سندھ کےسرکاری اداروں میں" وائٹ کالر" سینیٹری ورکرز کی بھرتی پر پابندی عائد

عبدالرزاق ابڑو  بدھ 20 جون 2018
خوشحال گھرانوں کے نوجوانوں کی بھرتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسکولوں اور بلدیاتی اداروں میں صفائی ستھرائی کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا
 فوٹو : فائل

خوشحال گھرانوں کے نوجوانوں کی بھرتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسکولوں اور بلدیاتی اداروں میں صفائی ستھرائی کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا فوٹو : فائل

 کراچی: سابق سیاسی حکومتوں کے ادوار میں سندھ کے سرکاری محکموں بالخصوص بلدیاتی اداروں اور محکمہ تعلیم میں صفائی کے عملے کی اسامیوں پر بھی من پسند افراد بھرتی ہونے کی شکایات کے بعد صوبے کے سرکاری اداروں میں” وائٹ کالر” سینیٹری ورکرز کی بھرتی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

اس بات کا انکشاف حال ہی میں بعض بلدیاتی اداروں کی جانب سے سینیٹری ورکرز کی اسامیوں کے حوالے سے جاری کیے گئے اشتہار میں ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ٹائون کمیٹی اڈیرو لعل اسٹیشن کے چیئرمین کی جانب سے 7 جون کو ایک اشتہار جاری کیا گیا ہے جس میں 500 روپے روزانہ اجرت پر سینیٹری ورکرز کی اسامیوں کا اعلان کیا گیا ہے، مذکورہ اشتہار میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’ امیدوار وائٹ کالر نہیں ہونے چاہئیں‘‘۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ صوبہ سندھ میں سرکاری ادارے کی جانب سے سینیٹری ورکرز کی اسامیوں کے لیے ’’ وائٹ کالر‘‘ نہ ہونے کی شرط عائد کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ صوبے میں ’’وائٹ کالر‘‘ سینیٹری ورکرز کی اصطلاح اس وقت سے رائج ہوئی جب صوبے کے سرکاری اداروں بالخصوص بلدیاتی اداروں،اسپتالوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں سینیٹری ورکرز کی اسامیوں پرمن پسند اور کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا۔

یہ سلسلہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کے دور سے شروع ہوا اور پیپلز پارٹی کے 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی حکومت میں بھی جاری رہا، اس دوران بلدیاتی اداروں، اسپتالوں اور سرکاری اسکولوں میں سیکڑوں کی تعداد میں سینیٹری ورکرز کی اسامیوں پر خوشحال گھرانوں کے لوگوں کو محض اس بنیاد پر ملازمتیں دی گئیں کہ ان کا تعلق متعلقہ حکومتوں میں شامل سیاسی جماعتوں سے تھا یا پھر ان سیاسی جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے اپنے حلقے کے ووٹروں کو خوش رکھنے کے لیے نچلی سطح کی ملازمتیں بھی اپنے لوگوں میں دھڑا دھڑ بانٹ دیں، ارباب رحیم کے دور میں بڑی تعداد میں ” وائٹ کالر” سینیٹری ورکرز کو بلدیاتی اداروں، اسپتالوں اور اسکولوں میں بھرتی کرنے کی شروعات کی گئی۔

جس کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران اس وقت کے وزیر تعلیم پیر مظہرالحق کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھا گیا اور بڑی تعداد میں اسکولوں میں ایسے افراد کو سینیٹری ورکرز کی اسامیوں پر بھرتی کیا گیا، سینیٹری ورکرز کیاسامیوں پر ” وائٹ کالر” امیدواروں کو بھرتی کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان اسکولوں اور بلدیاتی اداروں میں صفائی ستھرائی کا کام تقریباً ٹھپ ہوکر رہ گیا، اس وجہ سے صوبے کے اکثر اسکولوں میں صفائی ستھرائی کا کام بچوں سے لیا جانے لگا، اسی طرح بلدیاتی اداروں میں یا تو صفائی ستھرائی کا کام پرانے ملازمین سے لیا جانے لگا یا پرانا عملہ نہ ہونے کے باعث صفائی ستھرائی کا کام معطل رہا، یہ ہی صورتحال سرکاری اسپتالوں کی بھی ہوگئی۔

سرکاری اداروں میں ” وائٹ کالر” سینیٹری ورکرز کی بھرتی کے باعث پیپلزپارٹی کے 2013 کے دور اقتدار تک سرکاری اسکولوں، بلدیاتی اداروں اور اسپتالوں میں صفائی ستھرائی کی صورتحال بدترین شکل اختیار کرگئی، سابق حکومت نے اس معاملے کا اس وقت نوٹس لیا جب یہ معاملات عدالتوں کے نوٹس میں آئے اور اعلیٰ عدالتوں کے احکام پر متعلقہ اضلاع کے ججوں نے اسپتالوں اور اسکولوںکے دورے کرکے معلومات حاصل کی، اس دوران سکھرکے ایک اسپتال کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ایک جج کے دورے کے دوران انھیں بتایا گیا کہ اسپتال میں گندگی کا ایک سبب سینیٹری ورکرز کی اسامیوں پر ” وائٹ کالر” لوگوں کا بھرتی ہونا بھی ہے جو صرف تنخواہ وصول کرتے ہیں، اس پر مذکورہ جج نے ان میں سے ایک ” وائٹ کالر” سینیٹری ورکر کو موقع پر طلب کرکے ان سے اپنی موجودگی میں گٹر صاف کرایا تھا۔

اس طرح کا ایک واقعہ عمرکوٹ میں رپورٹ ہوا تھا، ضلع تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی آزاد نوہڑیو کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ ” وائٹ کالر” سینیٹری ورکرز بھرتی کرنے کا سلسلہ ارباب رحیم کے دور اقتدار سے شروع ہوا اور پیپلز پارٹی کے دور میں بھی جاری رہا لیکن اس کی ایک وجہ سندھ میں بڑے پیمانے پر موجود بے روزگاری ہے، ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سندھ میں ایک بڑا عرصہ سرکاری ملازمتوں پر پابندی عائد رہی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوان برسوں سے بے روزگار رہے، یہ ہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں نے سینیٹری ورکرز کی ملازمت کو بھی قبول کیا، تاہم ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔