عمران کا نیا سیاسی کلچر

غلام محی الدین  پير 29 اپريل 2013
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

ان کا مسکراتا چہرہ پاکستان کے حالات کا تذکرہ چھڑتے ہی سنجیدہ ہو گیا ۔کہنے لگے‘ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ آخر رب تعالیٰ نے اپنا جامع تعارف کرانے والی سورۃ کا نام سورۃ اخلاص ہی کیوں رکھا۔ مجھے بظاہر اس سورۃ کے نفس مضمون اور اس کے عنوان میں تعلق نظر نہیں آتا تھا۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے گرہ کھول دی۔ اخلاص کے ایک معنی Impartiality یعنی غیر جانبداری بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات پاک ہے جو مطلق غیر جانبداری میں یکتا ہے۔ اس سورۃ میں رب تعالیٰ نے ان باتوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جن سے ہم انسانوں کی غیر جانبداری کو قدم قدم پر خطرات لاحق رہتے ہیں اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ رب تعالیٰ ان تمام کمزوریوں سے پاک ہے۔ پھر بولے‘ یہ محض رب تعالیٰ کا تعارف نہیں اس میں ہمارے لیے بھی ا یک حکمت ہے کہ اہم ذمے داریوں کی بجا آوری میں ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ غیر جانبداری ہی انصاف کی بالا دستی قائم کرنے کی بنیادی شرط ہے۔ جس معاشرے سے غیر جانبداری اُٹھ جائے وہ آپا دھاپی اور مارا ماری کا میدان بن جایا کرتے ہیں۔

ہمارا اپنا معاشرہ بھی اسی قسم کے حالات سے دو چار ہے۔ حق یہ ہے کہ اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی میں مکمل دیانت کا اظہار ہو۔ یہ بات ہے شاعر اور ادیب امین خیال کی جنہیں ہم چاچا جی کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ پہلی جماعت سے لے کر کالج تک میرے چچا کے کلاس فیلو اور سب سے قریبی دوستوں میں سے ایک ہیں۔ جب کبھی ان سے ملاقات ہوتی ہے ملک کے حالات کا نوحہ بھی گفتگو کا حصہ ہوتا ہے۔ سورۃ اخلاص کے بارے میں ان کی باتوں نے میرے لیے ان آیات مبارکہ کو بالکل مختلف زوایۂ نظر سے دیکھنے کا سامان پیدا کر دیا۔

ریاست کے اہم ادارے اور محکمے غیر جانبدار ہوں تو قوموں کا وقار بڑھتا ہے لیکن اپنے حالات پر نظر ڈالیں تو شرمساری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ہمارے ہاں ایسا بھی ہوا ہے کہ لگثرری گاڑیوں پر بہت بھاری ٹیکس تھا۔ حکومت میں شامل ایک شخص نے سو کے قریب مہنگی گاڑیاں منگوانی تھیں۔ کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا اور 48 گھنٹوں کے لیے ٹیکس کم کر دیا گیا جیسے ہی مال پہنچ گیا پرانی شرح بحال ہو گئی۔ میمو گیٹ اسکینڈل تو ابھی کل کی بات ہے۔ ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ امریکا میں ہمارا سفیر پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے کام میں امریکی حکومت کے دست راست کا کردار ادا کر رہا تھا۔

وہ امریکی حکومت کو مشورے دیتا تھا کہ پاکستان کا ڈنک کس طرح نکالا جا سکتا ہے لیکن دنیا نے دیکھا کہ ہماری حکومت اس شخص کے لیے مری جا رہی تھی۔ اوگرا کے سابق سربراہ توقیر صادق ملک کو اسی، نوے ارب کا نقصان پہنچا گیا ہے لیکن عدالت کے بار بار کہنے کے باوجود ہماری حکومت نے اس کو لانے میں کوئی سرگرمی نہیں دکھائی۔ دوسری جانب حزب اختلاف بھی سرگوشی کے انداز میں کبھی کبھار صدائے احتجاج بلند کرتی ہے کیونکہ مستقبل میں انھیں بھی ایسی سہولت کی خواہش ہو سکتی ہے۔

گزشتہ ادوار میں ملک کے سیاہ و سفید کے مالک و مختار رہنے والی ہماری دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالیں تو ایک عجیب مضحکہ خیز صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پیپلزپارٹی نواز لیگ کو کرپٹ سیاستدانوں کا ٹولہ قرار دیتی ہے اور اپنے ادوار میں نواز لیگ پر مقدمات قائم کرتی رہی ہے۔ دوسری جانب ن لیگ نے اپنے اقتدار کے دنوں میں پیپلزپارٹی کی قیادت کو کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت خوب رگڑا دیا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ دونوں پارٹیوں کے ایک دوسرے پر الزامات کبھی کسی منطقی نتیجے پر نہیں پُہنچے۔ دونوں ایک دوسرے کو کرپٹ کہتے ہیں اور دونوں ہی بے گناہ اور معصوم بھی ہیں۔

سب مقدمات انتقامی کارروائی ہیں خواہ ن لیگ کے لوگوں پر ہوں یا پیپلزپارٹی کی قیادت پر۔ کبھی پاکستان کے عوام نے اس تماشے پر بھی غور کرنے کی زحمت گوارا کی ہے؟۔ ہمارا سیاسی کلچر اس قدر کرپٹ ہو چکا ہے کہ جب کسی سیاستدان پر واقعی قانون کا شکنجہ کسا جاتا ہے یا اس کی کسی غیر قانونی حرکت پر رد عمل کا ماحول پیدا ہونا شروع ہوتا ہے تو ہمارے سیاستدان ایک بالکل بے وقت اور انوکھے قسم کے استدلال کے ساتھ میدان میں نکل آتے ہیں۔ اور چیخ چیخ کر یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ سیاستدانوں کا احتساب عوام خود ووٹ کے ذریعے کر لیں گے۔

اس دلیل کے استعمال میں پیپلزپارٹی دوسروں سے زیادہ مہارت رکھتی ہے۔ ان بڑی پارٹیوں کے ایک دوسرے پر الزامات اور مقدمات ایک خاص حد سے آگے اس لیے نہیں جاتے کہ ان کے درمیان ’رولز آف گیم‘ طے شدہ ہیں‘ جن پر بڑی خاموشی اور دیانتداری کے ساتھ عمل ہوتا ہے۔ اگر ان الزامات کو ان کے منطقی نتیجے تک پہنچا دیا گیا تو ہماری رولنگ کلاس تو آپس میں ٹکرا کر اپنا ہی نقصان کر لے گی۔

غیر جانبداری کی ممکنہ انسانی صلاحیت کو استعمال میں لاتے ہوئے دیکھا جائے تو کہنا پڑے گا کہ آج پاکستان اپنی مختصر تاریخ میں دوسری دفعہ اپنے سیاسی مستقبل کے اعتبار سے اہم دوراہے پر کھڑا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد انقلابی تبدیلی کا پہلا موقع اس وقت آیا جب ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

بدترین دشمن بھی اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ شخص کبھی ملکی خزانے کی لوٹ مار میں ملوث نہیں رہا۔ بھٹو حقیقی معنوں میں ایک ایسی شخصیت تھی جس نے عوام کے شعور کو مہیمز کیا اور فطری سماجی ارتقاء میں لوگ جو ذہنی بالیدگی دہائیوں میں حاصل کرتے ہیں، بھٹو کی قیادت نے یہ منازل چند برسوں میں طے کرادیں۔

آج ایک مرتبہ پھر ویسی ہی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ قانون فطرت بھی یہی ہے کہ جب کوئی نظام گلنے سڑنے لگتا ہے اور تعفن ہر طرف پھیل جاتا ہے تو تبدیلی کے لیے فضا سازگار ہو جاتی ہے۔ دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ اس بات کا اقرار کیا جائے کہ عمران خان کی پی ٹی آئی پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو ہمارے تعفن زدہ سیاسی کلچر کے مقابل ایک بالکل مختلف کلچر کے آغاز کے امکانات کو روشن کر رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مایوسی اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ 99.9 فیصد لوگ لیڈروں کے بیانات کو سیاسی ضرورت سمجھتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر چلنے والی سیاسی پارٹیوں کی انتخابی مہم پر اکثر لوگ طنزیہ انداز میں ہنستے ہیں اور تلخ جملے کہتے ہیں۔

تحریک انصاف اس وقت انتخابی میدان کی وہ واحد قوت ہے جس نے بھرپور انداز میں یہ تاثر قائم کر دیا ہے کہ ایسا سیاسی لیڈر بھی ہو سکتا ہے جو اپنی کہی ہوئی بات کو پوری کرتا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ صرف 20 فیصد ٹکٹ پرانے سیاستدانوں کو دیں گے‘ تو بالکل یہی ہوا، باقی سب نئے لوگ ہیں۔ پارٹی انتخابات پر انھیں بہت ڈرایا گیا مگر عمران یہ بھی کر گزرا۔ دوسری پارٹیاں لاکھ شور مچائیں، ان کے انتخابات اور تحریک انصاف کے انتخابات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دوسری جماعتوں میں لیڈر جس کو چاہے پارٹی سے نکال باہر کرے، پی ٹی آئی میں چیئرمین دودفعہ سے زیادہ چیئرمین رہ ہی نہیں سکتا۔

یہ بات بھی پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ عمران خان کبھی مالی بدعنوانی میں ملوث نہیں رہا اور نہ کبھی آیندہ ایسا کرے گا‘ کیونکہ انسان کا کردار نہیں بدلتا۔ ایک رحم دل انسان خواہ ڈاکو کا پیشہ اختیار کر لے، رہے گا رحم دل ہی۔ عمران اپنی پوری زندگی کبھی کسی صورتحال یا شخصیت سے بلیک میل نہیں ہوا۔

اگر زندگی میں کبھی وزیراعظم بن گیا تو ایسا کسی صورت ممکن نہیں ہو سکے گا کہ کوئی وزیر یا ارکان اسمبلی کا گروہ اسے بلیک میل کرے‘ کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ ٹیم سلیکشن میں عمران نے اپنی پسند نا پسندکو کبھی ٹیم کی حقیقی ضرورت پر غالب نہیں آنے دیا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ انتخابات میں کون فاتح بن کر نمودار ہو گا، لیکن یہ بات بہرحال روشن دن کی طرح واضح ہے کہ پاکستان میں ایک نئے سیاسی کلچر کے خد و خال ظاہر ہو رہے ہیں جن کا بیج عمران نے بویا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔