رکشہ کی چھت پرسونے والا بوڑھا آدمی!

راؤ منظر حیات  ہفتہ 16 جون 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

دودن پہلے،شادمان مارکیٹ جانے کااتفاق ہوا۔ لاہورکی یہ مارکیٹ نسبتاًخوشحال لوگوں کی خریدوفروخت کے لیے مشہورہے۔یاد نہیں کہ پچھلی بار،اس مارکیٹ میں کب گیا تھا۔ویسے کسی بھی پاکستانی بازارگئے ہوئے کافی عرصہ گزر چکاہے۔ایک وجہ تولوگوں کے ہجوم سے اُکتاہٹ ہے۔

مگر بڑی وجہ حددرجہ بے ترتیبی اوربدتہذیبی سے آراستہ مرداور خواتین کی اکثریت ہے جودیوانوں کی طرح نئے ملبوسات اوردیگرچیزوں پرجھپٹ رہے ہوتے ہیں۔اسی ذہنی وحشت کے ساتھ ایک شوروم کے سامنے چندمنٹ رُکناپڑا۔دائیں ہاتھ دیکھاتوایک چنگ چی رکشہ کھڑاتھا۔بلکہ پوری رات کے لیے لنگراندوزہوچکاتھا۔رکشہ میں کیاخاص بات ہوسکتی ہے۔

ویسے بھی عجیب شکل وصورت کے رکشے لاہورہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ہرجگہ موجودہیں۔مگرجس چنگ چی رکشہ کی بات کررہاہوں، مکمل طورپرایک گھر تھا۔ موٹر سائیکل اور رکشہ کے مین فریم کے درمیان پلاسٹک کے تین لفافے لٹکے ہوئے تھے۔ان میں ذاتی سامان تھا۔ایک کھونٹے پر پرانے کپڑے ٹنگے ہوئے تھے۔رکشہ کے اندردوحصے تھے۔

ایک حصے میں تربوزتھے اوردوسرے میں صندوق رکھاہوا تھا۔ جو کچھ اب تک عرض کیاہے اس میں کوئی بھی خاص بات نہیں ہے۔مگرجب چنگ چی کی چھت پردیکھاتو حیران رہ گیا۔ ایک بوڑھاشخص لنگی باندھے بڑے آرام سے سویاہوا تھا۔ سر کے سارے بال سفیدتھے اورچھوٹی چھوٹی سفید داڑھی تھی۔ چھت پرروئی کاگدابچھارکھاتھا۔آنکھوں کی طرف دیکھا تو ایسے محسوس ہواکہ ایک معصوم بچہ آنکھیں موندکے سویا ہوا ہے۔ اردگردگاڑیوں اورلوگوں کاہجوم تھا۔ شور تھا۔ مگر وہ شخص ہر چیزسے بے نیازرکشہ کی چھت پرسکون سے سویا ہوا تھا۔

یہ رکشہ صرف اس کاکاروبارنہیں بلکہ گھرمعلوم ہوتا تھا۔چھت اس کابیڈروم تھی۔رکشہ کے اندرپڑے ہوئے تربوز  اس کا بازار تھااورکھونٹیوں پرلٹکاہواسامان اس کاکمرہ تھا۔معلوم ہوتا تھا کہ اس شخص کی کل کائنات ہی رکشہ اورمنسلک چیزیں تھیں۔ سیل فون سے تصویرکھینچنے کاخیال آیا۔پھرسوچنے لگا کہ اجازت کے بغیرکسی کی تصویرکھینچناآداب کے خلاف ہے۔ لہذاارادہ ترک کردیا۔تھوڑی دیردیکھتارہا،پھرآگے بڑھ گیا۔ یہ سب کچھ اسلیے لکھ رہاہوں کہ یہ ہے ہماراعام آدمی۔

یہ ہے ہمارے عوام جسکی فلاح وبہبودکے ادنیٰ نعرے ہر سیاستدان مسلسل لگائے چلاجارہاہے۔اس بوڑھے شخص کے پاس تو رکشہ تھا،بیچنے کے لیے تربوزتھے۔یہ توعام آدمی سے تھوڑی سی اوپروالی سطح پرسانس لے رہاتھا۔عام آدمی تو غربت کی چکی میں اس طرح پِس رہاہے کہ اسکے شعور اور عزتِ نفس کی کرچیاں کرچیاں ہوچکی ہیں۔

ہاں،ایک اور بات۔جس وقت میں شادمان مارکیٹ پہنچاتوپورے شہرمیں گرد آلود طوفان تھا۔ضعیف شخص اسی گردمیں سانس لے رہا تھا،جس میں زہرآلودمٹی اورغلاظت موجود تھی۔اس آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس کے اردگردگردکاایک دھواں ہے۔ شائداسے صاف ہواکاادراک ہی نہیں تھا لہذا آلودگی اس کے لیے بے معنی تھی۔

صاحبان!یہ ہے ایک عام سے آدمی کی اصل تصویر۔ جوکڑکتی دھوپ میں بھی محنت مزدوری کرتا ہے۔جولُوکے تھپیڑوں کی موجودگی میں بھی تعمیر ہوتے ہوئے گھروں میں راج گیری کرتا ہے۔جوقہرآلود دوپہرمیں بھی لوہے کے ٹکڑوں پرضرب لگاکر مختلف حصوں میں تقسیم کرتاہے۔جوہرتلخ موسم کے سامنے کھڑاہوکرفصل لگاتابھی ہے اورکاٹتابھی ہے۔ جو پسنی اوردیگرساحلی علاقوں میں کھڑے ہوئے دیوقامت بحری جہازوں کوہتھوڑے سے توڑتاہے۔وہ ہرایساکام کرتا ہے جس سے دو وقت یاشائد ایک وقت کی روٹی نصیب ہوجائے۔

اس طرح کے کروڑوں لوگ ہمارے ملک میں سانس لینے پرمجبور ہیں۔ نظام کے ناقص ہونے کااندازہ لگائیے کہ دس ہزارروپے ،ماہانہ پر گھریلوکام کرنے کے لیے ہزاروں نہیں،لاکھوں لوگ مل جاتے ہیں۔یہ میرے دوستوں، اصل پاکستان کی ایک معمولی سی جھلک۔

یہ سب کچھ ایک طرف۔صرف اس اَمرکااندازہ لگائیے کہ بائیس کروڑلوگوں کو سیاستدانوں،سرکاری بابوؤں، تاجروں اوردیگراہم طبقوں نے کس کج بحثی میں مبتلاکر دیا ہے۔دس منٹ کے لیے کسی بھی ٹی وی چینل پر نظر دوڑائیے۔ دس منٹ اس لیے عرض کررہاہوں کہ کوئی بھی ٹی وی چینل اس قابل نہیں کہ اسے مسلسل دیکھنے کی زحمت کی جائے۔گھسی پٹی باتیں، وہی روزانہ نیالباس پہن کرآنے والے عجیب وغریب سے مبصراوروہی بودے سے دلائل۔جمہوریت کولے لیجیے۔

ایک طوفان برپاہے کہ الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ بس  25مئی کوایک چھومنترساہوگا۔نئی حکومت آجائے گی۔لوگوں کے مسائل چٹکی بھرتے ہی حل ہوجائینگے۔کوئی مسئلہ رہے گاہی نہیں۔مگریہ سب کچھ جھوٹ نہیں،بلکہ ایک عامیانہ فراڈ ہے۔پہلی بات تویہ کہ ہمارے ملک میں غیرجانبدارالیکشن کروانے ممکن ہی نہیں۔تمام انتظامی ڈھانچہ سیاسی بنیادوں پرتقسیم ہوچکاہے۔لہذاجوبھی شفاف الیکشن کی بات کررہا ہے،بنیادی طورپرغیرذمے دارانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔

ملک میں کبھی بھی،کوئی بھی چناؤمکمل طورپردرست طریقے سے نہیں ہوا۔لہذا،اب اس پربحث ختم ہونی چاہیے۔ویسے اب ہم نیوٹرل الیکشن کے نتائج  تسلیم کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ہمارے اندراتناظرف ہی نہیں ہے کہ کوئی بھی سیاسی قائد،ویسے قائدکالفظ استعمال نہیں کرناچاہیے۔کوئی بھی سیاسی لیڈر،اپنی ہارکوتسلیم کرسکے۔کسی بھی لیڈرکو اُٹھا کر پرکھ لیجیے۔

عام آدمی کے مصائب سے اس کا دوردورکا بھی تعلق نہیں۔صرف اورصرف ایک جعلی نعرہ لگاتاہے کہ حکومت دو،میں تمہاری حالت درست کردوں گا۔مگراصل مطلب صرف اورصرف اپنی مالی حالت کوآسودہ سے آسودہ تربناناہے۔اب توحالت اس درجہ دگرگوں ہے کہ آپ گوگل پردنیاکے کرپٹ ترین لیڈروں کی بابت پوچھیے تواس میں سرِفہرست پاکستان کے سیاستدانوں کانام آتاہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے جو ہمارے مسائل حل کرنے کے بجائے،ہمارے ملک کو فروخت کرنے کے کام آرہی ہے۔اس بدنصیب جمہوریت نے پورا پاکستان گروی رکھاہواہے۔

مگرنہیں،ہم دیوانوں کی طرح بحث کر رہے ہیں کہ الیکشن ہی ہمارے تمام مسائل کاحل ہے۔اس کے بعدہمارے ساتھ جوکچھ ہوتاہے اسے خداکی مرضی سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔دلیل کی بنیادپرعرض کرونگاکہ ایک نیم مردہ الیکشن کمیشن اورایک سیاسی طور پرتقسیم انتظامیہ کی موجودگی میں الیکشن ایک خوفناک خواب کی تعبیرہوگا۔ابھی توہمارے ٹی وی اسٹیشن،ریڈیواسٹیشن،ائیرپورٹ،موٹروے اورقیمتی اثاثے رہن رکھ کرقرضہ لیاگیاہے۔

ہوسکتاہے کہ صرف دو مہینے کے بعد،ہمارے مردوزن کوگروی رکھ کرپیسے وصول کیے جائیں۔ مذاق کی بات نہیں ہے۔آپ خودچندماہ بعداس انہونی کو ہوتا دیکھ لینگے۔قطعاًیہ عرض نہیں کررہاکہ جمہوریت ایک ناقص نظام ہے یا الیکشن نہیں ہونے چاہیے۔مگرتطہیراورکڑے احتساب کے بغیرچناؤمیں جاناعملی خودکشی ہے۔مجھے لگتاہے کہ ہمیں اس خودکشی کرنے پرتیارکیاجاچکاہے۔

ہمارے پاس لیڈرتوخیرہے ہی نہیں۔مگرکیاواقعی معاشرے میں جاری بحث ہمارے اصل مسائل کی طرف ایک درست قدم ہے۔تین مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ ریٹائرڈ جنرل اسددرانی جوکہ بیس پچیس برس پہلے فوج سے نکال دیے گئے،جوہرمنصب سے نکلے۔کیاان کی اورایک ہندوستانی ریٹائرڈ جنرل کی کتاب،واقعی عام آدمی کے لیے بہت اہم ہے۔آئی ایس آئی اورراکے حنوط شدہ سربراہان اگرکوئی نقطہِ نظربیان کرتے ہیں تواس میں لوگوں کے لیے کیااہم بات ہے۔

کیا اس بحث سے لوڈشیڈنگ میں ایک لمحے کی بھی کمی آجائے گی۔ نہیں۔بالکل نہیں۔مگراس پرسینکڑوں گھنٹے بحث دربحث ہوتی رہی۔اس کاانجام جوکچھ بھی ہو۔یہ قطعاًہمارے مسائل کوحل کرنے میں مددنہیں کریگی۔ریحام خان کی کتاب کی طرف آئیے۔اس نے کچھ بھی ایسانہیں لکھا،جواس کے نزدیک غلط، سچ یاجھوٹ ہو۔ انتہائی عامیانہ پن رویہ رکھنے والی ادھیڑ عمر عورت،جسکاتعارف ہی نامور سیاستدان کی مطلقہ بیوی ہونا ہے۔

وہ اگرگندنہیں لکھے گی توکیایونانی فلسفہ پرکمنٹری کریگی۔ تعصب کے بغیربتائیے،کہ کتاب پرجو لاحاصل بحث برپا ہے،اس کاعام آدمی سے کیاتعلق ہے۔یہ توایک ذاتیات کی جنگ اورسیاسی بساط کی رسواکن پالیسی ہے جو ملک کی اشرافیہ کادستورہے۔اس پربحث کیوں کی جائے۔میری نظرمیں تو یہ قابل توجہ بات ہے ہی نہیں۔مگرنہیں،ہم نے پورے ملک میں ہیجان پیدا کردیا۔ اس سے صرف بازاری پن چھلک رہا ہے۔تیسری بات۔یہ زلفی بخاری کون ہے۔یہ کہاں سے اتنا اہم ہوگیاکہ اسے ٹی وی اسکرین پرتوجہ دی جائے۔وہ ای سی ایل پرتھایابلیک لسٹ میں تھا۔عمرہ کرنے گیایانہیں گیا۔ جہاز علیم خان کاتھایاکرائے کاتھا۔یہ ہمارے لیے کیونکراہم ہوگیا۔مگرنہیں۔ایک قیامت برپاہے۔

ملک میں ڈالر 124 روپے کاہوگیا۔معیشت بربادہوگئی مگراس پرکوئی بحث نہیں۔ کوئی گریہ نہیں ۔مگرایک عمرہ،زلفی بخاری اورجہازاَزحداہم ہوگئے۔بہرحال،یہ بھی ایک ایسا ایشو تھا جسکی کوئی عملی حیثیت نہیں۔پورے ملک میں ایک طوفان برپاکردیا گیا۔ طالبعلم کی نظرمیں یہ سب کچھ ثابت کرتاہے کہ ہم ایک غیرسنجیدہ قوم ہیں۔اصل حقائق کی طرف سوچنا تو درکنار، دیکھناتک پسندنہیں کرتے۔

حقیقت تویہ ہے کہ اکثرپولیس تھانوں میں آج بھی لوگوں پربیہمانہ تشددکیاجاتاہے۔ہمارے ریوینیو اہلکار، ملکیتی فردنکلوانے کے مونہہ مانگے پیسے وصول کرتے ہیں۔ جائیدادکے انتقال میں ہرسرکاری اہلکارخوب رشوت وصول کرتاہے۔جعلی دوائیاں دھڑلے سے بیچی جاتی ہیں۔ اگر کوئی انھیں ہاتھ ڈالے توکیمسٹ ہڑتال کردیتے ہیں۔ سبزیوں کوزہرآلودپانی سے اُگایاجاتاہے اورپھرخوبصورتی سے سجا کر فروخت کیاجاتاہے۔سرکاری نلکوں سے لوگ گندا پانی پینے پرمجبورہوچکے ہیں۔

سرکاری اسپتال اَجل کے فرشتے کی زمینی نشانیاں ہیں۔سنجیدگی سے دیکھیے توعام آدمی ہرطرف صرف اورصرف موت خریدرہاہے۔کہیں اپنی مرضی سے اور کہیں دوسرے کی مرضی سے۔میری نظرمیں یہ تمام سسٹم بوسیدہ اوربدبودارہے۔مجھے ایک ایسے منصفانہ نظام کی آرزو ہے جوچنگ چی رکشے کی چھت پرسونے والے بوڑھے آدمی کے مسائل کوحل کرسکے۔مگریہ صرف ایک خواب ہے۔ایک ایساخواب،جسکی تعبیراَزحددردناک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔