Transnistria وہ ملک جو وجود نہیں رکھتا

مرزا ظفر بیگ  ہفتہ 16 جون 2018
آئین، حکومت، فوج، قومی پرچم سب موجود۔۔۔لیکن ریاست غائب۔ فوٹو : فائل

آئین، حکومت، فوج، قومی پرچم سب موجود۔۔۔لیکن ریاست غائب۔ فوٹو : فائل

 1990میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد Moldovaکی مشرقی سرحد پر یوکرین سے ملی ہوئی یوکرین کی پیرنٹ باڈی کے ساتھ Transnistria کی یہ پتلی سی پٹی رہ گئی تھی جو اس وقت اپنے آبائی ملک سے الگ ہوگئی تھی جس کے ساتھ ہی اس ننھے منے سے ملک نے Moldova سے علیحدہ ہوکر اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کردیا تھا، مگر پھر ان دونوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔

Moldova اور Transnistria کے درمیان لگ بھگ چار ماہ تک جنگ ہوتی رہی جس نے کم و بیش 700انسانی جانیں لے لیں۔ بعدازاں جنگ بندی ہوگئی اور اس کے نتیجے میں ایک معاہدے پر بھی دست خط ہوگئے جس کے تحت یہ طے پایا کہ  Moldova اپنی ساتھی ریاست Transnistria کے تمام امور سے بالکل الگ تھلگ رہے گا، یہ طے تو پاگیا مگر آج بھی Moldova نے Transnistria کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے تسلیم ہی نہیں کیا ہے، بلکہ اسے تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کرتا ہے، پھر خالی اس ملک یعنی Moldova پر ہی کیا منحصر ہے، کسی دوسری ریاست یا قوم نے بھی Transnistria کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم نہیں کیا ہے۔

تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود آج بھی Transnistriaایک آزاد اور مکمل طور پر خود مختار ملک کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے، اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس کی اپنی حکومت ہے، اپنی فوج ہے، اپنی پولیس فورس ہے، اپنا پوسٹل سسٹم (ڈاک کا نظام) ہے، اپنی ذاتی کرنسی ہے، اپنا آئین ہے، اپنا قومی پرچم ہے اور اپنا کوٹ آف آرمز بھی ہے۔ لیکن اس کے پرچم پر ابھی تک کمیونسٹ سمبل یا نشان بنا ہوا ہے جس میں ایک ہتھوڑا اور درانتی نمایاں ہوتی ہے اور یہ نشان اب دنیا بھر میں یہ واحد ملک استعمال کررہا ہے ورنہ ہر جگہ سے ہی اس نشان یا سمبل کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

ان دونوں ملکوں کے درمیان تنازع کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ Transnistria ایک خاصے طویل عرصے سے ایسے علاقوں پر مشتمل ہے جہاں ماضی قدیم سے ہی روسی اثرات غالب اور نمایاں رہے اور وہاں کے لوگ بنیادی طور پر روسی زبان بولتے، لکھتے اور سمجھتے رہے ہیں اور ایسا سلطنت عثمانیہ کے عہد سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ یہ خطہ اٹھارھویں صدی کے اواخر میں روسی شاہی نظام کے تحت چلا گیا تھا۔ شاید اسی لیے Transnistria کے لوگ خود کو Moldovan سے زیادہ رشین سمجھتے ہیں اور خود کو روس کے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں۔ گویا ان لوگوں کی روس کے ساتھ دلی قربت بھی ہے اور دلی پیار بھی۔ اب تو اس  Transnistria کا یہ حال ہوچکا ہے کہ اس خطے میں رہنے والے وہ لوگ جو روسی زبان بولتے ہیں۔

آج بھی یہ اس خطے کا سب سے بڑا نسلی اور لسانی گروپ ہے جو  Transnistriaمیں ایک منفرد مقام کا حامل ہے۔ تاہم دونوں ملکوں کے درمیان جو جنگ بندی معاہدہ ہوا ہے، اس کے تحت Transnistria اورMoldovaکے درمیان جہاں دیگر معاملات طے پائے تھے، وہیں یہ بھی طے ہوا تھا کہ روس Transnistriaمیں باقاعدہ ایک امن فوج بھی رکھے گا جو اس ریاست میں امن و امان کے برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی رہے گی اور اس فوج کی موجودگی میں اس ننھے منے سے ملک کو بیرونی جارحیت سے کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوگا۔

اس کے علاوہ روس اس ننھی منی ریاست کو مستقل طور پر مالی مدد اور معاونت بھی فراہم کرتا رہے گا، اس کے ساتھ روس نے یہ ذمہ داری بھی قبول کی تھی کہ وہ Transnistriaکو فوجی امداد بھی فراہم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اس ملک کو ہر طرح کی سیاسی امداد اور حمایت بھی فراہم کرتا رہے گا جس کے بغیر یہ ملک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اس کے علاوہ روس اس ملک یعنی Transnistria کے بجٹ کے کم و بیش نصف اکاؤنٹس میں مدد اور معاونت فراہم کرنے کے لیے لگ بھگ بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں قسم کی مالی امداد فراہم کرے گا اور وہ یہ آج بھی کرتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ Transnistria کے لوگوں کی عوامی زندگی میں روسی اثرات بہت نمایاں دکھائی دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے لوگ عام طور سے روسی ٹیلی ویژن کی نشریات بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے اور سنتے ہیں، Transnistria کے بچے جن اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہاں روسی نصاب رائج ہے اور روسی زبان میں ہی تعلیم بھی دی جاتی ہے، یہاں تک کہ متعدد پنشن یافتہ بڑے بوڑھے آج بھی روسی پنشن ہی وصول کرتے ہیں اور اس سہولت سے اسی طرح فیض یاب ہوتے ہیں جس طرح ماضی میں ہوتے تھے۔ گویا یہ ملک بہ ظاہر تو اپنی کوئی سیاسی یا عملی حیثیت نہیں رکھتا، مگر ایک خیالی یا افسانوی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ضرور موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔