ہوگیا۔ اس طرح یہ دوا نوجوانوں کی پہنچ میں آگئی اور نشے کے عادی یا اُس کی خواہش رکھنے والے سب لوگ ایسی ادویات کو آسانی سے حاصل اور بے دریغ استعمال کرنے لگے۔

اس کے علاوہ ایک اور مسئلے کی نشان دہی بھی کی گئی۔ اس کے لیے بھی فیس بک کو بنیاد بنا کر تحقیقات کے بعد جائزہ مرتب کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سماجی مسائل جیسے رنگ و نسل کی تفریق، عقیدے کی بنیاد پر منافرت اور براہِ راست حکومت و ریاست کے خلاف یا بالواسطہ اُس کے بعض اداروں کو ہدفِ ملامت بناکر بغاوت کے جذبات کو ابھارنے اور پھیلانے میں فیس بک کو ایک متحرک، مؤثر اور آسان ذریعے کے طور پر بہت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ کام دراصل ادارے اور گروہ کررہے ہیں، لیکن فیس بک پر یہ ساری سرگرمیاں انفرادی نکتۂ نظر کے طور پر اور انفرادی شناخت کے ساتھ کی جارہی ہیں، جب کہ تحقیق پر معلوم ہوا، یہ شناخت بھی اصل نہیں، بلکہ نقلی ہے، اور ضرورت کے وقت چھان بین کے بعد کسی مسئلے کے بنیادی محرک یا ملزم تک پہنچنے میں کوئی مدد نہیں دیتی۔

تیسرا مسئلہ پورنو گرافی یا عریاں فلموں کو بتایا گیا ہے۔ اس مسئلے کی تحقیقات اور جائزے کے بعد نتائج بھی فیس بک کو بنیاد بنا کر پیش کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے معلوم ہوا کہ فیس بک کے ذریعے ایڈونچر پسند لوگوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے عمر، رنگ، نسل اور جنس کی کوئی قید نہیں ہے۔ کسی بھی عمر کے افراد کو قبول کرلیا جاتا ہے۔ انھیں برہنہ فلموں کی طرف ترغیب دے کر مائل کیا جاتا ہے، جسم فروشی کا راستہ دکھایا جاتا ہے، مصنوعی جنسی اعضا کے استعمال کے لیے اُن میں شوق ابھارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جنسی ادویات کے استعمال کی ترغیب دی جاتی ہے، جنھیں عام طور سے طاقت بخش غذا اور صحت افزا ٹانک بتا کر پیش کیا جاتا ہے۔

اس مسئلے کے بارے میں تشویش کے دو پہلو بتائے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی طرف مائل ہونے والے مرد و خواتین کا تناسب نہ صرف خاصا زیادہ ہے، بلکہ ان میں پختہ عمر کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں، اور دوسرا پہلو ہے جنسی بیماریوں کا پھیلاؤ۔ روک تھام کے ممکنہ ذرائع ان دونوں طرح کے مسائل کی روک تھام کے حوالے سے بڑی حد تک بے اثر بتائے جارہے ہیں۔

ہمارے یہاں سوشل میڈیا کیا، کسی بھی طرح کی اشیا اور رجحانات کے بارے میں حکومتی سطح پر اس طرح کی تحقیقات اور جائزے کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ ایسے کام کرنے والے غیرسرکاری ادارے بھی ہمارے یہاں نہیں پائے جاتے اور افراد کے بس کا یہ کام ہے ہی نہیں۔ امریکا اور یورپ میں اس طرح کی اسٹڈیز مرتب ہوئی ہیں تو اُن میں معاشرے کے جو مسائل سامنے آئے ہیں، وہ اگرچہ بعینہٖ ہمارے لیے بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، لیکن چشم کشا ضرور ہیں۔ اس لیے کہ سوشل میڈیا ہمارے یہاں بھی صرف سہولت یا آسائش کا دائرہ نہیں رکھتا، بلکہ اس کے ساتھ قومی و سماجی سطح پر ہمارے لیے اس میں آزمائش کا بھی ایک دائرہ ہے۔

ہمارے یہاں تعلیم کا تناسب، عوامی شعور کی سطح، سماجی رویے، بے روزگاری، اور بڑھتی ہوئی مادر پدر آزادی کی صورتِ حال کو سامنے رکھا جائے تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنی آسانی سے سوشل میڈیا کتنے اور کیسے مسائل کی فصل کاشت کرسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ ایسی فصل کے بیج بوئے بھی جاچکے ہوں اور ابھی ہمیں اُن کا اندازہ ہی نہ ہو۔ چناںچہ ان وحشت خیز حالات کے پیدا ہونے اور پھیلنے سے پہلے ہمیں سوچنا اور دیکھنا ہے کہ ہم ان وبائی جراثیم کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کرسکتے ہیں۔ خیال رہے، یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر کرنا ضروری ہے، ورنہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔