پاک بھارت مقابلوں پر گرد چھائے ایک دہائی بیت گئی

اسپورٹس رپورٹر  ہفتہ 16 جون 2018
کوئی ٹیسٹ ممکن نہ ہوسکا، محدود اوورز کے چند ہی میچز کھیلے جا سکے۔ فوٹو : فائل

کوئی ٹیسٹ ممکن نہ ہوسکا، محدود اوورز کے چند ہی میچز کھیلے جا سکے۔ فوٹو : فائل

 لاہور:  پاک بھارت کرکٹ مقابلوں پر گرد چھائے ایک دہائی بیت گئی۔

پاکستان اور بھارت کے مابین آخری ٹیسٹ سیریز2007میں کھیلی گئی تھی، شعیب ملک کی قیادت میں گرین کیپس کو دہلی میں منعقدہ پہلے میچ میں شکست ہوئی، بعدازاں کولکتہ اور بنگلور میں دونوں ٹیموں نے رنز کے ڈھیر لگائے اور میچز ڈرا ہوگئے، ممبئی حملوں کے بعد پڑوسی ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہوئے۔

بھارتی حکام نے ملبہ کرکٹ پر گراتے ہوئے ابھی تک باہمی مقابلوں سے انکار کیا ہے،اس دوران صرف مختصر طرز کے میچز کی ایک سیریز 2012میں بھارتی سرزمین پر ہوئی، بی سی سی آئی نے ہمیشہ یہی جواز پیش کیاکہ ان کی حکومت اجازت نہیں دیتی۔

گزشتہ ایک دہائی میں روایتی حریفوں کی ٹیمیں صرف ورلڈکپ سمیت آئی سی سی یا ایشیائی سطح کے ٹورنامنٹس میں ہی مقابل ہوئی ہیں، محدود اوورز کی کرکٹ میں بہت کم مقابلوں کے علاوہ دنیا بھر کے شائقین پاک بھارت میچز کو ترستے دکھائی دیے۔

ٹیسٹ کرکٹ کا معاملہ اس لیے بھی گھمبیر ہے کہ اس دوران ایک بھی میچ ممکن نہیں ہوسکا، دیگر ٹیموں کی میزبانی تو پی سی بی یواے ای میں کرلیتا ہے،انگلینڈ اور سری لنکا میں بھی ہوم سیریز کے میچ کھیلے ہیں لیکن بھارتی ٹیم پاکستان تو درکنار ہوم گرائونڈز یا کسی نیوٹرل وینیو پر بھی کھیلنے کو تیار نہیں،یہاں تک کہ بگ تھری کی حمایت کے بدلے میں 6مکمل باہمی سیریز کا وعدہ کیا لیکن ایک میچ بھی ممکن نہیں ہوسکا۔

محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کیخلاف عمدہ کارکردگی دکھاتے ہوئے توجہ کا مرکزبننے والے ویرات کوہلی اور روہت شرما سمیت کئی کھلاڑی سپر اسٹاربن چکے ہیں،گذشتہ سال چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی فتح کے ہیرو فخرزمان بنے۔

روایتی حریفوں کے مقابلے ایشز سے بھی بڑے خیال کیے جاتے ہیں، دونوں ملکوں کے عوام تو ایک طرف دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کی نگاہیں ان میچز پر مرکوز ہوتی ہیں، یہ مقابلے خطے میں کھیل کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن بھارتی ہٹ دھرمی اور کھیلوں میں سیاست کو گھسیٹ لانے کے رجحان نے سب کو ان مواقع سے محروم کررکھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔