یک جہتی اور ہراسگی ایک تحقیق

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 16 جون 2018
barq@email.com

[email protected]

آج کل ہم اردو الفاظ کے ایک تحقیقی پروجیکٹ پر ہیں، اس غرض کے لیے ہم نے اپنے ’’ٹٹوئے تحقیق ‘‘ کو آواز دی کہ چلو آج ایک بہت ہی کثیر الاستعمال اور خاص طور پر سیاسی و میڈیائی لفظ ’’یکجہتی ‘‘ کا پتہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے اور ویر اباؤٹ کیسا ہے۔

ہمارا ٹٹوئے تحقیق بھی ہماری صحبت میں کچھ کچھ محقق ہونے لگا ہے ۔ بولا یہ تو میں بتاسکتا ہوں کہ یہ ایک کھیل ہے جو اکثر کشمیر والوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے اور یا یہ زعفران جیسی کوئی فصل ہے جو کشمیر میں بوئی کاٹی اور دساور کو بھیجی جاتی ہے۔ ابھی کچھ ہی روز پہلے کشمیریوں نے یک جہتی کی فصل کاٹی ہے ۔

ہم نے اس کے کان پر تازہ کاٹی ہوئی کیکر کی ایک ٹہنی بٹھاتے ہوئے کہاکہ کم بخت اب تم اتنے بھی نہیں ہوئے ہوکہ ہم جیسے کوالی فائیڈ محقق کے منہ لگو، یک جہتی صرف کشمیر والوں کے ساتھ تو نہیں کی جاتی بلکہ گذشتہ ستر سال میں ہم نے اور بھی بہت ساری یک  جہتیاں کی ہیں، فلسطین والوں کے ساتھ تو بالکل کشمیریوں جیسی یک جہتیاں کررہے ہیں ،عراق والوں، شام والوں بلکہ بوسنیا والوں اور روہنگیا والوں سے کرتے رہے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو بھارت تک میں جب کوئی حادثہ ہوتا ہے ہم ڈیر ساری یک جہتی کر لیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے روس کے ساتھ ہم نے کئی بارکئی کئی یک جہتیاں کی ہیں بلکہ جہاں جہاں کچھ ہوا یا کوئی خاص شخصیت مری ہے ہم یک جہتی لے کر پہنچے ہیں۔

ارے ۔ ہمارا ٹٹوئے تحقیق منہ کھول کر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے بولا ۔ آپ کو تو بہت ساری یک جہتیوں کا پتہ ہے میں تو صرف اسے ایک کشمیری آئٹم سمجھ رہا تھا ۔

اسی لیے تو ۔ اسی لیے تو ۔ کم بخت کہا جاتا ہے کہ جائے استاد خالی است لیکن وہ بھی آج اپنی علمیت بتانے پر تلا ہوا تھا ۔ بولا ۔ جہاں تک مجھے لغت سے معلوم ہے ۔ تو ’’ یک ‘‘ کا مطلب ایک ہوتا ہے اور جہت طرف کوکہتے ہیں تو یک جہتی کا پورا مطلب ’’ یک طرفی ‘‘ نکلا۔ ہم نے کہا یہ تو ہم بھی جانتے ہیں بولا سیدھا سادا لفظ ہے مثلاً جدھر کشمیری دیکھ رہے ہیں فلسطینی دیکھ رہے ہیں روہنگیا والے دیکھ رہے ہیں ادھر ہم بھی منہ کرکے دیکھنا شروع کردیں تو یہ یک جہتی ہوئی یا نہیں جیسے نماز میں ہوتی ہے پریڈوں میں ہوتی ہے یا جلسوں دھرنوں میں یعنی سب کچھ لوگ جدھر وہ ہو ادھر دیکھ رہے ہوں ۔

ہمیں غصہ آگیا کیکر کی ٹہنی کی پوری چھال اسی کے جسم پر اتارتے ہوئے کہا یک جہتی پروجیکٹ پر جاتے ہو یا نہیں۔آنکھوں میں یہ بڑے بڑے آنسو لاتے ہوئے بولا۔ چاہے مار ڈالیں لیکن آج ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں ہلیں گے جب تک میرے ایک پرابلم کو حل نہیں کریں گے یا کم از کم میرے اس پرابلم کا نام نہیں تجویز کریں گے۔ کیوں کیا ہوا کیا پرابلم ہے کسی نٹ کٹ ’’ ٹٹوئیں ‘‘ نے لات یا آنکھ ماری ہے کیا ؟ بولا یہ بات ہوتی تو اچھا تھا لیکن یہاں تو مسئلہ دوسرا ہے ۔ پڑوسی کی جو بوڑھی گھوڑی ہے وہ اول لگام لگا کر کچھ حرکتیں کرتی رہتی ہیں ۔

ہم نے اس کی پیٹھ کو ایک اور نئی کیکر کی ٹہنی سے تھپتپاتے ہوئے کہا خوش قسمت ہو تمہاری خوش قسمتی ہے ایسے کاموں اورحرکات کے لیے میڈیا والوں نے بڑا خوبصورت لفظ نکالا ہوا ہے جس کا مادہ تو ’’ ہراس ‘‘ ہے جو کسی بھی زبان کا کوئی لفظ نہیں لیکن ’’ خوف ‘‘ کا کوئی رشتہ دار ہے اور ہمیشہ ’’خوف ‘‘ کے ساتھ ہی دکھائی دیتا ہے یعنی خوف اور اس کے ساتھ ’’ہراس ‘‘ پھر نہ جانے کیا بات ہوئی یابس قسمت تھی ۔ جو اس کی پھر گئی کہ ایک جہان اس پر مہربان ہو گیا کہ ’’ میڈیائے عالم ‘‘ خوش آگئی، قلندری اس کی شاید اس لیے کہ اس کا تعلق حسیات عالم سے جڑ سکتا تھا کہ ہراس سے ہراساں ہوگیا اور ہراساں سے ہراسانی اور نہ جانے کیا کیا بننے لگا ۔

ایک عالم اس کا گرویدہ ہوگیا دیکھتے ہی دیکھتے راتوں رات بھر ہراساں سے ہراسانی پھر ہراسگی اور پھر ہراسمنٹ جیسے پراڈکٹ لانچ ہوگئے بلکہ سننے میں آرہا ہے کہ ’’ ٹشوکلچر ‘‘ کے ماہرین بھی اس پر کام کررہے ہیں اور توقع ہے کہ بہت جلد مارکیٹ میں ہراسائزیشن ہراسیالوجی ، ہراسمنٹ اورہر ہر ہراسانیت بھی دستیاب ہوجائیں ۔

پہلے ہم اس ’’ یک جہتی ‘‘ والے پراجیکٹ پر تحقیقی کام کریں گے ۔ بولا ، مگر اس کی ضرورت کیا آن پڑی ہے کہ یک جہتی کا تو اپنے ملک میں مکمل طور پر ’’ چلن ‘‘ ہے یہاں تک کشمیر، فلسطین ، روہنگیا وغیرہ تو دور، سیاسی لیڈر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہر وقت یک جہتی کا مظاہرہ کرنے کو تیار رہتے ہیں خاص طور پر کالا نعاموں کے خلاف تو سب یک جہت تھے یک جہت ہیں اور یک جہت رہیں گے۔

ہمیں خاموش دیکھ کر اس نے پھر اسٹارٹ لیتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں ’’ یک جہتی ‘‘ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اہل دین بھی آخر کار یک جہت ہو گئے حالانکہ آپس میں ان کی بالکل بھی نہیں بنتی ۔ لیکن یہ بتائے کہ ’’ یک جہتی ‘‘ تو خاص طور پر سیاسی استعمال کی چیز ہے تو  آپ کو اس سے اتنی دلچسپی کیوں ہے ؟ آخر کار اس کم بخت کا ہاتھ ہماری دکھتی رگ تک پہنچ گیا اس لیے اب چھپانے سے کیا فائدہ ویسے بھی وہ پیشہ و ہم مشرب و غم خوار ہے۔

ہم نے بتایا کہ ہم ان دنوں پڑوسی ملک کی کچھ مسکین غربت زدہ اور مفلوک الحال ’’ مہیلاؤں ‘‘ کے دکھ میں مبتلا ہیں کہ ان بیچاریوں کو اپنا ’’ تن ‘‘ ڈھاپننے کے لیے دوگرہ کپڑے سے زیادہ میسر نہیں اور مجبور ہوکر صرف ’’ دو چندیوں ‘‘ سے اپنا کام چلا رہی ہیں ہمارا ارادہ ہے کہ ان مہیلاؤں ‘‘ سے یک جہتی کا مکمل اظہار کریں ۔تو کیجیے کس نے روکا ہے یہیں سے جتنی زیادہ جی چاہے ’’ یک جہتی ‘‘ کا اظہار کیجیے کیونکہ یک جہتی کے لیے اس مقام تک جانا تو ضروری نہیں آپ کشمیریوں فلسطینیوں اور روہنگیوں سے کی جانے والی یک جہتی کی طرح بس بھٹے بھٹے بھی یک جہتی کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔