اسلامی نظریاتی کونسل، ایک جائزہ

شبیر احمد ارمان  جمعرات 21 جون 2018
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

رواں ماہ کے پہلے عشرے میں صدر پاکستان ممنون حسین نے اسلامی نظریاتی کونسل کے 9 ارکان کے ناموں کی منظوری دی ہے ۔ اس طرح کونسل مکمل ہوگئی ہے، نئے نوٹیفیکشن میں دو سابق ججزرضا خان اور منظورگیلانی کو شامل کرلیا گیا ہے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے نئے ارکان میں احمد جاوید، شفیق پسروری، افتخار نقوی، ڈاکٹر فرخندہ ضیاء،ڈاکٹر عضیل، سید انور اور حنیف جالندھری شامل ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ حکومتی عدم توجہی کے باعث اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور ممبران کی تعیناتی میں مسلسل تاخیر کے باعث کونسل عملا غیر فعال ہوگئی تھی۔آئین کے آرٹیکل 228کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے کم سے کم ممبران کی تعداد 8جب کہ زیادہ سے زیادہ 20 ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین شپ کے لیے دو یا دو سے زائد بار بھی کسی شخص کو چیئرمین بنایا جا سکتا ہے، واضح رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے پہلے چیئرمین ابو صالح محمد اکرم تھے جو 1962ء سے 1964ء تک چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے، ان کے بعد پروفیسر علامہ علاؤالدین صدیقی نے 3 مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ کی مدت مکمل کی اور وہ 1964ء سے 1973ء تک 3 بارکونسل کے چیئرمین رہ چکے ہیں اسی طرح ڈاکٹر خالد مسعود اور ڈاکٹر شیر زمان بھی 2,2 مرتبہ نظریاتی کونسل کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ مملکت خدا داد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں واضح ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن وسنت سے متصادم نہیں بن سکتا،نظریاتی کونسل کا ادارہ حکومت کو قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کے لیے رہنمائی اور سفارشات پیش کرتا ہے عمل درآمد حکومت وقت کی نیت پر ہوتا ہے۔ اس ادارے کے بعض فیصلوں یا کسی ممبر پر توکوئی اعتراض ہوسکتا ہے مگر سرے سے ہی آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کرنے کی بات کھلم کھلا آئین پاکستان سے بغاوت کے مترادف ہے۔

بدقسمتی سے گزشتہ پارلیمنٹ میں اسے ختم کرنے کی بات کی گئی تھی اور سندھ اسمبلی میں نظریاتی کونسل کو ختم کرنے کے لیے قرارداد بھی پیش کی گئی تھی۔ ایک طرف دینی جماعتیں نظریاتی کونسل اور دینی اقدار کے خلاف کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہونے دیتی ہیں تو دوسری طرف مغرب کے ذہنی غلام اور ان کے ڈالروں پر پلنے والی این جی اوز انھیں ختم کرنے کوششوں میں مصروف ہیں۔ جو لوگ کونسل کے وجود کے خاتمے کی باتیں کررہے ہیں وہ ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے پارلیمنٹ کو اسلامی قانون سازی کے لیے بھجوائی گئی 90 ہزار سے زائد سفارشات اور 20 ہزار سے زائد رپورٹس اراکین پارلیمنٹ کی عدم توجہ کے باعث ایوان کے تہہ خانوں کی نذر ہوگئی ہیں۔

کونسل ذرایع کے مطابق پارلیمنٹ کو ارسال کی گئی متعدد سفارشات میں سے صرف خواتین کے بنیادی حقوق اور بچوں کی جبری مشقت کے علاوہ دیگر سفارشات پرکوئی موثر قانون سازی نہیں کی جاسکی ہے۔ کونسل وہ آئینی ادارہ ہے جس کا کام اسلامی قانون سازی کے لیے سفارشات اور رپورٹس پارلیمنٹ کو بھجوانا ہے جب کہ اس پر قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے۔ لہٰذا اراکین پارلیمنٹ کی بھی ذمے داری ہے کہ جن سفارشات کو ضروری سمجھتے ہیں انھیں نظرثانی کے لیے کونسل کو بھجوایا جائے تاکہ ان پر قانون سازی کا عمل مکمل ہوسکے۔

یہ افسوس ناک بات ہے کہ کونسل کے قیام سے اب تک کسی حکومت نے اس کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسل کی جانب سے اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد کے لیے مشورے اور اسلامی احکام پر مبنی قانونی ڈرافٹ حکومت کو پیش کیے جانے کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا؟

اصل بات یہ ہے کہ ماضی میں تمام حکومتوں کے کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد نہ کیے جانے کے رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مقتدر طبقے ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے،وفاقی شرعی عدالت کے سود کے معاملے میں دیے گئے فیصلے پر عمل درآمد کو گزشتہ 27 سال سے ٹالا جارہا ہے، ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

آئین پاکستان کے ابتدایہ میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا ہے۔ آئین کے تحت تمام قوانین کو اسلامی روح اور قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا۔ جب کہ غیر مسلموں کے لیے ان کے پرسنل لاز کے مطابق عمل ہوگا۔ جنھیں کسی طور پر متاثر نہیں کیا جائے گا۔ ریاست ایسے اقدامات کرے گی جن کی مدد سے مسلمان اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں اور تصورکے مطابق گزار سکیں گے، ملک میں جمہوریت، آزادی، مساوات، برداشت اور سماجی انصاف ہوگا، مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں اسلامی تعلیمات اور قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں گے۔ اس مقصد کے لیے آئین پاکستان کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

ایوب خان نے 1962ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا۔ اس ادارے کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ قانون سازی کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے علمائے کرام سے مشاورت کی جائے گی۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد بھٹو حکومت نے 1973ء کو اسلامی نظریاتی کونسل کو باقاعدہ آئین کا حصہ بنا دیا۔

یاد رہے کہ 2014ء میں سینیٹ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل لوگوںکے ذہنوں میں ابہام پیدا کر رہی ہے، یہ فوجی آمر ضیاء الحق کی باقیات میں سے ہے اب اس کی کوئی ضرورت نہیں اسے تحلیل کردیا جائے۔

دوسری جانب اس وقت کے وزیر مملکت مذہبی امور پیر امین الحسنات نے کہا تھا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے 1973ء کے آئین کے قصیدے پڑھنے والے اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کرنے کی بات کیوں کررہے ہیں؟ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے کا مطالبہ غیرآئینی ہے۔ بعد ازاں 2016ء میں سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ذمے دار اسلامی نظریاتی کونسل کو قرار دیتے ہوئے اسے تحلیل کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس کمیٹی کی صدارت متحدہ قومی مومنٹ کی سینیٹر نسرین جلیل نے کی تھی۔

سینیٹر نسرین جلیل نے کہا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے خواتین مخالف اقدامات اور ان پر تشدد کو جائز قرار دینے سے عورتوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا،کونسل کی سفارشات نے معاشرے میں خواتین کے خلاف منفی تاثر پیش کیا اور ان کے خلاف تشدد پر اکسایا،ان سفارشات نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ان کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔کمیٹی کے رکن سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا اورکہا تھا کہ 1997ء میں جب کونسل نے اپنا کام مکمل کرلیا تو اب اس کے برقرار رہنے کی کوئی وجہ نہیں۔

واضح رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو تشکیل دیتے وقت کہا گیا تھا کہ ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق کیا جائے گا اور اس کام کے لیے 25 سال کی مدت مقررکیا گیا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ 1997ء کو یہ میعاد مکمل ہوچکی تھی۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ہزاروں سفارشات اور رپورٹیں پیش کیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک آئینی ادارے کو بے اثر کیوں رکھا گیا ہے؟ اس کا ذمے دار کون ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔