آخری حربے

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 16 جون 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہم نے اس سے قبل کئی کالمز میں اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ اقتدار مافیا کسی مڈل کلاسر کو کبھی اقتدار میں آنے نہیں دے گی۔ ہزار قسم کے حربے استعمال کیے جائیں گے اور مڈل کلاس کی قیادت کو آگے آنے نہیں دیا جائے گا۔

عمران خان انسان ہے فرشتہ نہیں، عمران میں دس اچھائیاں ہوسکتی ہیں تو دو برائیاں بھی ہوسکتی تھیں۔ عمران خان سے خوف کھانے کی وجہ کیا ہے، اس کا اندازہ لگانا اس لیے ضروری ہے کہ ہماری سیاست میں بہت سارے مڈل کلاس موجود ہیں، پھر عمران خان سے خوف کی وجہ کیا ہے؟

اصل میں پاکستان کی سیاست میں عمران خان پہلا سیاستدان ہے جو بھٹو کے بعد عوامی مقبولیت کی انتہا کو چھو رہا ہے، عمران خان کی اس مقبولیت کی وجہ سے ہماری سیاسی اشرافیہ کو یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں وہ سیٹ اپ جو70 سال سے پاکستانی سیاست میں مستحکم چلا آرہا ہے کمزور نہ پڑ جائے اور اقتدار اشرافیہ کے ہاتھوں سے نکل کر مڈل کلاس کے ہاتھوں میں نہ چلا جائے۔ اگر ایک بار ایسا ہوا تو پھر مڈل کلاس کا راستہ روکنا بہت مشکل ہوجائے گا۔

پچھلے تقریباً ایک سال سے اقتداری اشرافیہ کے خلاف اربوں نہیں کھربوں کی کرپشن کے خلاف عدلیہ میں کئی ریفرنسز زیر سماعت ہیں اور اب آخری مراحل میں داخل ہیں، اگر انتخابات ہوجائیں اور عمران خان کی تحریک انصاف جیت جائے تو ان تمام ریفرنسز کا حتمی نتیجہ سامنے آجائے گا۔ یہ خوف اشرافیہ کو کھائے جا رہا ہے، اس خوفناک انجام سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عمران خان کے خلاف روز ایک اسکینڈل میڈیا میں اچھال کر عمران کو عوام میں ممکنہ حد تک بدنام کیا جائے۔

اب اشرافیہ نے اپنی پوٹلی سے ریحام خان کا اسکینڈل نکالا ہے۔ یہ اسکینڈل نہ اتفاقی ہے، نہ اچانک پیش آنے والا کوئی حادثہ ہے، حقائق پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اشرافیہ کے شاطر ذہنوں نے بہت پہلے ہی اس کی منصوبہ بندی کی تھی کہ اس اسکینڈل کو عین انتخابات سے پہلے منظر عام پر لایا جائے اور اس کا اس شدت سے پروپیگنڈا کیا جائے کہ عوام کے ذہنوں میں بدگمانیاں پیدا ہوجائیں اور وہ عمران خان کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہوجائیں۔

لگتا ہے کہ اس اسکینڈل کا مرکزی کردار ہماری اشرافیہ کی مرضی کے مطابق اپنا کردار کامیابی سے ادا کر رہا ہے۔ جس کا مقصد عوام میں ایسی بدگمانیاں پیدا کرنا ہے کہ عوام عمران خان سے دور اور بدظن ہوجائیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دن رات جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اور جمہوریت کا نام لیے بغیر زندہ درگور ہونے والوں کے سامنے عدلیہ ایک ڈراؤنا خواب بن کر کھڑی ہوئی، براہ راست اور بالواسطہ اربوں کی کرپشن کے الزامات میں مقدمات چل رہے ہیں، عدلیہ کو خوفزدہ کرنے کے لیے عدلیہ کے خلاف قدم قدم پر توہین عدالت کے جرم دھڑلے سے کیے گئے، لیکن عدلیہ نے غیر روایتی غیر منطقی طور پر صبر کا مظاہرہ کیا، اس طرح عدالت کو مشتعل کرنے کا حربہ ناکام ہوگیا اور کردہ گناہوں کا انجام سر پر تلوار کی طرح لٹکنے لگا ۔ شور مچایا جارہا ہے کہ یہ سب جمہوریت کو ناکام بنانے کے لیے کیا جارہا ہے اور جمہوریت کا مطلب صرف اور صرف اشرافیہ کا اقتدار ہے، جو 70 سال میں پہلی بار حقیقی خطرے سے دوچار ہے۔

قدم قدم پر جمہوریت کا نام لینے والے اور جمہوریت کے بغیر اپنا دم گھٹتا محسوس کرنے والی اشرافیہ جمہوری قدروں سے کیوں راہ فرار اختیار کر رہی ہے، عمران خان کوئی ڈکٹیٹر نہیں ہے کہ اچانک اقتدار پر قبضہ کرلے، عمران خان ایک جمہوری نظام میں رہ رہا ہے اور وہ جمہوری پراسس سے گزر کر یعنی عام انتخابات میں عوام سے ووٹ لے کر ہی اقتدار میں آسکتا ہے۔ وہ بھی اکثریتی ووٹ لے کر ہی وہ اقتدار میں آسکتا ہے۔

جمہوری طرز سیاست میں سیاسی جماعتیں سیاسی رہنما انتخابات منشور کے حوالے سے لڑتے ہیں ہر جماعت عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتی ہے جس میں برسر اقتدار آنے کی صورت میں ملک اور عوام کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی تفصیل ہوتی ہے، جس جماعت کے منشور کو عوام پسند کرتے ہیں انتخابات میں ووٹ اسی کو دیتے ہیں اور وہی جماعت حکومت بناتی ہے جسے اکثریتی ووٹ حاصل ہوتے ہیں۔

ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ 70 سال سے بالادست طبقات ہی سیاست اور اقتدار پر قابض ہیں اقتدار پر قبضے کی لت ایسی لگی ہے کہ اب بالادست طبقات نے اپنی آل اولاد کو بھی مستقبل کے حکمرانوں کی لائن میں کھڑا کردیا ہے اور عوامی حمایت سے مایوس ہوکر عمران خان کے خلاف شرمناک اسکینڈل سامنے لا رہے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اشرافیہ عوامی حمایت سے مایوس ہوگئی ہے اور غیر جمہوری غیر اخلاقی ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔

یہ صورتحال نہ صرف جمہوری قدروں کی نفی کرتی ہے بلکہ متحارب جماعتوں میں نفرت اور تصادم کی راہ ہموار کرتی ہے۔ کیا ہمارے جمہوریت پسند رہنما اس غیر جمہوری سیاست کا کوئی معقول اور اخلاقی جواز پیش کرسکتے ہیں؟

کوئی بھی لکھاری غیر اصولی طور پر کسی جماعت یا کسی رہنما کا حامی یا مخالف نہیں ہوسکتا، عمران خان یا ان کی جماعت کی ہر وہ شخص حمایت کرے گا جو اشرافیہ کی 70 سالہ سول آمریت کی تباہ کاریوں کا ادراک رکھتا ہے، عمران خان بندہ بشر ہے اور اس میں بہت ساری بشری خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ وہ اقتدار میں محض اربوں کی لوٹ مار کے لیے نہیں آنا چاہتا، کیونکہ اس کے سامنے لٹیرے طبقات کی بدنامیوں، ذلت و رسوائیوں کے عبرتناک مناظر موجود ہیں اور پھر مڈل کلاس میں لوٹ مار کی وہ صلاحیتیں موجود ہی نہیں ہوتیں جو اشرافیہ کی سیاست کا لازمہ ہوتی ہیں۔

ہماری اشرافیہ کے دل پر بڑے گہرے زخم ہیں، وہ حالات حاضرہ سے سخت مشتعل ہے اور اس مایوس کن صورتحال میں قوم کے اجتماعی مفادات کو نظرانداز کرکے ’’اپنے حامیوں‘‘ کو سڑکوں پر لانے میں کوئی تکلف نہیں کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو 2018 کے انتخابات فسادات میں نہ بدل جائیں اور عوام کا نقصان نہ ہوجائے یہ خدشات اس لیے پیدا ہو رہے ہیں کہ فاٹا کے مسئلے پر سابق حکمرانوں کی جی حضوری طاقتیں عوام کو سڑکوں پر آنے کی تلقین کر رہی ہیں، فاٹا کے پختونخوا میں انضمام پر ساری سیاسی اور دینی جماعتیں متفق ہیں صرف دو حضرات اس انضمام کے خلاف ہیں جن کا قریبی تعلق اشرافیہ سے ہے۔

عوامی حمایت سے مایوس مدبرین آخری حربے کے طور پر ملک میں افراتفری پیدا کرنے میں تکلف کرسکتے ہیں۔ یہ ایسا سوال ہے جس پر جمہوریت کے عشاق کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔