جدوجہد کی علامت

سردار قریشی  ہفتہ 16 جون 2018

بدقسمتی سے میری ان سے کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی، البتہ میں انھیں ایک قوم پرست دانشور، قانون دان، ادیب اور سیاستدان کی حیثیت سے کوئی نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے جانتا تھا۔ وہ خبروں میں رہتے تھے اور بطور صحافی میرا تعلق براہ راست خبروں سے رہتا تھا۔ اس حوالے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ یہ اور بات ہے کہ نہ تو میں ان کے خیالات و نظریات سے کبھی متفق ہوسکا اور نہ ہی وہ مجھے پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ مجھ سے سخت نفرت کرتے تھے۔

باوجود اس کے مجھے اعتراف ہے کہ انھوں نے اپنی سوچ اور نکتہ نظر کے مطابق سندھ کو درپیش مسائل حل کرانے، یہاں کے عوام میں سیاسی بیداری پیدا کرنے، انھیں اپنے حقوق کے لیے میدان عمل میں لانے کے لیے زبردست کام کیا اور عملی جدوجہد کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ رسول بخش پلیجو کی ہمہ گیر شخصیت کے کئی پہلو ایسے تھے جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ متنازع رہے لیکن انھوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جو خدمات انجام دیں اور کام کیے، ان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

پہلی بار اس کا مشاہدہ کرنے کا موقع مجھے اپنے زمانہ اسیری کے دوران ملا۔ 1978ء میں مارشل لاء کے نافذ ہوتے ہوئے جب صحافیوں نے منہاج برنا کی زیر قیادت ملک گیر تحریک آزادی صحافت شروع کی اور جیل بھرو سلسلے کا آغاز ہوا تو طلبا کے علاوہ کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور ہل جوتنے والے کسانوں نے بھی ہماری حمایت میں گرفتاریاں دیں۔ پلیجو صاحب کی پارٹی عوامی تحریک کے خواتین، طلبا اور کسانوں سے متعلق تین شعبے خاص طور پر بہت فعال تھے، جو بالترتیب سندھیانی تحریک، سندھی شاگرد تحریک اور سندھی ہاری تحریک کہلاتے تھے۔ ان میں سے آخری دونوں شعبوں سے متعلق کچھ کارکن کراچی کی لانڈھی جیل اور سینٹرل جیل سکھر میں ہمارے ساتھی تھے۔

چیئرمین ماؤ اور کم ال سنگ کی سرخ کتابوں کی طرز پر پلیجو صاحب کے افکار و خیالات پر مبنی پاکٹ سائز کے کتابچے ہمارے ان ساتھیوں کے پاس بھی ہوا کرتے تھے۔ اگرچہ ہاری تحریک سے وابستہ دوست زیادہ تر ان پڑھ تھے لیکن شام کو جب وہ بیرک کے باہر دائرے کی شکل میں بیٹھا کرتے تو یہ کتابچے ان کے ہاتھوں میں ہوتے۔ ان میں سے کوئی ایک جو خواندہ ہوتا کتابچے میں سے پڑھ کر سناتا اور باقی سب سنا اور یاد کیا کرتے۔ ان میں اکثر نے یہ طوطے کی طرح رٹ رکھے تھے۔

وہ جب ہم سے بات چیت کرتے وقت کارل مارکس، لینن، فیڈل کاسترو اور گوریلا کمانڈر چی گویرا سمیت کمیونسٹ لیڈروں کے اقوال اور جدوجہد کے حوالے دیتے تو مجھے بڑا عجیب لگتا اور میں ان کی باتیں دلچسپی سے سنا کرتا۔ کتابچوں میں درج حالات و واقعات کی روشنی میں یہ دوست یہاں کی معروضی صورتحال کا تجزیہ کرتے تو مزہ اور بھی دوبالا ہوجاتا۔ میرے دوست ناصر کاظمی کو، جنھیں صحافیوں کی تحریک میں فوجی عدالت کے حکم پر کوڑے بھی مارے گئے تھے، ان کے منہ سے یہ باتیں بڑی عجیب لگتیں اور اپنی ’’سمٹ‘‘ میں جو ہم روز بیرک کے عقب میں لگے آم کے درختوں پر چڑھ کر منعقد کیا کرتے تھے، وہ ان کی اس پریکٹس پر سخت تنقید کیا کرتے تھے۔

میں کہتا چھوڑو یار، یہ دیکھو کہ ان لوگوں نے ہماری حمایت میں گرفتاریاں دی ہیں اور جیل کاٹ رہے ہیں، اور نہیں تو ہمارے لیے ان کی قربانی کی خاطر ہی برداشت کرو۔ مجھے ناصر کاظمی کو ان کے ساتھ بحث میں الجھنے سے باز رکھنے میں بڑی مشکل پیش آتی تھی۔ اس روز تو حد ہی ہوگئی جب میں بیرک سے باہر نکلا تو ناصر کو ان کے ساتھ دائرے میں بیٹھا پایا، اس ڈر سے کہ کہیں پھڈا نہ ہوجائے، میں نے اس سے کہا کہ ولی محمد واجد نے، جو لانڈھی جیل میں ہمارے گروپ لیڈر تھے، بلایا ہے۔ میں ناصر کو کیا اٹھاتا ہاری تحریک کے ایک ساتھی نے مجھے بھی کھینچ کر پاس بٹھا لیا۔ اب بحث اور اس کے نتیجے میں تلخی کا پیدا ہونا ناگزیر تھا لیکن بھلا ہو جیل کے برمی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ لمپا کا، جو کامریڈ پکارنے سے چڑتے تھے، اچانک گشت پر ادھر آنکلے اور ہاری دوستوں کو دائرہ محفل برخاست کرنی پڑی۔

شاگرد تحریک سے وابستہ کچے ذہن کے نوجوان طلبا اور ناخواندہ کسان دوست پلیجو صاحب سے اس قدر متاثر تھے اور ان کا ذکر کچھ اس انداز سے کرتے تھے کہ بقول ناصر کاظمی ان جیسا لیڈر نہ پہلے کبھی گزرا ہے اور نہ آیندہ کبھی پیدا ہوگا۔ خود پلیجو بھی اپنے متعلق بڑی غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ ف م لاشاری جو ہلال پاکستان کے ہفتہ وار میگزین کے انچارج تھے، بتاتے تھے کہ ایک بار دوران انٹرویو جب انھوں نے پلیجو سے پوچھا کہ ان کے خیال میں اس وقت سب سے بڑا سندھی ادیب کون ہے تو جواب ملا بندہ آپ کے سامنے بیٹھا ہے۔ عوام میں ان کی پارٹی کی کوئی فالوئنگ نہیں تھی اور وہ بھی بہت سی دوسری قوم پرست پارٹیوں کی طرح پریس ریلیز کلچر کی پیداوار تھی۔ نہ تو پلیجو صاحب خود، نہ ہی ان کی پارٹی کے ٹکٹ پر کوئی امیدوار کبھی کسی بھی سطح کا کوئی الیکشن جیت سکا۔

ان کے چھوٹے بھائی غلام قادر پلیجو البتہ پیپلز پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے ایک دو بار سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ بعد میں ان کی صاحبزادی سسی پلیجو نے ان کی جگہ لی اور صوبائی وزیر بھی بنیں۔ ذاتی طور پر میرا پلیجو صاحب سے واسطہ 1991ء میں اس وقت پڑا جب میں سندھی روزنامہ ’’جاگو‘‘ سے بطور نیوز ایڈیٹر وابستہ تھا۔ انھوں نے مجھے فون کرکے شکایت کی کہ ان کی خبروں کو صحیح کوریج نہیں مل رہی۔

میں نے عرض کیا انھیں میرے بجائے ایڈیٹر یا اپنے چھوٹے بھائی سے بات کرنی چاہیے جو اخبار کے ڈائریکٹر بھی ہیں، لیکن ان کا کہنا تھا کہ خبریں تم سلیکٹ کرتے ہو اس لیے میں نے تم سے بات کرنا ضروری سمجھا۔ پھر فرمایا میرے کارکن تمہارے جانبدارانہ رویہ کی وجہ سے سخت مشتعل ہیں اور اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے تو ہم سے پنگا نہ لو۔ میرے عرض کرنے پر کہ مجھے ان سے اس انداز گفتگو کی توقع نہیں تھی، انھوں نے لائن کاٹ دی۔ دوسری دفعہ فون پر ان سے ’’ٹاکرا‘‘ تب ہوا جب ایڈیٹر کے امریکا جانے کی وجہ سے چارج میرے پاس تھا۔

پلیجو صاحب نے فون پر حکم دیا کہ انھوں نے تین سال قبل سندھ یونیورسٹی کے طلبا کو ایک لیکچر دیا تھا جس کی آڈیو ریکارڈنگ تحریری صورت میں وہ مجھے بھجوا رہے ہیں، یہ آج ہی ایڈیٹوریل پیج پر بطور لیڈ آرٹیکل لگانا ہے۔ میری رگ ظرافت پھڑکی اور میں نے ان سے پوچھ لیا کہ کیا انھوں نے اخبار خرید لیا ہے یا اس کے ایڈیٹر انچیف بن گئے ہیں کہ اس طرح کے احکامات صادر فرما رہے ہیں؟ آرٹیکل دیکھے بغیر میں اسے شایع کرنے کی کیسے حامی بھر سکتا ہوں۔ غصے میں آگئے اور فرمایا لگتا ہے تمہیں ٹھیک کرنا ہی پڑے گا۔ 1992ء میں جب پلیجو پانی کے مسئلے پر لانگ مارچ کی قیادت کر رہے تھے۔

میں نے ’’عوامی آواز‘‘ میں اس حوالے سے ایک اداریہ لکھا جو انھیں سخت ناگوار گزرا۔ آکاش انصاری نے، جو پارٹی کے سیکریٹری جنرل تھے، مجھے فون کرکے خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں۔ میری طرح ان کا تعلق بھی ضلع بدین سے تھا اور پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے، ذاتی مراسم نہیں تھے لیکن میں ان سے کہے بغیر نہیں رہ سکا کہ یار، آپ لوگ کرتے ورتے کچھ ہیں نہیں، خالی دھمکیاں دیتے ہیں، جن کے ہم عادی ہوگئے ہیں، لہٰذا کوئی دوسرا راستہ نکالیں۔

میرے ایک صحافی دوست نے، جو پلیجو کو اپنا گرو مانتے تھے، بارہا ان سے ملوانے کی کوشش کی مگر میں نے معذرت کرلی کہ کہاں وہ اتنے بڑے لیڈر اور کہاں ہم خاک نشین۔ چھوٹی موٹی انسانی کمزوریوں سے قطع نظر پلیجو نے اپنی پوری زندگی سندھ اور سندھیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزار دی۔ میں ان کی خدمات کا دل سے معترف ہوں اور ان کی عظمت کو سلام کرتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔