جینے کی آرزو میں کئی بار مرگئے

شاہد سردار  بدھ 20 جون 2018

حال ہی میں ایک تصویر ٹوئٹر پر دیکھنے کو ملی جس میں مشہور ٹی وی پروگرام ’’ففٹی ففٹی‘‘ کے شہرت یافتہ فنکار ماجد جہانگیر ایک لاٹھی کے سہارے اپنی گاڑی کے پاس کھڑے ہیں اور گاڑی پر تحریر ہے کہ ’’ففٹی ففٹی‘‘ کے مشہور اداکار ماجد جہانگیر فالج کے شکار ہیں، امداد کی درخواست ہے۔‘‘کچھ عرصہ قبل شہنشاہ غزل مہدی حسن کے بیٹوں نے اپنے باپ کو وہیل چیئر پر بٹھا کر اسٹیڈیم کا چکر لگا کر امداد مانگی تھی اور اب ماجد جہانگیر جو طویل عرصے سے امریکا میں مقیم تھے لیکن جو ’’لت‘‘ انھیں پڑی اس نے انھیں کہیں کا نہ رکھا۔

غورکریں مہدی حسن جیسا بین الاقوامی گلوکار جس کے بیٹوں کی امریکا میں میوزک اکیڈمیاں ہیں اور جنھیں پاکستان میں بے پناہ عروج و دولت سبھی کچھ حاصل رہا وہ اور اب ماجد جہانگیر جس نے بے پناہ شہرت حاصل کی اور امریکا میں طویل عرصہ رہا، وہ لوگوں سے امداد طلب کر رہا ہے۔ اسی طرح پاکستانی ہاکی ٹیم کے سابق گول کیپر منصور احمد بھی امراض قلب کے مقامی اسپتال میں داخل ہوکر اپنے لیے اپیل کر رہے تھے۔کراچی اسٹیج کے مشہور کامیڈین تنویر خان بھی کینسر کے عارضے میں مبتلا ہوکر مالی اعانت کے لیے سرکردہ لوگوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ فلمی صنعت کے مشہور موسیقار وجاہت عطرے بھی لاہور کے اسپتال میں حکومتی تعاون مانگتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ فنکاروں اور ہنرمندوں کو خراج تحسین ان کی زندگی میں ہی ملنا چاہیے۔ مرنے کے بعد یا لب دم جو کچھ بھی ان سے متعلق کہا یا کیا جاتا ہے وہ خود ان کے کسی کام نہیں آتا ہاں البتہ ان کے لواحقین کے ہاتھ ضرور آجاتا ہے۔ ہمارے ملک میں فنکاروں کے بڑھاپے اور ان کی بیماری میں لوگ تو ان سے دوری اختیار کر ہی لیتے ہیں، حکومت بھی انھیں نہیں پوچھتی۔ ان کی زندگی میں جب ان کو اپنی بیماری یا علاج معالجے کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کی مدد کرنے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھتا اور جب ان کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں تو ان کے لواحقین کے لیے امداد کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ایسا ہم کیوں کرتے ہیں؟ ہم اتنے بے حس اتنے لاچار کیوں ہوجاتے ہیں؟ کیا ہم اجتماعی اور انفرادی دونوں صورتوں میں ایک بھکاری قوم بن چکے ہیں؟

زندگی بلاشبہ ایک حیرت کدہ ہے لیکن حیرت جب صدمہ بن جائے تو انسان غوروفکر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ زندگی کے گلستان میں پھول اورکانٹے دونوں ہوتے ہیں، خوشیاں بھی غم بھی، کامیابی بھی اور ناکامیاں بھی۔ زندگی انسانوں سے بھی زیادہ عجیب اور بسا اوقات بہت بھیانک ہوتی ہے۔ یہ پہاڑوں کو پیس کر ذروں اور سمندرکو خشک زمین میں بدل دیتی ہے پھر خاکی انسان کی وقعت ہی کیا ہے؟ چشم فلک نے بہت سے اعلیٰ دماغ، ٹیلنٹ اور حب الوطنی کے عظیم پلندے تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوتے دیکھے ہیں جن پر سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا اور وقت کی کڑوی سچائی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ بدترین لمحات سدا ہی سے بہترین لمحات کے تعاقب میں رہتے ہیں۔ کاش اپنے اچھے وقت کے دھن (سرمائے) کو محفوظ نہ رکھنے والے جان پاتے کہ خاموش رہ کر زندگی کے تمام طوفانوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔ اپنی مفلوک الحالی یا کسمپرسی کا زبان سے تذکرہ کرکے وہ سوائے اپنی بے توقیری کے اور کچھ نہیں کر پاتے۔

غور کیا جائے تو بڑے اور نامور فنکاروں یا ہنرمندوں کی حماقت نما ’’بے اعتدالیاں‘‘ انھیں مقام عبرت یا مقام سبق بناکر دنیا کے سامنے لاکھڑا کرتی ہیں اور وطن عزیزکا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں فنکاروں اور دیگر باصلاحیت لوگوں کی اکثریت جیتے جی وفات پا جاتی ہے اور جیتے جی مر جانا زندگی کی توہین ہوتی ہے۔ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ عبادت کرنے کے لیے بہترین دن کون سا ہے؟ بزرگ نے کہا موت سے ایک دن پہلے۔ اس نے حیرت سے کہا موت کا تو وقت معلوم نہیں؟ فرمایا تو پھر زندگی کے ہر دن کو اپنا آخری دن سمجھو۔ افسوس ہم سمیت کوئی بھی زندگی کے کسی دن کو اپنا آخری دن نہیں سمجھتا۔ یہ بجا کہ ناامیدی کفر ہے لیکن خوش فہمی کفر سے بھی بدتر ہوتی ہے۔

اپنے عروج کے دور میں بدمست ہاتھی کی طرح زمین پر جھومتے اور اسے روندتے ہوئے ہمارے فنکاروں یا ہنرمندوں کو اپنے زوال کا سامان تیار کرلینا چاہیے۔ سیانے کہتے ہیں کہ ہر ہنرمند یا فنکار کو اپنے ہنر اور فن کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں ویسے بھی دلوں کی آواز سننے کا رواج کہیں نہیں صرف دماغوں کی مرضی یہاں چلتی ہے لیکن دولت کے سنہری جھولے پر جھولتے ہوئے دماغ بھی ساتھ نہیں دیتا۔ آٹے میں نمک کے برابر ہی ایسے فنکار یا ہنرمند ہوں گے جنھوں نے اپنی آخرت یا اینڈ کا انتظام اپنے اچھے وقت میں کرلیا یعنی (برے وقت کا سامنا) لیکن ایسے معتبر حوالے ہمارے اردگرد بہت ہی کم ہیں اور جو ہیں ان کی عزت کرنے کے لیے ہم عام طور پر ان کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں یا خود اپنے ہاتھوں سے ان کو مار دیتے ہیں۔

ہماری قومی یاد داشت کی عمر ویسے بھی کبھی زیادہ نہیں رہی ہے۔ اور ماضی کا جب ماتم ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم ماضی سے کچھ سبق سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ ہم ترتیب کے شدید فقدان کا شکار ہیں۔ ہم میں سے جنھیں اہم ہونا چاہیے تھا وہ اس ملک میں غیر اہم ہیں اور جنھیں غیر اہم ہونا چاہیے تھا وہ اہم ترین ہیں۔ چنانچہ پورے معاشرے کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔

بے پناہ عروج دیکھ کر بدترین زوال کا سامنا کرنے والوں پر ہی کیا موقوف۔ اکیسویں صدی کے اس دور میں 80فیصد لوگ آج بھی ایسے ہیں جن کی زندگی میں کوئی ترتیب نہیں۔ زندگی کے دامن پر ان کا جہاں ہاتھ جا پڑتا ہے وہ اسے وہیں سے بسر کرنا شروع کردیتے ہیں اور پھر شہرت کی بلندی پر پہنچنے والے کا ہاتھ اگر تھاما نہ جائے تو وہ یا تو کہیں کھو جاتا ہے یا پھر گر جاتا ہے۔ انسان ویسے بھی بڑا بے بس ہوتا ہے ہر طوفان اس پر سے گزر جاتا ہے اور اسے جھیلنا پڑتا ہے۔ اس لیے بہرطور زندگی میں ہر تکلیف برداشت کرنا سیکھنا چاہیے لیکن ذلت ہرگز برداشت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ انسان کو تکلیف نہیں ذلت مار دیتی ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ دولت اصل میں وہ ہوتی ہے جو مرنے کے بعد بھی انسان کا ساتھ دے اور اولاد وہ ہوتی ہے جو زندگی کے بعد بھی اولاد رہے۔ کسمپرسی، مفلوک الحالی میں حکومت یا دیگر فلاحی اداروں کی طرف دیکھنے اور مخیر حضرات کو پکارنے والے فنکاروں کی کمائی ہوئی دولت اور ان کے صاحب اولاد ہونے پر نہ جانے کیوں سوالیہ نشان کھڑے رہتے ہیں؟

بعض باتیں پرانی ہوتی ہیں اور نہ ہی ختم بلکہ ہمیشہ رہتی ہیں، کبھی مرہم بن کر اور کبھی زخم بن کے۔ اور انھی میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ زندگی اور عمر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ زندگی اپنوں کے ساتھ گزاری جاتی ہے اور عمر اپنوں کے بغیر گزر جاتی ہے۔

جہاں تک موت کا تعلق ہے تو موت دنیا میں مرنے والے کے آدھے سے زیادہ گناہ معاف کرا دیتی ہے، لیکن جیتے جی۔ ہاں جیتے جی مجبوری ایک ایسا آئینہ ثابت ہوتا ہے جس میں زیادہ دیر تک دیکھنے والا اپنی انا کو خودکشی کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ ویسے تو بچانے کو اب کچھ بچا تو نہیں تاہم اب بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ چاند پر پہنچنے اور خلا میں چہل قدمی کا دعویٰ کرنے والا انسان سانس لینے پر بھی اللہ کی رضا کا ہی محتاج ہے۔ انسان ہونے کے ناتے ویسے بھی ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ایک دن باقاعدہ مر جاتے ہیں۔ یہ زندگی بھر کا روگ ہے کہ روز ہر لمحہ مرنے کے بعد اپنی لاش میں سے اٹھتے ہیں اور پھر مرتے ہیں۔ اللہ آپ کی ہماری سبھی کی دشواریوں کو دور کرے، ہم سب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔