ٹرمپ نے غیرقانونی تارکین وطن کے بچوں کو الگ رکھنے کا فیصلہ واپس لے لیا

ویب ڈیسک  جمعرات 21 جون 2018
امریکا میں عوامی مزاحمت اور عالمی رہنماؤں کے بعد غیرقانونی تارکینِ وطن کے اہلِ خانہ ساتھ رہ سکیں گے (فوٹو: فائل)

امریکا میں عوامی مزاحمت اور عالمی رہنماؤں کے بعد غیرقانونی تارکینِ وطن کے اہلِ خانہ ساتھ رہ سکیں گے (فوٹو: فائل)

 واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیرقانونی تارکینِ وطن کے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کرکے انہیں پنجرے نما کمروں میں محصور کرنے کے کا متنازعہ فیصلہ واپس لینے کا اعلان کردیا جس کی دستاویز پر جلد دستخط کیے جائیں گے۔

یہ فیصلہ ان تصاویر اور ویڈیوز کے سامنے آنے پر کیا گیا ہے جس میں دو سے تین سال تک کے بچوں کو بھی ان کے والدین سے الگ تھلگ رکھا گیا ہے اور اس ضمن میں درجنوں روتے اور پریشان حال بچوں کی تصاویر نے عام امریکی کو مضطرب کردیا تھا۔

اس اعلان کے بعد خود امریکی صدر کے اس بیان کی بھی نفی ہوئی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ غیرقانونی طور پر امریکا میں پناہ لینے والے افراد کے بچوں کو ان کے والدین سے جدا کرنے کے معاملے میں بے اختیار ہیں اور اب انہوں نے کہا ہے کہ جلد ہی ایک حکم نامے پر دستخط کیا جائے گا جس کے تحت خصوصاً لاطینی امریکا سے آنے والے غیرقانونی تارکینِ وطن کے بچوں کو سرحد پر بنی خاص بیرکوں میں ان کے والدین سے الگ رکھا جارہا تھا۔

صدر ٹرمپ نے ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکریٹری کرسجن نیلسن سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس کا اعلان کیا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے صرف ایک روز قبل اسی پہلو کے متعلق انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کانگریس کے فیصلے سے مشروط کیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے اس ضمن میں اپنی ’زیروٹالرنس‘ پالیسی برقرار رکھنے کا بھی اشارہ دیا تاہم اب تارکینِ وطن کے بچے ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ رہ سکیں گے۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کی صفر برداشت کی پالیسی کے تحت سرحد پار کرنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن میں بالغان کو یو ایس مارشل سروسز کے تحت حراست میں لیا گیا جبکہ بچوں کو شعبہ صحت و انسانی سروسز کے تحت علیحدہ رکھا جارہا تھا۔ اس عمل سے روتے ہوئے بچوں کی ویڈیو اور تصاویر نے امریکا اور پوری دنیا کو اس متنازع فیصلے پر نظرِ ثانی پر مجبور کردیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔