ہمسایہ ممالک سے درآمد اشیا کی اسکیننگ کا منصوبہ تاخیر کا شکار

ارشاد انصاری  ہفتہ 16 جون 2018
منصوبے کاابتدائی ڈرافٹ تیارکرلیا،وزیراعظم کو پریزنٹیشن،منظوری کے بعدکام شروع، سینئرافسرایف بی آر۔ فوٹو: فائل

منصوبے کاابتدائی ڈرافٹ تیارکرلیا،وزیراعظم کو پریزنٹیشن،منظوری کے بعدکام شروع، سینئرافسرایف بی آر۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: وفاقی حکومت کی طرف سے افغانستان، ایران اور انڈیا سے آنے والے درآمدی اشیا سے بھرے کنٹینرزکی 100فیصد اسکینگ شروع کرنے کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سینئر افسر نے گزشتہ روز ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ مذکورہ منصوبے کے پی سی ون کا مسودہ تیار کرلیا گیا ہے، اب نئی حکومت کے قیام کے بعد اس منصوبے پر کام شروع ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت 25 کروڑ یورو کی لاگت سے بندرگاہوں، بارڈر کراسنگ پوائنٹس و کسٹمز کلیئرنگ اسٹیشنز پر خصوصی اسکینرز نصب کیے جائیں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے منصوبے کا ابتدائی ڈرافٹ تیار کرلیا ہے اور اس منصوبے کی منظوری وزیراعظم سے حاصل کی جائیگی اور ایف بی آرکی جانب سے اس مجوزہ منصوبے کے بارے میں وزیراعظم کو پریزنٹیشن دی جائیگی اور وزیراعظم کی منظوری کے بعد اس منصوبے پر کام شروع ہوگا اور پہلے مرحلے میں پائلٹ پروجیکٹ متعارف کروایا جائیگا۔

اس منصوبے کے تحت ایران، افغانستان اور انڈیا سے آنے والے درآمدی کنٹینرز کی ڈرائی پورٹس پرسو فیصد اسیکنگ کی جائے گی اوراس کیلیے اسکینرزنصب کیے جائیں گے اور ان اسکینرز کی خریداری و تنصیب کیلیے  25 کروڑ یورو درکار ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت سی پورٹ پر40 فیصد درآمدی کنٹینرز گرین اور اورینج لائن کے ذریعے کلئیر ہورہے ہیں جبکہ مذکورہ منصوبے کے بعد سو فیصد کنٹینرز کی کلیئرنس کی جائیگی۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مذکورہ افسر کا کہنا ہے دو ماہ قبل ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں منعقد ہونے والے اعلی سطح کے اجلاس میں ایف بی آر کے ممبر کسٹمز کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ میں افغانستان، ایران اور انڈیا سے آنے والے درآمدی اشیا سے بھرے کنٹینرزکی 100 فیصد اسکینگ کا معاملہ سامنے آیا تھا اور انہوں نے اپنی بریفنگ میں بتایا تھا کہ اس کیلیے  25 کروڑ یورو درکار ہوں گے۔

مذکورہ افسر نے بتایا کہ اس منصوبے کا بنیادی مقصد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال کو روکنا اورممنوعہ اشیا کی آمد کو روکنا ہے۔ اس کے علاوہ اس اقدام سے اشیا کی مس ڈکلیئریشن کا مسئلہ بھی حل ہوجائیگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔