عید کب ہو گی کا سوال

عبدالقادر حسن  منگل 19 جون 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

رمضان کے بابرکت ماہ کے بعدعید الفطر بھی گزر گئی۔ انتیسویں روزے کو سرشام ہی گھر کے سب افراد یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ کل عید ہو جائے گی ۔ خواتین نے سحری کی تیاری ختم کر دی بلکہ یہ اعلان کر دیا کہ اگر کل روزہ ہو گیا تو وہ سحری نہیں بنائیں گی، ان کو شائد ہماری رویت ہلال کمیٹی کی کار کردگی کے بارے میں کچھ شبہ تھا ، اس لیے انھوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر یہ اعلان کر رکھا تھا ۔

گرد وغبار کے موسم کی وجہ سے ننگی آنکھ سے تو چاند دیکھنا ممکن نہیں تھا اور ویسے بھی شہروںمیں موسم ٹھیک بھی ہو تو گردو غبار کی ایک دبیز تہہ کی وجہ سے باریک چاند کا نظر آنا ممکن نہیں ہو پاتا اور جدید ٹیکنالوجی یعنی ٹیلیویژن پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے ۔ وہی ہوا جس کا خدشہ گھریلو خواتین کے دل ودماغ میں تھا اور تیسواں روزہ بھی رکھنا پڑ گیا کیونکہ کسی اونچی عمارت کی چھت پر کھڑا ہو کر دوربین سے چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہ تھا اس لیے ہمارے مفتی صاحب نے اعلان کردیا کہ عید ہفتہ کو ہی ہو گی۔

جب سے ہم نے اپنے دینی معاملات میںاجتہاد چھوڑا ہے تب سے آج کے جدید زمانے میں بھی ہمارے لیے بڑی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں، بلا شبہ اس بات کا حکم ہے کہ چاند دیکھ کر کسی قمری مہینے کا آغاز کیاجائے لیکن اس زمانے میں جب ایسے احکامات نافذ ہوئے تھے قمری مہینے کے آغاز کا فیصلہ کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ موجود نہیں تھا اور چاند دیکھ کر ہی فیصلہ ہو سکتا تھا مگر آج دن رات کے کسی بھی حصے میں بھی معلوم ہے کہ اس وقت چاند کہاں ہے۔

رمضان المبارک کے مہینے میں افطارو سحر کے وقت فیصلہ صبح و شام سورج دیکھ کر نہیں بلکہ گھڑیوں سے وقت دیکھ کر کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ ہر روز مطلع صاف نہیں ہوتا اور ہمارے لیے وقت کے تعین کا ایک قابل اعتماد متبادل ذریعہ یعنی گھڑی اور ٹیلیویژن موجود ہے ۔ جن ملکوں میں رات دن غیر معمولی حد تک طویل ہوتے ہیں وہاں پر بھی اجتہاد کر کے روزے کا وقت مقرر کر لیا ہے اور اگر آفتاب کے طلوع و غروب کی پابندی کریں تو اتنا طویل روزہ رکھنا ممکن نہ رہے۔

ایسے ضروری اجتہاد کی کئی مثالیں موجود ہیں مگر حیرت ہے کہ ایک نہایت اہم موقع یعنی رمضان المبارک کے آغاز اور اختتام پر ہم اجتہاد کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ ہم چاہیں تو آنے والی صدی بلکہ کئی صدیوں کا قمری کیلنڈر بنا سکتے ہیںاور عید کا دن مقرر کر سکتے ہیں ۔

یہ حکومتوں کا کام ہے اورایک مسلمان ملک کے حکمران یہ اختیار رکھتے ہیں کہ وہ خود اور مشاورت کے لیے علماء کی مدد حاصل کر یں۔مسلمان عوام کی ان مشکلات کو آسان کریں مگر ہمارے رائج سیکولر نظام میں چونکہ حکمران دین سے بے بہرہ ہوتے ہیں اور ان کے علم میں دینی سوجھ بوجھ شامل نہیں ہوتی اس لیے وہ دینی اور مذہبی معاملات میں علماء کے محتاج ہوتے ہیں اور علماء کے گمشدہ اقتدار اور اختیار کو صرف ایسے ہی چند مواقع حاصل ہوتے ہیں جب وہ اپنی حیثیت منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔

حکمران چونکہ دینی علوم سے بے بہرہ ہوتے ہیں ، اس لیے مہینہ بھر روزے رکھنے والے ان کی بات کو دل سے تسلیم نہیں کرتے اور ایک دن کی رعایت کے لیے اپنی عبادت کو مشکوک کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ان کے لیے علماء کی بات مان لینا آسان اور محفوظ ہوتا ہے ۔

سعودی عرب اور دوسرے کئی مسلمان ممالک میں عید اور آغاز رمضان کا دن مقرر ہوتا ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ شاید بات یہ ہے کہ غیر مسلم حکمرانوں کی طویل غلامی میں مسلمانوں نے اپنی ثقافت اور دینی معاملات کو محفوظ رکھنے کے لیے جو کوششیں کی تھیں ان میں یہ چیزیں شامل تھیں ۔

ہمارے بزرگوں کی یہ ہمت تھی کہ انھوں نے مسلمانوں کا جداگانہ تشخص قائم رکھا جو تحریک پاکستان اور پھر قیام پاکستان کا باعث بنا ۔ غلامی ختم ہو گئی اور آزادی مل گئی لیکن وہ صحیح مسلمان حکومت قائم نہ ہو سکی جو برطانوی غلامی کے غیر اسلامی آثار اور روایات کو مٹا سکتی اور وہ تمام احتیاطی اقدامات ختم ہوسکتے جو دارالحرب میں کیے جاتے رہے تھے مثلاً بعض علماء برطانوی دور کے ہندوستان کودارالحرب سمجھتے تھے جس میں جمعہ کی نماز نہیں پڑھی جاتی ۔

چنانچہ ہماری مسجدوں میں جمعہ بھی پڑھا جاتا اور احتیاطاً ظہر کی نماز بھی ساتھ ہی پڑھ لی جاتی تھی تا کہ یہ نہ ہو کہ ظہر کی نماز ہی فوت کر بیٹھیں ۔ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک اسلامی نظام کا نفاذ ایک مطالبہ بناہوا ہے چنانچہ بطور مسلمان ہم پاکستان کی مسجد میں داخل تو ہو گئے مگر ابھی تک اس میں عبادت کی شرائط اور آداب کو نافذ نہیں کر سکے ۔

یہی وجہ ہے کہ علمائے دین اور حکمرانوں کے درمیان مسلسل ایک کشمکش جاری ہے۔ اس چپقلش کے نتیجے میں سزا مسلمان عوام کو ملتی رہی ہے اور ہر سال عید ایک مسئلہ بن جاتی ہے اور رات گئے تک روزہ دار سولی پرلٹکے رہتے ہیں حالانکہ اس تکلیف دہ مسئلہ کا آسان اسلامی اور سائنسی حل موجود ہے، دوسرے لفظوں میں وہی حل جو البیرونی اور عمر خیام جیسے ماہر فلکیات صدیوں پہلے دریافت کر چکے ہیں اور آج کی جدید سائنس ان کی تائید کر رہی ہے۔ کیا کوئی پاکستانی یہ امید رکھ سکتا ہے کہ کہ ہمارے حکمران اسلامی قمری کیلنڈر بنا کر یہ مسئلہ حل کر دیں گے۔

رویت ہلال کمیٹی کی جگہ ماہرین فلکیات اور علماء کی ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائے جو پاکستان کے آسمان کے لیے ایک کیلنڈر طے کر دے اور اس کو ملک میں نافذ کر دیا جائے تا کہ ہمیں پہلے سے معلوم ہو کہ کس دن کون سا اسلامی مہینہ شروع ہو گا۔ میں ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ میرا مذہب اور دین ایک غیر سائنسی دین ہے، یہ ہوتا رہتا ہے کہ سائنس اپنے ایک نتیجے کے باطل ثابت ہونے پر کسی دوسرے نتیجے پر پہنچتی ہے جو  ہمارے دین کے بالکل مطابق ہوتا ہے۔

ایسی کئی مثالیں موجود ہیں ،ہمارا دین عقل سلیم کے عین مطابق ہے یہاں تک کہا گیاہے کہ جو حدیث عقل سلیم پر پوری نہ اترے، اسے درست تسلیم نہ کیا جائے۔ عقل سلیم کا ہی تقاضا ہے کہ ہم پاکستان میں ایک اسلامی کینڈر تیار کر کے نافذ کر دیں اور ہر سال کا مسئلہ طے کر دیں۔ اس کے بعد اگر مطلع صاف ہو تو چاند کو لوگ خیرو برکت اور دعا کے لیے دیکھ لیا کریں لیکن ہر پاکستانی کو معلوم ہو کہ اس کی عید کا دن کون سا ہے اور یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔