کم کم کھا ‘ مت چلا

سعد اللہ جان برق  جمعرات 21 جون 2018
barq@email.com

[email protected]

جو بات ہم ایک عرصے سے کہتے آئے ہیں اس کی تصدیق حضرت مولانا سمیع الحق نے بھی کر دی جو ایک بڑے معتبر دارالعلوم کے مدیرالمہام اور دارالافتاء کے کرتا دھرتا ہیں پورے صوبے میں ’’ حقانیہ ‘‘کافتویٰ حرف آخر ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں مومن کو ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا، یہ بات انھوں نے تو ایم ایم اے کے بارے میں کہی ہے جو ایک مرتبہ پھر ’’ پنر جنم ‘‘لے کر منصئہ شہود پر آئی ہے، ہم اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہیں گے کہ ’’ دو بار ڈسنے ‘‘سے حضرت مولانا کا اشارہ کس طرف ہے کیا وہ پچھلی مرتبہ ’’ ڈسنا ‘‘ تھا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

کیونکہ یہ ساری باتیں بڑے بڑے مونہوں کی ہیں اور ہم اپنے اس چھوٹے منہ کو ان میں گھیسڑنے سے پرہیز کریں تو بہتر ہے ۔لیکن ،’’ عامی امی ‘‘ لوگوں کی تو ہم بات کرسکتے ہیں یا یوں کہئے کہ ڈسنے والوں کے بجائے ڈسے جانے والوں کا ذکر تو کر سکتے ہیں جو دو بار تو کیا بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں اور پھر بھی اسی سوراخ میں انگلی ڈالے بغیر نہیں رہتے ۔اس سے دو باتیں لازم آتی ہیں کہ یا تو یہ ڈسے جانے والے ’’ مومن ‘‘ نہیں ہیں اور یا یہ سوراخ ہی کچھ ایساہے کہ ایک بارڈسنے کے بعد دوبارہ ڈسنے کے لیے جگہ نام اور شکل تبدیل کردیتا ہے ویسے تو یہ دونوں ہی باتیں درست لگتی ہیں  کیونکہ ’’ تالی ‘‘ صرف ایک ہاتھ سے تو بجتی نہیں اور ممکن ہے کہ صرف ’’ چکی ‘‘ ہی خراب نہ ہوں بلکہ ’’ دانے ‘‘ بھی گیلے ہوں ۔ لیکن خوف فساد خلق کی وجہ سے ہم کچھ بھی نہیں کہیں گے نہ تصدیق کریں گے نہ تردید کہ ان میں سے کونسی بات صحیح ہے اور ضرورت بھی نہیں کہ سب کچھ سامنے ہی تو ہیں ڈسنے والے بھی اور ڈسے جانے والے بھی ویسے بھی اگر تھوڑا سا فلسفہ ہم بگھاریں تو

زمیں کو سانپ اتنا ڈس چکے ہیں

کہ اب پیدا بنی آدم نہ ہوں گے

یا وہ تو سانپوں کی ایک بامبی تھی

جسے ہم اپنی ’’ آستین ‘‘ سمجھے

لیکن کچھ کہے سنے بغیر رہ بھی نہیں سکتے کیونکہ ہمارے اندر وہ محقق ہونے کی جو رگ پھڑکتی ہے اسے شانت کرنا بھی آساں نہیں۔ اب یہ بات تو طے ہو چکی ہے اور کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ گزشتہ ستر سال میں اگر یہاں کچھ ہوا ہے تو وہ یہی کچھ سوراخوں سے ڈسے جانے کا کام ہے اور یہ ہوتا رہتا ہے دنیا میں سوراخوں میں انگلی ڈال ڈال کر خود کو ڈسوانے والوں کے ساتھ ۔مگر سارا جھگڑا اس وقت پیدا ہوجاتا ہے جب اس میں ’’ مومن ‘‘ کی انٹری ہوتی ہے جس کا دعویٰ ہر کسی کو ہے تو پھر یہ بار بار ڈسے جانے یا خود کو ڈسوانا ؟ وٹ از دس ۔۔وائے ۔ یعنی ’’ چہ ‘‘؟

ہاں وہ نہیںخداپرست جاؤ وہ بے وفا سہی

جس کو ہوں دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

یہاں پر وہ منیر نیازی والی بات ہی سامنے آتی کہ ’’کچھ ‘‘ شہر دے لوگ وی ناگن سن۔ کجھ سانوں ڈسوان دا شوق وی سی

کہتے ہیں ایک بچہ کراہ ریا تھا چلا رہا تھا رو رہا تھااور ایک ہی بات کہہ رہا تھا چم ۔ چم ۔ بڑوں کو اس ’’چم ‘‘ کی سمجھ نہیں آرہی تھی، کسی نے تجویز کیا کہ ایک اور بچے کو لاکر اس کے ساتھ بٹھا دیا جائے شاید بات کچھ سمجھ میں آجائے۔ دوسرے بچے کو ساتھ بٹھا دیا گیا ۔ یہ مسلسل ’’ چم چم ‘‘ کیے جا رہا تھا، دوسرے بچے نے غور سے سنا پھر چلانے والے بچے سے ایک بات کہی جس کا اردو ترجمہ یوں ہوتا ہے کہ ’’کم کم کھا مت چلا ‘‘

یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے کھایا کرو تو پیٹ میں درد نہیں ہوگا۔ عقدہ کھلا کہ بچے کے پیٹ میں ’’ درد ‘‘ تھا ۔ ’’ چم ‘‘ کا مطلب تھا ’’ ہائے میں پٹھا ‘‘۔اور اب ہم بھی ان ’’ چم چم ‘‘ کرنے والوں یا ہائے ڈسا ہائے ڈسا کی سطح پر اتر کر یہی کہیں گے کہ سوراخوں میں انگلی نہ ڈال تو نہیں ڈسے جاؤ گے ۔لیکن یہ پھر جب بھی کوئی سوراخ دکھائی دیتا ہے اس میں انگلی ڈالے بغیر نہیں رہتے تو کیا یہ مومن نہیں ہیں حالانکہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ ’’ پکے مومن ‘‘ ہیں اور علامہ اقبال کو بھی معلوم تھا اس لیے انھوں نے مومن مومن کرکے ان کے لیے ’’ مومن ‘ کا خواب دیکھا تھا

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

عالم ہے فقط مومن جاں باز کی میراث

مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان

گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

اور بہت ساری نشانیاں ہیں جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ جو ڈسے جاتے ہیں یہ مومن ہی ہیں لیکن پھر وہی سوال کہ مومن کو ایک ہی سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جا سکتا ہے اور یہاں مومن نہ جانے کتنی بار ڈسا جا چکا ہے ۔ تو ؟ ۔ تو ؟

ہمارا اپنا ہی قول ہے کہ آج تک دنیا میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں لٹا ہے جو دوسروں کو لوٹنے کے لیے نکلا نہ ہو، سارے ہی لوگ صرف لالچ میں لٹتے ہیں اور نو سر بازوں کو پتہ ہوتا ہے اس لیے جال کے اوپر ’’ دانے ‘‘ بکھیرے رکھتے ہیں اور دام کو حتی الوسع ہمرنگ زمین بناتے ہیں ۔

خط سبزے بہ خط سبز مرا کر د اسیر

دام ہمرنگ زمیں بود گرفتار شدم

سیدھی سی بات ہے اس بچے کی کہ کم کم کھا مت چلا۔ ویسے بھی قناعت اندر سے آتی ہے باہر کہیں بھی قناعت نہیں پائی جاتی اور سب سے بڑی بات یہ کہ ’’ گدا گر ‘‘ سے مانگنے کے بجائے اس سے کیوں نہ مانگا ہے جو اصل دینے والا ہے، اس کے سوا کسی اور سے مانگنا ہی غلط ہوتا ہے کیونکہ قبرستانوں ہی میں سوراخ بھی ہوتے ہیں اور ان میں ڈسنے والے بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔