8 کلب کے نئے مکین کے ساتھ!

اسد اللہ غالب  اتوار 28 اپريل 2013
ghalib1947@gmail.com

[email protected]

میں نے بہت زیادہ پھول اس وقت دیکھے جب میں پہلی بار انگلینڈ گیا، ہر گھر کی کھڑکی سے گلدان لٹکا ہوا، واش روم کے اندر بھی سوکھے پھولوں کی ٹرے اور اس پر قیمتی پرفیوم کا اسپرے۔ اس کے بعد سے مجھے پھولوں سے محبت ہو گئی۔مگر اب مجھے پھول زہر لگتے ہیں، لاہور اور شاید پاکستان کے ہر شہر میں پینزی اور پیٹونیا کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں، یہ پھول اربوں میں نہیں تو کروڑوں میں ضرور ہوں گے، یہ خودرو یا جنگلی پھول نہیں ، ان پربھاری رقم اور محنت صرف ہوئی ہے مگر جب میں جمعہ کو 8 کلب روڈ کی عالی شان بلڈنگ میں داخل ہوا تو میں پھولوں کے خلاف نفرت سے بھرا ہوا تھا۔

چیف منسٹر سے میں نے پوچھا کہ آج کے اخبارات کے مطابق چھ پھول سے بچے خسرے نے مسل دیے ہیں، آپ اس بارے کیا کر رہے ہیں۔ وہ شاید جواب دینے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔کہنے لگے ، میں نے معلوم کیا کہ یہ وبا کیوں مہلک شکل اختیار کر گئی ہے، پتہ چلا کہ اس کے لیے بر وقت حفاظتی اقدامات نہیں کیے جا سکے۔پچھلی حکومت نے پیسے ہی نہیں دیے، بچوں کے لیے ویکسین نہیں تھی، میرا ذہن کھول رہا تھا، لاکھوں کروڑوں گیندے، پینزی اور پٹونیا کے پھولوں کے لیے پیسے تھے، مگر نوخیز پھولوں کی قیمتی زندگی محفوظ بنانے کا دھیان کسی کو نہیں آیا، نگراں چیف منسٹر نے پیش کش کی کہ اگر پیسے اب فراہم کر دیے جائیں تو ۔جواب ملا، ویکسین منگوانے میں دو ماہ لگ جائیں گے، اس دوران میں ہزاروں اموات واقع ہو جائیں گی۔

میں نے جیب سے لیگزوٹنل کی گولی نکالی، پورا گلاس پانی کا پیا، اپنے اندر سلگتے ہوئے جہنم کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوشش کی۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ایشیا کا سب سے بڑا میٹرو بس منصوبہ پروان چڑھا، مگر اسی شہر کے سب سے بڑے اسپتال میں دل کی جعلی دوائوں سے سیکڑوں لوگ مر گئے،لاکھوں شہریوں کو ڈینگی نے ڈس لیا جن میں سے کئی زندگی کی بازی ہار گئے اور جو بچ پائے، ان میں سے کسی کی آنکھیں خراب، کسی کے معدے اور آنتوںمیں ورم ، کسی کے سر میں ہتھوڑے کی ضربیں،اور کسی کا اعصابی نظام بے کار۔اسی شہر میں کھانسی کے شربت سے مسلسل لوگ مر رہے ہیں اور اب پھول جیسے بچے خسرے کے ہاتھوں بن کھلے مرجھا رہے ہیں۔

مگر لاہور شہر کی سڑکیں اور چوک پینزی اور پیٹونیا کے رنگوں سے دمک رہے ہیں۔ان کے لیے پیسہ بھی ہے، عملہ بھی ہے، توجہ بھی ہے مگر بچے قدرت کے رحم و کرم پر۔ اگلی نسل کا قصہ مائوں کی گود اور اسپتالوں کے بستروں پر تمام ہو رہا ہے۔اوپر سے ڈینگی کا موسم سر پر ہے اور ملک میں ایک نگراں حکومت ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا فریضہ محض شفاف، غیر جانبدارانہ الیکشن منعقد کروانا ہے، میں نے چیف منسٹر سے ساری باتیں کیں مگر ایک گھنٹے کی ملاقات میں دونوں کے ہونٹوں پر الیکشن کا ذکر تک نہیں آیا،  صرف روز مرہ کے مسائل ہی زیر بحث آئے۔

میں وزیر اعلی کی یہ یقین دہانی صوبے کے عوام تک پہنچانا اپنا بنیادی فرض سمجھتا ہوں کی ڈینگی کے سلسلے میں ان کی حکومت پوری طرح چوکس ہے اور آنے والی حکومت کو ناگہانی طور پر کسی آفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ، آگے خداکو جو منظور ہے۔ اس ملاقات میں میڈیا کی تذلیل اور بے توقیری کا سلسلہ بھی زیر بحث آ یا ، میں نے اس ملاقات سے ہر ممکن طور پر گریز کیا۔ عذر بھی تراشا کی بیمار ہوں، باہر سے کچھ کھا پی نہیں سکتا، مگر میرے لیے پرہیزی غذا بڑے اہتمام سے تیار کرائی گئی۔ سچی بات ہے کوئی نوالہ حلق سے نیچے اتارنا مشکل ہو رہا تھا،کیا پتہ کس لسٹ میں کب نام آجائے ۔ساری عمریہی کھیل تماشہ دیکھتے گزر گئی۔

جناب چیف منسٹر مجھ پر بہت مہربان نظر آئے، کہنے لگے، آپ کی بیماری پر پریشان تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں، اس ملاقات کا مقصد یہی معلوم کرنا تھا۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا، آج کے ماحول میں ایڑیاں رگڑ کر مر جانا بہتر ہے، حکومت کے آگے ہاتھ پھیلانے اور چند لاکھ کی مدد لینے سے طبیعت تو شایدسنبھل جائے مگریار لوگوں کی نظروں میں رسوا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ سو میں نے چیف مسٹر سے کہا کہ آپ کی ہمدردی کا بے حد شکریہ، آپ مجھے بتائیں کہ میں آپ کی کامیابی کے لیے کہاں کام آ سکتا ہوں ، آپ کی کامیابی دراصل ہم سب کی کامیابی ہے۔میڈیا کے لوگوں کے لیے یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ہم اس نظام پر تنقید بہت کرتے ہیں مگر مزہ تو تب ہے جب ہم خودعملی طور پر کچھ کر کے دکھائیں۔

مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ نگراں وزیر اعلی نے کسی جعلی دکھاوے کے لیے 8 کلب کی عمارت پر تین حرف نہیں بھیجے، اسے پھر سے آباد کر دیا ہے، میں اس عمارت میں جسٹس اعجاز نثار کی نگراں وزارت اعلی کے دنوں میں آیا تھا۔ اس سے پہلے جب تک پرویز الہی وزیر اعلی رہے، انھوں نے مجھے اس عمارت کے نزدیک تک نہیں پھٹکنے دیا۔یہ عمارت وزیر اعلی کے دفتری امورکی انجام دہی کے تقاضوں کے مطابق تعمیر کی گئی ہے۔مگر میاں شہباز شریف اس عمارت سے روٹھ گئے۔اور 7 کلب کی تاریخی اور روایتی بلڈنگ میں دل لگا کر بیٹھ گئے، پھر انھوں نے ماڈل ٹائون کے دفاتر کو بھی آباد کیا، نوے شاہراہ قائداعظم کے کرو فر سے بھی مستفید ہوتے رہے اور مینار پاکستان کی گرائونڈ میں ٹینٹ آفس بھی سجایا مگر 8 کلب روڈ کی طرف انھوں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔

مستقبل میں عمران خان تو سرکاری دفاتر کی چکا چوند ختم کرنے کے اعلانا ت کرتے سنائی دیتے ہیں۔ پتہ نہیں وہ ایوان صدر،ایوان وزیر اعظم، ایوان عدل، ایوان پارلیمنٹ،  اور وسیع و عریض ایئر پورٹس کو کس مصرف میں لائیں گے، کیا یہاں اتوار بازار لگا کریں گے۔یہ باتیں وہ شخص کر رہا ہے جو مغربی دنیا میں جاتا ہے تو سوٹڈ بوٹڈ نظر آتا ہے، گلے میں بو پہنے، اپنا ذاتی گھر بھی سیکڑوں کنالوں پر محیط۔پتہ نہیں ملک کو مفلس کی کٹیا بنا نے سے کیا حاصل ہو گا۔چلیے ہمارے بھائی نجم سیٹھی صاحب نے کسی تصنع اور کسی دکھاوے سے کام نہیں لیا۔آدمی جیسا ہو ، ویسا نظر آنے میں ہرج بھی کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔