پرانے اور نئے سیاستدان

عبدالقادر حسن  جمعرات 21 جون 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

نئے پاکستان کا نعرہ لگاتے لگاتے بالآخرعمران خان یہ بات ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ان کا نیا پاکستان ان کے موجودہ نوجوان ووٹروں اور نوجوان الیکشنی امیدواروں کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔ ان کے قریبی رفقاء کار جن میں جہانگیر ترین ، شاہ محمود اور خاص طور پر برطانیہ سے پاکستان میں شرافت کی سیاست کو فروغ دینے آئے ہوئے چوہدری سرور شامل ہیں وہ اور ان کے دوسرے سیاسی پارٹی قائدین اس بات پر قائل ہو گئے ہیں کہ الیکشن میں نامی گرامی امیدواروں کے سوا بڑی کامیابی ناممکن ہے چوہدری سرور تو اس سے پہلے بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ حلقے کی سیاست کے بغیر پاکستانی الیکشن میں کامیابی بہت مشکل ہے اور حلقے کی سیاست حلقے میں پہلے سے موجود نسل در نسل سیاسی خاندانوں کی ہی مرہون منت ہے ۔

تحریک انصاف بھی اس بات پر مجبور ہو گئی کہ وہ ایسے لوگوں کو ٹکٹ دے جن کی کامیابی یقینی ہو تا کہ عمران خان ان کی بدولت وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا سکیں۔ پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے کچھ مخصوص خاندانوں کے ارد گرد ہی گھومتی رہی ہے اور ابھی تک ان کے چنگل سے آزاد نہیں ہو سکی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گھوم پھر کر وہی لوگ الیکشن میں سامنے آجاتے ہیں جن کو آپ پہلے کئی دفعہ آزما چکے ہیں یہ لوگ کبھی ایک جماعت تو کبھی کسی دوسری جماعت کی طرف سے الیکشن میں نمودار ہوتے ہیں اور عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں ۔

تبدیلی کا نعرہ بلند کرتی تحریک انصاف بھی بالآخر انھی خاندانوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے پر مجبور ہو گئی ہے اور اب الیکشن کے میدان میں جوش و جذبہ رکھنے والے تحریک کے کارکن امیدواروں کی جگہ اشرافیہ کے نمایندے ہی آپ کو زیادہ تعداد میں نظر آرہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے الیکشن لڑنے سے جیت کا تناسب بڑھ جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’’پاکستان تحریک انصاف ‘‘نے کوئی بھی خطرہ مول نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے انھی پرانے سیاستدانوں کے حق میں اپنا فیصلہ کیا اور پھر انصاف کا پلڑا ان کی طرف جھک گیا جس سے تحریک کے نوجوان کارکنان کی ایک بڑی تعداد دلبرداشتہ اور مایوسی کا شکارہے وہ اپنے دل کی بھڑاس سوشل میڈیا پر نکال رہے ہیں جب کہ چند ایک نے بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا بھی دیا ۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کے خوابوں کی تعبیر کے لیے الیکشن میں کامیابی انتہائی ضروری ہے اور مکمل کامیابی سکہ بند سیاست دانوں کے بغیر ممکن نہیں اس لیے شائد عمران خان اور ان کی پارٹی یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ الیکشن جیتنے کے لیے ان کو پرانے اور آزمودہ چہروں پر ہی بھروسہ کرنا پڑے گا تاکہ حکومت میں آکر نئے پاکستان کے خواب کی تعبیر کی جا سکے، اس بات کا فیصلہ ہونے میں ابھی تقریباً دو ماہ رہتے ہیں کہ الیکشن میں عوام کس کو بطور حکمران اسلام آباد بجھواتے ہیں ۔

عمران خان بذات خود سیاسی میدان میں تو ہیں لیکن ان کا مزاج سیاست دانوں والا نہیں وہ صاف اور سیدھی بات کرتے ہیں جس سے کئی دفعہ وہ ذاتی طور پر اور ان کی پارٹی بھی نقصان اٹھا چکے ہیں لیکن یہ شائد ان کے مزاج کا حصہ ہے اور اس عمر میں انسان میں تبدیلی مشکل سے ہی آتی ہے وہ جس ماحول میں پلے بڑھے ہیں اس کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں، وہ چاہتے تو اپنی کھلاڑی والی زندگی جاری رکھتے لیکن انھوں نے اپنی پرتعیش زندگی کو ترک کر دیا اورفلاحی کاموں کا آغاز کیا جو کہ بعد میں ان کی سیاست میں آمد پر منتج ہوا۔

سیاست کے بازار میں اور خاص طور پر پاکستانی سیاست کے پر تعفن میدان میں صاف ستھری سیاست کو پسند نہیں کیا جاتا اس لیے عمران خان بیس سال کی جدوجہد کے بعد بھی صرف ایک صوبے میں اپنی جماعت کی حکومت بنا سکے وہ بھی شائد ان کے پٹھان بھائیوں کو ان کی کوئی ادا پسند آگئی یا پھر شوکت خانم اسپتال کا کرشمہ تھا کہ انھوں نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا۔

خیبرپختونخوا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے لوگ ہر الیکشن میں ایک نئی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں اس دفعہ دیکھنا ہے عمران خان کی جماعت ’’ تحریک انصاف‘‘ کے ساتھ کیا بیتتی ہے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت نے صوبے میں عوام کے بنیادی کام جن میں صحت ، تعلیم، پولیس کلچر میں تبدیلی، پٹواری کے نظام وغیرہ کو درست کر دیا ہے اس لیے وہ خیبر پختونخوا کے عوام سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے پختون بھائی اپنی روایت کو توڑتے ہوئے ایک بار پھر انصاف کرتے ہوئے ان کو منتخب کریںگے ۔

الیکشن ایک ایسا عمل ہے جس میں امیدوار اور عوام ایک دوسرے کے سامنے ہوتے ہیں وعدے اور یقین دہانیاں ہوتی ہیں ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے نام کو الیکشن کہتے ہیں عوام اپنے نمایندوں کے وعدوں پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے ان کو ووٹ دیتے ہیں اور بعد میں ان وعدوں کے وفا ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں جو کہ اکثر و بیشتر وفا نہیں ہوتے اور مایوسی عوام کا مقدر ٹھہرتی ہے لیکن آج کل کے نئے اور جدید زمانے میں امیدوار اور ووٹرکا رشتہ بدل گیا ہے دونوں کو جدید ٹیکنالوجی نے ایک دوسرے سے قریب کر دیا ہے، بات نیت کی ہے اگر عوامی نمایندوں کی نیت درست ہو تو عوام کو خوش رکھنا کوئی مشکل کام نہیں عوام اپنے نمایندوں سے صرف رابطہ مانگتے ہیں کام کو وہ قسمت پر چھوڑ دیتے ہیں ۔

اب ایک مرتبہ پھر وہی ووٹر اور امیدوار کی کشمکش کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے، اس دفعہ تحریک انصاف تبدیلی کے نعرے کے ساتھ الیکشن مہم میں اپنا زور دکھا رہی ہے لیکن نوجوانوں کی نمایندگی اور حمایت حاصل کرتے کرتے اپنی سیاست کو جغادری سیاست دانوں کے حوالے کر بیٹھی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی اس نئی حکمت عملی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور یہ پرانے سیاست دان عمران خان کے خواب کی تعبیر میں کتنے معاون ثابت ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔