عدالتی دھماکا

سردار قریشی  بدھ 20 جون 2018

معزول وزیراعظم نواز شریف نے لندن روانگی سے دو روز قبل احتساب عدالت میں پیشی کے موقعے پر میڈیا کے نمایندوں سے جو بات چیت کی، اخبارات میں اس کی تفصیلات پڑھ کرکم ازکم مجھے تو یقین آگیا ہے کہ پاکستان نے 1998ء میں جو جوہری دھماکے کیے تھے وہ انھی کی ایما پرکیے گئے تھے اور انڈیا کے جوہری دھماکوں کا اس طرح جواب دینے کا آئیڈیا کسی اور کا نہیں بلکہ میاں صاحب کا اپنا تھا ۔ ان کی گفتگو پرکوئی تبصرہ کرنے سے پہلے آئیے پہلے آپ کو وہ خبر سنوائیں جو اس حوالے سے اخبارات میں شایع ہوئی ہے۔

انھوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر سپریم کورٹ پر الزام لگایا کہ وہ آیندہ انتخابات پر اثر انداز ہو رہی ہے کیونکہ 10 جون کو اس کی طرف سے احتساب عدالت کو چار ہفتوں کے اندر ان کے اوران کے افراد خاندان کے خلاف زیر سماعت کرپشن کے مقدمات کا فیصلہ کرنے سے متعلق دیے جانے والے حکم کی اس سے پہلے عدالتی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور جو ’’قبل از انتخاب دھاندلی‘‘ کے مترادف ہے ۔ انھوں نے کہا ’’ہرکوئی جانتا ہے کہ چار ہفتوں میں فیصلہ کرنے کے لیے دیے جانے والے حکم کا مطلب کیا ہے۔ 10 جولائی انتخابات سے کچھ ہی روز پہلے پڑے گی (جو 25 جولائی کو ہونے والے ہیں) اگر یہ قبل از انتخاب دھاندلی نہیں تو پھرکیا ہے؟ سپریم کورٹ عام انتخابات سے قبل کیس پر اثر انداز ہو رہی ہے۔‘‘

احتساب عدالت، جہاں نواز شریف میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے، 28 جولائی 2017ء کو پاناما پیپرزکیس میں سنائے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے شریف اور ان کے خاندان کے خلاف دائرکردہ چار ریفرنسز کی سماعت کررہی ہے۔ انھوں نے کہا ’’اس قسم کے احکامات جاری کرنے اورکیس کے آغاز ہی سے احتساب عدالت پر نظر رکھنے سے تو بہتر تھا کہ سپریم کورٹ خود ان مقدمات کی سماعت کرتی۔ کسی کو یہ ریفرنسز سپریم کورٹ کی اس بینچ کو واپس بھیج دینے چاہئیں جس نے پہلے یہ داخل کرنے کے لیے کہا تھا۔ میں 100 پیشیاں بھگتنے کے تکلیف دہ عمل سے کیوں گزروں۔ سابق وزیر اعظم نے کہا ’’ کسی احتساب عدالت میں رات دن سماعت ہونے کی نہ تو پہلے کوئی مثال ملتی ہے اور نہ کبھی ایسا سننے میں آیا ہے ، اگر وہ مجھے پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں تو لٹکا دیں، اگر وہ ہمیں جیل بھیجنا چاہتے ہیں تو بھیج دیں ۔‘‘

چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے جو انھوں نے عدالت سے ان (شریف ) کی استثناء کے لیے درخواستوں کے حوالے سے دیے تھے اور کہا تھا کہ ان کا مقصد شہرت حاصل کرنے کے سوا کچھ اور نہیں ، سابق وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ ان کی جانب سے استثناء کی جتنی بھی درخواستیں کی گئی تھیں وہ سب احتساب عدالت سے کی گئی تھیں نہ کہ سپریم کورٹ سے ۔ انھوں نے یہ شکایت بھی کی تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم رہنے کی حیثیت سے انھیں آج کل جو سیکیورٹی فرہم کی جارہی ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ سابق صدر پرویز مشرف کی واپسی پر تبصرہ کرتے ہوئے ، شریف نے کہا ’’ مشرف ڈکٹیٹر ہے، سیاستدان نہیں ۔ وہ 12 مئی کے المیے کا ذمے دار ہے ،اس نے مارشل لاء لگایا اور دو مرتبہ آئین توڑا، لیکن سزائے موت ہم جیسے لوگوں کے لیے مخصوص ہے،اس کے لیے نہیں۔‘‘ نواز شریف نے کہا ’’ ملک میں دہشتگردی کو ہوا دینے کی ذمے داری بھی مشرف پر عائد ہوتی ہے جب کہ انھوں نے بطور وزیراعظم اسے ختم کرنے کی کوشش کی۔ مارشل لاء لگانے والے کو تو میڈل پہنائے اور ضمانتیں دی جا رہی ہیں جب کہ تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم رہنے والے کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا جارہا ہے ۔‘‘

میڈیا کے نمایندوں سے میاں صاحب کی بات چیت کی یہ تفصیل جاننے کے بعد آپ بھی یقیناً میری طرح قائل ہوجائیں گے کہ یہ ان کی جرات اور ہمت ہی تھی جس نے پاکستان سے 1998ء میں چاغی کی سنگلاخ چٹانوں میں بیک وقت پانچ جوہری دھماکے کروائے تھے ۔ انھیں بجا طور پر ان دھماکوں کا کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے جن کے نتیجے میں سائنسدانوں اور عسکری قیادت کے بقول ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہوگیا ہے اور کوئی اس کی طرف میلی نظر سے دیکھنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا۔

میرے خیال میں میاں صاحب کی اس گفتگو کو ان کے جوہری دھماکوں کی طرح عدالتی دھماکا قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا جس کے آنے والے دنوں میں سامنے آنے والے نتائج سے پتہ چلے گا کہ ان کے اور ان کی فیملی کے خلاف زیر سماعت کرپشن کے مقدمات پر بالخصوص اور ملک کی مجموعی صورتحال پر بالعموم اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ میری ذاتی رائے میں میاں صاحب نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر جو الزامات عائد کیے ہیں وہ نہایت سنگین اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے بے حد اہمیت کے حامل ہیں جنھیں یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے تدبر اور فہم و فراست سے البتہ امید ہے کہ وہ معاملات کو بگڑنے نہیں دیں گے اور انا کا مسئلہ بنائے بغیر روایتی صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے حالات پر قابو پالیں گے ۔ غلطی کا اعتراف اس کے ارتکاب سے بہرحال زیادہ اہم ہے جس سے غلطی کرنے والے کے بڑے پن کا اظہار ہوتا ہے اور تاریخ اسے اچھے نام سے یاد رکھتی ہے ۔

لگے ہاتھوں کیس کے اس مرحلے تک پہنچنے کی عدالتی کارروائی کا حال بھی جان لیجیے ۔ ایک دن پہلے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے خود کوکیس سے الگ کرلینے کے بعد ان کی نمایندگی کرنے والا کوئی نہیں رہا۔ 12 جون کی سماعت کے دوران جب احتساب عدالت کے جج نے دریافت کیا کہ کیا شریف نے کوئی نیا وکیل مقررکیا ہے،انھوں نے کہا اتنے مختصر نوٹس پر نئی قانونی ٹیم کی خدمات حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔

انھوں نے جج کو بتایا کہ ’’خواجہ حارث نے اس کیس پر بہت محنت کی تھی، انھیں حقائق کی بہتر جانکاری تھی اور میرے لیے اس مرحلے پر دوسرا وکیل کرنا آسان نہیں ہے ۔‘‘ جج بشیر نے نواز شریف سے کہا کہ انھوں نے ابھی تک خواجہ حارث کی دست برداری کی درخواست منظور نہیں کی ہے اور انھیں (نواز شریف کو) خواجہ حارث کو منانے یا نئی قانونی ٹیم مقررکرنے کے لیے 19 جون تک کی مہلت دے دی ۔ فاضل جج نے یہ بھی کہا کہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنا وکیل کا بنیادی حق ہے ۔ عدالت نے 14 جون کو حاضری سے استثنیٰ کے لیے نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست بھی منظورکر لی۔

توقع ہے کہ مریم اور ان کے شوہر کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدرکے وکیل ،امجد پرویز، اب ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں حتمی دلائل پیش کریں گے ۔ ان کے وکیل نے بھی خواجہ حارث کی ظاہرکردہ تشویش دہراتے ہوئے کہا کہ وکلاء کے لیے زیادہ تعداد میں پیشیوں کو بھگتانا مشکل ہوگا جن کی نہ صرف دوسری مصروفیات ہوتی ہیں بلکہ انھیں دیگر مقدمات پر بھی توجہ دینی پڑتی ہے ۔انھوں نے نواز شریف کو بھی مشورہ دیا کہ وہ کیس کے اس مرحلے پر نئی قانونی ٹیم کا تقرر نہ کریں۔ ان کے بقول پہلے طے ہوا تھا کہ خواجہ حارث ایون فیلڈ ریفرنس میں ان (امجد پرویز) سے پہلے دلائل دیں گے لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے کیونکہ وہ (حارث) اپنا وکالت نامہ واپس لے چکے ہیں ۔

میں ان باتوں کو قطعا کوئی اہمیت نہیں دیتا جو خواجہ حارث کی اس مرحلے پر خود کوکیس سے الگ کرلینے کے حوالے سے گردش میں ہیں اور جن کے مطابق یہ سب پہلے سے بطور حکمت عملی مقدمہ لڑنے کے لیے طے تھا، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر نواز شریف اپنی نئی قانونی ٹیم مقرر نہیں کرتے اور خواجہ حارث بھی کیس کی پیروی کرنے کے لیے رضامند نہیں ہوتے تواحتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف زیر سماعت مقدمات کے ایک طرح کے ڈیڈلاک کا شکار ہونے کا خطرہ ہے ۔ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔