سینئر رہنماؤں کی علیحدگی سے مسلم لیگ (ن) کی مشکلات بڑھ گئیں

ارشاد انصاری  بدھ 20 جون 2018
سیاسی جماعتوں کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل زور شور سے جاری ہے۔ فوٹو: فائل

سیاسی جماعتوں کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل زور شور سے جاری ہے۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: رمضان المبارک کے اختتام کے ساتھ ہی ملک میں آمدہ انتخابات کے حوالے سے جاری سیاسی گہما گہمی میں مزید تیزی آئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل زور شور سے جاری ہے۔

کہیں پر کارکن ٹکٹ ملنے پر خوشی سے جھوم رہے ہیں اور کوئی ٹکٹ سے محروم رہنے پر سراپا احتجاج ہے۔ اگرچہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے کارکنان ٹکٹوں کی تقسیم پر پارٹی قائدین سے نالاں ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے تو ٹکٹوں کی غلط تقسیم اور دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کرکے پارٹی میں شامل ہونے والے نئے افراد کو ٹکٹ دینے کے خلاف باضابطہ احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

گذشتہ تین روز سے ملک کے مختلف علاقوں سے پارٹی ورکرز بنی گالا میں عمران خان کے گھر کے باہر ٹھیک اسی طرح سراپا احتجاج ہیں جس طرح دوہزار تیرہ کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی جانب سے مبینہ دھاندلی کے خلاف عمران خان کی جماعت پارلیمان کے سامنے سراپا احتجاج تھی اور ایک سو چھبیس روز تک شاہراہ دستور پر خیمہ زن تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان پارٹی کارکنوں کے مطالبے کو اہمیت دیں گے یا نہیں۔کیا ان کی نظر میں ووٹرز اور کارکن کی اہمیت ہے یا نہیں؟ اگرچہ عمران خان نے گذشتہ روز دو ٹوک الفاط میں کہا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر کسی سے بلیک میل نہیں ہوںگا اگر اس کے گھر کے باہر 10 ہزار کارکنان بھی جمع ہو کر احتجاج کریں تو بھی اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کروں گا۔

عمران خان نے بنی گالہ میں دھرنا دینے والے پی ٹی آئی کے امیدواروں اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے بورڈ نے جوفیصلے کیے وہ کسی صورت تبدیل نہیں کیے جائیں گے کیونکہ اگرآج چند لوگوں کی موجودگی پر فیصلے تبدیل کیے تو کل اس سے زیادہ تعداد میں لوگ جمع ہوکر آئیں گے تو وہ بھی مطالبات پیش کریں گے۔

عمران خان نے کہا کہ جن امیدواروں کو شکایات ہیں وہ درخواست جمع کرائیں اور دلائل دیں ہم ان کی درخواستوں پر نظرثانی کریں گے اور میرٹ پر فیصلے کریں گے لیکن کسی کے احتجاج پر فیصلے تبدیل نہیں کریں گے۔ سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان جو بات آج کر رہے ہیں یا جو خیال عمران خان کو اپنے گھر کے باہر چند افراد کو احتجاج کرتے دیکھ کر آیا ہے یہ خیال عمران خان کو اس وقت کیوں نہ آیا جب وہ خود ذاتی طور پر کنٹینر پر سوار ہوکر ایک منتخب حکومت کو گرانے کیلئے مجمع لئے پارلیمان کے سامنے خیمہ زن تھے۔ عمران خان کو اس وقت بھی یہ خیال آنا چاہئے تھا کہ آج اگر میں مجمع لیکر حکومت گرادوں یا گرانے کی کوشش کروں تو کل کو کوئی دوسری جماعت بھی کسی جماعت کو گرانے کیلئے یہاں جمع ہوسکتی ہے۔ مگر اس وقت عمران خان کو یہ خیال نہ آیا۔

دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما چوہدری نثار علی خان نے اپنی جماعت سے تیس سالہ رفاقت ختم کرنے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کو خبردار کیا ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں، 25 جولائی کو ہمارے مخالفین کی صندوقچیاں خالیں جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ 34 سال سے میں نے نواز شریف کا بوجھ اٹھایا، نواز شریف کا مجھ پر نہیں بلکہ میرا ان پر اور ان کے خاندان پر قرض ہے، اس جماعت کی ایک ایک اینٹ میں نے رکھی ہے، انہوں نے کہا کہ جب پارٹی بنا رہے تھے تو اس وقت 15،20 لوگ تھے جن میں سے آج ایک بھی شخص مسلم لیگ (ن) میں شامل نہیں ہے۔ چوہدری نثار کے اس بیان سے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ انھوں نے مسلم لیگ(ن) خاص طور پر میاں نواز شریف سے اپنی راہیں جد اکرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔

اس فیصلے سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف اور چوہدری نثار کے درمیان صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور اب وہ ایک دوسرے کی مخالف صف میں کھڑے ہو چکے ہیں جو پاکستان مسلم لیگ(ن) کیلئے آمدہ انتخابات اور مستقبل میں مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ دوسری طرف دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک میں انتخابی تیاریوں کے حوالے سے سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے، ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل تقریباًمکمل ہوچکا ہے، امیدواروں کے کاغذات نامزدگیوں کی سکروٹنی کا عمل آج مکمل ہو رہا ہے لیکن اس تمام سیاسی گہما گہمی میں پیپلز پارٹی کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے۔

وہ جماعت جو آج سے پانچ سال قبل چاروں صوبوں کی زنجیر کہلاتی تھی اور جس جماعت کی تمام صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی، سینٹ سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھرپور نمائندگی ہوتی تھی آج اس جماعت کو پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں پارٹی ٹکٹ لینے والا بھی نہیں مل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی اب تک کی صورتحال کو دیکھ کر محسوس ہو رہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی مزید سکڑ جائے گی۔

آئندہ انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی پیپلز پارٹی کے حصے میں نہیں آئے گا بلکہ یوں کہیے تو بے جاء نہ ہوگا کہ اگر ایم ایم اے پوری حکمت عملی کے ساتھ انتخابی میدان میں اتر جائے تو شاید پیپلز پارٹی ملک کی تیسری بڑی جماعت بھی نہیں رہ سکے گی بلکہ اب تحریک انصاف کے بعد ایم ایم اے بھی پیپلز پارٹی سے آگے نکل جائے گی۔ اس پورے سیاسی منظر نامے میں اب تک پیپلز پارٹی اندرون سندھ کی ایک قوم پرست جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ آج پیپلز پارٹی کی جگہ تحریک انصاف نے لے لی ہے اور آئندہ انتخابات میں اصل مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے مابین ہوگا اور انہی دونوں جماعتوں میں سے ایک جماعت کی وفاق میں حکومت بنے گی۔ اگرچہ یہ احتمال ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت وفاق میں تنہا حکومت نہیں بنا سکے گی لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہی دونوں جماعتیں ہی دوسری جماعتوں کے ساتھ ملکر حکومت بنائیں گی۔

ان دنوں وفاق سمیت صوبوں میں نامزد امیدواروں کے کاغذات نامزدگیوں کی جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے اور آج جانچ پڑتال کا آخری دن ہے جس میں آخری اطلاعات آنے تک قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ترپن سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوچکے ہیں۔

دونوں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے سے اس حلقے میں دلچسپ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ اسی طرح سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے بھی حلقہ این اے ون سے کاغذات نامزدگی مسترد ہوچکے ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 245 سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کردیے گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں کیا وہ کاغذات نامزدگی کی منظوری کیلئے الیکشن ٹریبونل کے سامنے پیش ہوں گے اور کیا کاغذات بحال کرا سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔