کیا آج واقعی عید ہے۔۔۔؟

رضوان طاہر مبین  ہفتہ 16 جون 2018
آج عید کا دن ہے مگر ہم یہ لطف ہی فراموش کر چکے ہیں کہ عید نامی تہوار کیا ہے۔ فوٹو: فائل

آج عید کا دن ہے مگر ہم یہ لطف ہی فراموش کر چکے ہیں کہ عید نامی تہوار کیا ہے۔ فوٹو: فائل

’’مصروفیت‘‘ کے نام پر عام ہونے والی ’وبا‘ ہماری سماجی زندگیوں کو نگل چکی ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ چند برسوں میں تیزی سے اپنی جگہ بنانے والے ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ نے ہی سب سے زیادہ ہماری سماجی زندگی کو تلپٹ کیا ہے۔ اس لیے جن لوگوں سے پہلے روبرو ملاقات ہوتی تھی، اب انہیں بھی ہم بس ’فیس بک‘ کے کسی ’پیغام‘ یا ’پوسٹ‘ سے زیادہ وقت دینے کو تیار نہیں ہوتے اور کوئی ’پوسٹ‘ زیادہ سے زیادہ چند منٹوں سے زیادہ وقت نہیں لیتی۔

جدید ذرایع اِبلاغ نے رابطے سمیٹے نہیں، بلکہ فاصلے بڑھا دیے ہیں، کیوں کہ ہماری ساری تعلق داری بس موبائل پیغامات اور انٹرنیٹ پر سماجی روابط کی ویب سائٹوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔۔۔ اس لیے یہ کسی کے ہاں آنا جانا ایک بے کار کی سی زحمت لگتی ہے۔۔۔

یہ زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے کہ جب ہم عید اور بقرعید پر اپنے رشتے داروں کے یہاں جاتے تھے اور ان تہواروں پر نہایت اہتمام کے ساتھ ہمارے گھروں میں رشتے داروں کی محفلیں سجا کرتی تھیں۔۔۔ آس پڑوس تک میں نہایت اہتمام سے شیرنیان تقسیم کی جاتی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں کوئی غرض‘ فائدہ یا مفاد نہ ہوتا تھا۔۔۔ مصلحت اور جھجک نام کی بھی کوئی بلا موجود نہ تھی۔۔۔ بناوٹ اور منافقت کا چلن تو شاید ہی کہیں رہا ہو۔۔۔ مگر رفتہ رفتہ ہمیں اپنے خونی اور سگے رشتے بوجھ لگنے لگے۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی میں مشینوں کے عمل دخل بڑھنے سے ہم خود بھی کوئی مشین ہی بن کر رہ گئے ہیں۔۔۔ دوسری طرف اب ہم اپنے رشتوں کی بھی تجارت کرنے لگے ہیں۔۔۔

ہم اپنوں کو پیار اور خلوص بھی تول تول کر دینا پسند کرتے ہیں۔۔۔ ہمیں کسی سے کتنا اور کس طرح ملنا ہے، اس کا تعین باقاعدہ اور سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے، اور ہمارے ذہن میں پہلے سے واضح ہوتا ہے کہ فلاں رشتے دار سے بس اس حد تک بات کرنا ہے اور صرف اتنا ہی بے تکلف ہونا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ ہم نے اپنوں سے میل جول کو بھی انہی ’مصلحتوں‘ کے تابع بنا لیا۔۔۔ اور جب ہمارے رشتوں کو باقاعدہ نفع ونقصان کے پیمانوں پر تولا گیا، تو ناراض ہوکر منائے جانے کا چلن بھی اٹھ گیا، بھلا ’تجارتی‘ نقصان کا ازالہ جذبات کے سہارے کیوں کر ہوتا۔۔۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے رشتے داروں سے خود غرضی اور مطلب پرستی کی شکایت ہے‘ منافقت اور جھوٹ کا الزام ہے مگر ہم خود بھی تو اس سے مختلف نہیں۔۔۔!

اب ہمارے اِن رشتوں کی اوقات صرف ’گلستان‘ اور قبرستان ہی رہ چکی ہے۔۔۔! اب ہم اپنے بیش تر سگے رشتے داروں کو صرف زندگی کے دو مواقع پر ہی دیکھ پاتے ہیں۔ ایک کسی شادی کی تقریب میں اور دوسری کسی کی فوتیدگی میں۔۔۔ وہ بھی اتنا کہ بس دور سے پہچان لیتے ہیں، یا اگر مصافحے کی بھی نوبت آجائے، تو روایتی انداز میں شکوہ کرتے ہیں ارے بھائی آپ تو پہچانے بھی نہیں جا رہے۔۔۔ بہت بدل گئے ہیں۔ تب کبھی کچھ ذکر نکلتا ہے۔

بیماری یا کسی پریشانی کا، جس نے ہمارے مخاطب کے چہرے مُہرے کو اتنا بدل ڈالا ہوتا ہے کہ جس سے ان کی شناخت ہمارے لیے مشکل ہو گئی۔۔۔ یوں زندگی کے ان دو موقعوں سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے یا اپنوں کے حالاتِ زندگی سے واقفیت ہوتی ہے۔۔۔ یہاں بھی ہم عملاً صرف ’حاضری‘ لگانے کے لیے شرکت کرتے ہیں! خوشی کی مبارک باد دینا اور کسی کا غم بانٹنا اب دیگر بات ہوئی۔ ان موقعوں میں شرکت کا دورانیہ بہ مشکل دو سے ڈھائی گھنٹے پر ہی محیط ہوتا ہے۔ ایسے میں ہم وہاں موجود ’’اپنوں‘‘ سے ملاقات کے حوالے سے کس قدر انصاف کر پاتے ہیں، اس کا اندازہ آپ بہ خوبی لگا سکتے ہیں۔۔۔

اگر یہ کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا کہ اب ہمارے خونی رشتے بھی بس خوشی و غمی کے مواقع پر ’’رش لگانے‘‘ کے ہی کام آتے ہیں ‘ بشرطے کہ میزبان ہمارے ہاں کی شادی و غمی میں آیا ہوا ہو، ورنہ ہم الحمد للہ پورا بدلہ لیتے ہیں کہ جیسے وہ آیا ویسے ہی ہم نے جانا ہے۔ یہاں تک کے تحائف کے تبادلے کے لیے بھی باقاعدہ گوشوارے بنائے جاتے ہیں کہ ’’بھئی فلاں نے بڑا بھاری تحفہ دیا ہے۔۔۔ اب اس کا ’اُتار‘ کرنا ہے۔۔۔!‘‘

یہ سب کیا ہے۔۔۔ پھر ہمارا شکوہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں سکون نہیں، چین نہیں‘ بڑی مشکلات ہیں وغیرہ وغیرہ۔ درجنوں قسم کی ذہنی وجسمانی بیماریاں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔۔۔ ہم اپنی چھٹیوں میں بھی سکون حاصل کرنے کے لیے منہگی اور خواب آور گولیاں پھانکتے ہیں، مگر کسی سگے رشتے دار کو معاف کرنے اور اس سے محبت اور خلوص سے ملنا گوارا نہیں کرتے۔۔۔ کیوں کہ ہم حرص و ہوس میں بھی تو مبتلا ہیں، دوسرے رشتے داروں سے زیادہ دولت اور تعیشات کا حصول ہمیں اپنوں سے بہت پرے کر دیتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم اپنے سے کم حیثیت کے رشتے داروں کو گھاس نہیں ڈالتے‘ نتیجتاً ہم سے اچھی معاشی حالت والے رشتے دار ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ رہے ہمارے سماجی اور معاشی رتبے کے برابر کے لوگ، تو ہمیں اُن سے آگے بڑھنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔

اس ہی دوڑ میں ہم اپنی کام یابیوں اور ترقیوں سے آگاہ نہیں کرتے اور یہ ’چھُپانے‘ کا بھیانک عذاب ہمارے یہاں ایسا غالب آیا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔۔۔ پہلے کہتے تھے کہ خوشیاں بانٹا کیجیے، اس سے خوشیاں بڑھتی ہیں، مگر اب معاملہ اس کے بالکل برعکس محسوس ہوتا ہے۔۔۔ ہم اپنے جذبات اور مصروفیات کا بالمشافہ اظہار ہی نہیں کرنا چاہتے‘ اس لیے کہ سامنے والے نے بھی فلاں فلاں وقت پر ہم سے کوئی بات پوشیدہ رکھی تھی۔۔۔ بس سمجھیے سارے ملنے ملانے کا قصہ ہی ختم۔۔۔ تم اپنے گھر خوش‘ ہم اپنے ہاں مگن۔۔۔! کیوں کہ اگر ساتھ بیٹھے تو منہ سے کچھ نہ کچھ ایسا نکل سکتا ہے، جس کا ہم اظہار نہیں کرنا چاہتے۔ پھر یہ ننھے بچے اپنی معصومیت میں کسی ’راز‘ کا بھانڈا نہ پھوڑ دیں، لہٰذا زندگی میں ہی اپنے گھر کی چار دیواری کو ہی زندہ قبر بنا کر رہو۔۔۔ اسی کا نام اب ’زندگی‘ ہے!

آج عید کا دن ہے۔۔۔ مگر ہم یہ لطف ہی فراموش کر چکے ہیں کہ عید نامی تہوار کیا ہے۔۔۔ ہمارے لیے اب یہ بس تین چار دن کی چھٹیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ عیدالفطر پر رمضان اور بقر عید پر قربانی کی تھکن کا جواز ہمیں اپنے اپنے گھر تک محدود رکھتا ہے۔۔۔ بس رسمی اور ہلکی پھلکی سی کچھ دیر کی ایک آدھ بیٹھک کسی رشتے دار کے یہاں ہو تو ہو جائے۔۔۔

اب بھلا احساس اور جذبات سے عاری مشینوں کی بھی کوئی عید ہوتی ہے! یہ موبائل پیغامات‘ ٹی وی اور انٹرنیٹ کی مصروفیات ان اپنوں کے وجود کا نعم البدل نہیں۔۔۔ ان چیزوں کو کچھ محدود کیجیے اور اپنوں کے ساتھ مل کر بیٹھیے اور محسوس کیجیے عید کیا ہوتی ہے۔۔۔ بناوٹ اور مصلحت کے لایعنی چوغے اتار پھینکیے اور لوگوں سے بے لوث تعلقات استوار تو کر کے دیکھیے‘ آپ کو اپنی زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی کا احساس ہوگا، یہ ان تہواروں کی اصل روح اور مقصد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔