مسئلہ تنخواہوں کا

نسیم انجم  پير 29 اپريل 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ایک خبر کے مطابق 400پولیس اہلکاروں کو 14 ماہ سے تنخواہیں وصول نہیں ہوئی ہیں ان کی تقرری مارچ 2012سندھ ریزرو پولیس میں ہوئی تھی۔ 580اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا تھا لیکن جن کے پاس سفارش تھی ان 180 پولیس اہلکاروں کو تنخواہیں ادا کردی گئیں باقی لوگ محروم ہیں۔

اسی حوالے سے انہوں نے قیوم آباد چورنگی پر احتجاج کیا، اب اس احتجاج کا کوئی نتیجہ نکلتا ہے کہ نہیں؟عدم تنخواہوں کے باعث ان کے گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں لیکن جب تک زندگی ہے، بھوکے شکم کو کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ چاہیے اور پھر زندگی صرف کھانے پینے تک تو محدود نہیں ہے، زیست بسر کرنے کے لیے بے شمار ضروریات ہوتی ہیں۔

جس کے لیے رقم درکار ہے، بچوں کی تعلیم تو دور کی بات ہے، علاج معالجہ اور غذا، پانی بے حد ضروری ہے ان کے بغیر زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے اور ہمارے معاشرے میں زندگیاں خطرے میں ہیں، اور بے شمار ان خطرات سے نکل گئی ہیں کہ ان کے مسائل کا واحد حل ’’اجل‘‘ ہے جو لوگوں کی تلاش میں شہر، شہر اور قریہ قریہ گشت کر رہی ہے اور زندگی کے دیے بجھا رہی ہے۔

اس بات سے ہر شخص اچھی طرح واقف ہے کہ پولیس کا محکمہ بدنام ہے، اس ادارے میں رہ کر رزق حلال کی امید عبث ہے اور اگر کوئی امیدوار محنت کی کمائی کمانا ہی چاہتا ہے اور جائز آمدنی کا خواہشمند ہے تب اس کا گزارہ اپنے ساتھیوں اور افسران بالا کے ساتھ بے حد مشکل ہے لیکن اپنے نفس پر قابو پانے والے گزارہ کر بھی لیتے ہیں اور باعزت ریٹائرڈ ہوتے ہیں یا پھر حالات دیکھ کر استعفیٰ پیش کردیتے ہیں، انہی نیک اور ذمے دار لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو غم خوار کا غم بانٹتے ہیں اور اچانک کہیں سے ملنے والی رقم ایمانداری کے ساتھ واپس کردیتے ہیں وہ انعام و اکرام کی امید صرف اور صرف اپنے ربّ سے کرتے ہیں وہ یقینا بہترین اجر دینے والا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جو غریب کی دادرسی کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں، لیکن ہیں ضرور۔

پولیس ڈیپارٹمنٹ میں راشی اور بددیانت لوگوں کی کمی نہیں ہے جن کے قصے کہانیاں ہر روز منظرعام پر آتے ہیں، پچھلے دنوں ٹی وی چینل پر مغوی لڑکیوں کے بارے میں ایک پروگرام دکھایا گیا تھا کہ کس طرح معصوم بچیوں کو اغواء کیا جاتا ہے پھر کس طرح فروخت کیا جاتا ہے، جس طرح جانوروں کو بیچا جاتا ہے، گاہک آتے ہیں، بولی لگتی ہے، حیرت اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس انسانوں کی منڈی کو چلانے والا ایک پولیس اہلکار ہی تھا جس نے چینل کے اینکر اور ان کے ساتھیوں پر راز فاش ہوجانے کی صورت میں تشدد بھی کیا۔

کیمرہ بھی چھین لیا لیکن یہ لوگ بھی اپنے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں اور دوسرا کیمرہ محفوظ رہا اور اس جگہ کی حقیقت بذریعہ چینل منظر عام پر آگئی، جرائم پیشہ افراد کو بھی پولیس کی معاونت حاصل ہوتی ہے، بغیر ان کی مدد کے جرم پروان نہیں چڑھ سکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ لیاری میں سارے گینگ وار ان ہی کے سہارے جی رہے ہیں۔دندناتے رہتے ہیں۔

رشوت اور ناجائز آمدنی کے طالب لاکھوں روپے ملازمت کے لیے رشوت دیتے ہیں، اگر ان کے اپنے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی ہے تو دوست احباب سے قرض کے طور پر لیتے ہیں کہ جیسے ہی نوکری ملے گی ان کے اور ان کے خاندان کے وارے نیارے ہوجائیں گے، رہا قرض۔۔۔۔وہ تو چند روز میں ہی ادا ہوجائے گا، باقی زندگی ٹھاٹھ سے گزرے گی، اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی زندگی گزرتی تو ٹھاٹھ سے ہے ہی لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں ’’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘۔

ان لوگوں کو اس بات کی پرواہ ہی نہیں کہ ایک دن اپنے اعمال کے بدلے بہت سے دکھ اٹھانے پڑیں گے۔ دنیا سے محبت کرنے والوں کو بے شک دنیا مل جاتی ہے چونکہ جو شخص جو چاہتا ہے اس کی خواہش اللہ پوری کردیتا ہے۔

پولیس اہلکار رشوت لینے کی وجہ سے بھی بے حد بدنام ہیں، اگر کچھ غلطی ان کی ہے تو کچھ حکومت کی بھی کہ فورسز کے ملازمین اپنی جان پرکھیل کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں لیکن ان کی خاص طور پر پولیس اہلکاروں کی تنخواہیں بے حد کم ہوتی ہیں وہ اس قلیل آمدنی سے پیٹ کا جہنم بجھائیں یا گھر کا کرایہ اور اپنے خاندان کی کفالت، علاج معالجہ اور تعلیم پر خرچ کریں، ان حالات میں انہیں کیا کرنا چاہیے؟ صبر اور شکر، جائز آمدنی کی کوشش، چھوٹی موٹی تجارت، خواہ وہ کریانہ اسٹور ہو یا آلو چھولے کا ٹھیلا ۔

یا پھر رشوت لینا اپنا حق سمجھ کر راہگیروں کو لوٹنا شروع کردیں، گھناؤنے کاموں میں ملوث ہوجائیں، کسی کی بیٹی کا سودا کرتے وقت اپنی بیٹی کو بھول جائیں، کسی کے مکان اور جائیداد کو محض طاقت کے بل پر حاصل کرنا اپنی وردی کی شان سمجھیں اور اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کریں۔ ضمیر کو سلا کر برے کام کر تو لیتے ہیں لیکن انجام بہت جلد سامنے آجاتا ہے مکافات عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ عہدیدار ازسرنو اس ادارے کو سدھارنے کی کوشش کریں اور ایسے اصول وضوابط مرتب کریں کہ جن کی رو سے ایک معمولی پولیس اہلکار کو اتنی تنخواہ ملے کہ اس رقم سے اس کے خاندان کا بہترین گزارا ہوسکے۔

ورنہ ان بے چاروں کو جب پیسے کی ضرورت یا طلب پریشان کرتی ہے تب ٹریفک پولیس کے اہلکار بے مقصد شہریوں، کار اور بس ڈرائیوروں کو تنگ کرتے ہیں اور اکثر اوقات 20-10 روپے لے کر چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر چالان اور جرمانہ کرنے کا حق واپس لے لیتے ہیں، کاغذات پورے ہوں یا نہ ہوں، انہیں مطلب نہیں، انہیں رقم سے مطلب ہے۔ اس طرح پورا دن یہ چار، پانچ سو آسانی سے کمالیتے ہیں اور اسی اوپر کی آمدنی سے مہنگائی کے زہر کو ختم کرتے ہیں اگر نہ ختم کریں تو گرانی ان کے خاندان کی جان لے لے۔

ایک بڑی ہی پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ یہ دینی و دنیاوی تعلیم سے ناآشنا ہوتے ہیں، بھرتی کرتے وقت ڈگری کے ساتھ ساتھ ان کا زبانی ٹیسٹ، میڈیکل چیک اپ جس میں نفسیاتی ڈاکٹر سے معائنہ بھی شامل ہو۔ 14ماہ، تھوڑا عرصہ نہیں ہوتا، بھوک کی تکلیف تو ایک وقت کا کھانا کھانے کے بعد ہی محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے اور تین وقت گزرنے کے بعد اس اذیت میں اضافہ شروع ہوجاتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا ہے، مایوسی بھی عروج پر پہنچ جاتی ہے یہ مایوسی ہی تو ہے جو انسان کو خودکشی کرنے کا راستہ دکھاتی ہے۔ پریشان حال شخص نہ کہ خود مرتا ہے بلکہ اپنے گھر والوں کو موت کی اندھیری قبر میں دھکیل دیتا ہے اور صبح اخبار کی زینت بن جاتا ہے اور بس۔

ان پولیس اہلکاروں کو اعلیٰ افسران بلاول ہاؤس تک لے کر گئے لیکن یہ کہہ کر بار بار ٹالا گیا کہ بینک میں اپنا اکاؤنٹ پہلے کھلوا لو، اب اکاؤنٹ سے تنخواہوں کا کیا تعلق؟ ضرورت مند کو تنخواہ ویسے بھی دی جاسکتی ہے وہ لوگ جس طرح چاہیں حفاظت کریں یہ مسئلہ حکومت کا نہیں ہے۔ مزدور کا پسینہ گرنے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کردی جائے یہ سب سے بہتر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔