گرین بس منصوبہ فیز 1 کا انفرا اسٹرکچر مکمل، بسیں غائب

کاشف حسین  منگل 19 جون 2018
بسوں کی آمدمیں تاخیرسے ٹریک پرنصب حساس مشینری اور آلات کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی کمپنی کی خدمات لینے کا فیصلہ۔ فوٹو فائل

بسوں کی آمدمیں تاخیرسے ٹریک پرنصب حساس مشینری اور آلات کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی کمپنی کی خدمات لینے کا فیصلہ۔ فوٹو فائل

 کراچی: کراچی میں وفاقی حکومت کی معاونت سے تعمیر ہونے والا پہلا گرین لائن بس رپیڈ ٹرانسپورٹ سروس منصوبے کا پہلا فیز سرجانی تا گرومندر انفرااسٹرکچر کی تعمیر مکمل ہوگئی ہے ٹریک پر اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب شروع کردی گئی ہے اور اسٹیشنوں کی تعمیر آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے تاہم بسوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے مزید چھ ماہ تک عوام اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے۔

کراچی انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی نے جون 2018کے اختتام تک پہلا فیز مکمل کرکے سندھ حکومت کے حوالے کرنے کے لیے صوبائی حکومت کو تحریری طور پر آگاہ کردیا ہے تاہم سندھ حکومت کی جانب سے ٹریک پر چلنے والی بسوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس ٹریک کی سیکیورٹی پر مزید اضافی رقم خرچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کراچی انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی نے گرین لائن پراجیکٹ کے پہلے فیز کی سندھ حکومت کو سپردگی کے لیے تحریری طور پر آگاہ کردیا ہے تاہم سندھ حکومت کی جانب سے بسوں کی خریداری کا معاہدہ طے نہ کیے جانے کی وجہ سے بسوں کی آمد میں 6 ماہ کی تاخیر کا خدشہ ہے اس دوران اربوں روپے سے تعمیر شدہ ٹریک میں نصب حساس مشینری اور آلات کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ ٹریک کو مکمل کرکے سندھ حکومت کے سپرد کرنے کے بعد ٹریک کے آلات، لفٹ، ایسکی لیٹرز ، ایلیویٹرز اور برقی آلات سمیت اسٹیشنوں اور ٹریک کی حفاظت کی ذمہ داری سندھ حکومت پر عائد ہوگی تاہم بسوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے منصوبہ تعمیر کرنے والی کراچی انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی نے حفاظت کا ٹھیکہ سیکیورٹی کمپنی کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

گرین لائن کے ٹریک کے پہلے فیز پر 20 اسٹیشن تعمیر ہوں گے جن میں سے 14اسٹیشنوں کی تعمیر جون کے آخر تک مکمل کرلی جائے گی اسٹیشنوں کی تعمیر رمضان میں رات کے وقت جاری تھی تمام اسٹیشن 15جولائی تک تعمیر کرلیے جائیں گے۔

21کلو میٹر طویل گرین لائن ٹریک کا پہلا فیز دسمبر2017 میں مکمل ہونا تھا تاہم بورڈ آفس انٹرچینج کی تعمیر کی راہ میں آنے والے فوڈ آؤٹ لیٹس کی منتقلی، پانی بجلی گیس کی لائنوں کی منتقلی سمیت سندھ حکومت کی جانب سے گرومندر تا نمائش تک ٹریک کے ڈیزائن میں نمایاں تبدیلیوں کی وجہ سے ٹریک کی تعمیر 6 ماہ تاخیر کا شکار ہوئی منصوبے کی ابتدائی لاگت 17ارب 80کروڑ روپے تھی۔

گرومندر سے میونسپل کارپوریشن تک مزید ساڑھے 6 ارب روپے خرچ ہونا تھے فیزن ون کے دوسرے مرحلے گرومندر تا نمائش انڈر پاس کی تعمیر 80کروڑ روپے میں ہونی تھی تاہم سندھ حکومت کی درخواست پر نمائش پر انڈرپاس کے ساتھ میزنائن فلور کی تعمیر، یلو اور بلیو لائنز کے لیے پارکنگ اور گرین لائن تک منسلک ہونے کی سہولت کی وجہ سے یہ لاگت بڑھ کر 3 ارب 10کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے۔

نمائش پر تعمیر ہونے والے 140میٹر کے انڈرپاس کی طوالت بھی بڑھ کر 440 میٹر تک پہنچ گئی ہے گرین لائن منصوبے کا دوسرا مرحلہ میونسپل کارپوریشن تک جاکر ختم ہوگا اس راستے میں دو انڈر پاسز بھی تعمیر کیے جائیں گے جو تبت سینٹر اور سر آغا خان روڈ پر تعمیر ہوں گے منصوبہ کا دوسرا مرحلہ جون 2019 تک مکمل ہوگا۔

منصوبے کے لیے سرجانی ٹاؤن میں 100بسوں کی گنجائش کے لیے 8.5 ایکڑ رقبے پر بس ڈپو بھی تعمیر کیا جارہا ہے تاہم مقامی آبادی کی جانب سے کھیلوں کی سہولت کے لیے مختص اراضی بس ڈپو کے لیے فراہم کیے جانے پر قانونی اعتراض کے بعد کراچی انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی کو 2 ایکڑ رقبے پر کھیلوں کی سہولت تعمیر کرنے ہدایت کی گئی۔

اس دوران 5 ایکڑ اراضی پر ڈپو کی تعمیر شروع کردی گئی ہے جبکہ مزیداراضی کی قانونی منتقلی کے لیے کے ڈی اے کو زمین کی قانونی منتقلی کے لیے سندھ اسمبلی میں مارچ 2018 میں بل پاس کیا جاچکا ہے اور زمین کی منتقلی کا عمل جاری ہے جس کے بعد بسوں کی آمد سے قبل ڈپو کی تعمیر بھی مکمل کر لی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔