کراچی میں بے ہنگم اور غیر تکنیکی تعمیرات گرمی کی اہم وجہ ہیں، ماہرین

سہیل یوسف  جمعرات 21 جون 2018
پاکستان کے ممتاز کیمیاداں ڈاکٹر محمد اقبال چودھری سیمینار سے خطاب کررہے ہیں۔ فوٹو: بشکریہ آئی سی سی بی ایس

پاکستان کے ممتاز کیمیاداں ڈاکٹر محمد اقبال چودھری سیمینار سے خطاب کررہے ہیں۔ فوٹو: بشکریہ آئی سی سی بی ایس

کراچی: کسی منصوبہ بندی کے بغیر اور بے ہنگم تعمیرات کی بنا پر کراچی عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے اور شہر میں ہونے والی شدید گرمی کے واقعات میں ان کا اہم کردار ہے۔

ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی میں شعبہ جغرافیہ کے میریٹوریس پروفیسر جمیل حسن کاظمی نے ’ سائنسی ابلاغ کی اہمیت‘ پر منعقدہ نصف روزہ سیمینارمیں کیا۔ پروفیسر کاظمی نے ماحولیاتی تحقیق میں کم خرچ ڈرون پر اپنی پریزنٹیشن میں کہا کہ کونو کارپس کے ماحول دشمن ہونے کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں البتہ اس کی گہری جڑیں انفرا اسٹرکچر کے لیے نقصان دہ ہیں۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر کونو کارپس درخت ہٹانے کی احمقانہ مہم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کونو کارپس کو تباہ ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے اسے کاٹنے کے لیے ٹمبر مافیا سرگرم ہوچکی ہے۔

جمیل حسن کاظمی نے کہا کہ کراچی کی تاریخ کا گرم ترین دن 9 مئی 1938ء تھا جب شہر میں 47 درجے ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت نوٹ کیا گیا۔ انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ کونوکارپس کراچی میں گرمی کی حالیہ لہر کی وجہ بنا۔ انہوں نے جامعہ کراچی میں شہری منصوبہ بندی، درختوں کی شناخت، گرمی کی لہر اور دیگر امور میں ڈرون کے ذریعے کی گئی اپنی تحقیقات سے بھی شرکا کو آگاہ کیا۔

قبل ازیں جامعہ کراچی میں واقع بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی اور حیاتیاتی علوم (آئی سی بی بی ایس) کے سربراہ ڈاکٹر پروفیسر محمد اقبال چوہدری نے بتایا کہ سائنسی تحقیق سے جان لیوا امراض کو شکست دی گئی۔ زراعت میں انقلاب پیدا کیا گیا ہے اور انسانی اوسط زندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بایوٹیکنالوجی، تھری ڈی پرنٹنگ، نینوٹیکنالوجی اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ (جینیٹک موڈیفائڈ) اجناس مستقبل کی حیرت انگیز ٹیکنالوجیز میں شامل ہیں۔

انہوں نے سائنسی تحقیق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سائنس انسانوں میں برابری کے مواقع فراہم کرتی ہے اور اس سے غربت کے خاتمے میں مدد ملتی ہے۔ پاکستان میں میڈیا کے سائنس بیزار اور غلط رجحان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس پانی سے چلنے والی کار کے جھوٹے دعوے کو ایک غیرمعمولی کارنامے کے طور پر پیش کیا گیا ۔ سائنسی اصول اس کی اجازت ہی نہیں دیتے کہ کم توانائی والے پانی سے اتنی توانائی بنائی جاسکے جس سے ایک کار کو دوڑانا ممکن ہوسکے۔

سائنسی صحافت سے وابستہ سینئر صحافی اور ایکسپریس اردو ویب سائٹ کے بلاگ ایڈیٹر علیم احمد نے مفصل انداز میں سائنسی صحافت، ابلاغ اور سائنسی معلومات پہنچانے کے مروجہ طریقوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سائنس پر لکھنے والوں کو چاہیے کہ پہلے وہ مضمون یا خبر سے اچھی طرح واقف ہوں اور پھر اسے آسان اور غیرتکنیکی زبان میں پیش کریں۔ اگر اس ضمن میں ادب، اشعار اور دیگر مثالیں استعمال کی جائیں تو سائنسی معلومات کا بہتر اظہار ہوسکتا ہے۔

اس کے بعد ایکسپریس اردو ویب سائٹ سے وابستہ فیچر ایڈیٹر سہیل یوسف نے کہا کہ پاکستان میں خاندان در خاندان باہمی شادیوں سے ان گنت جینیاتی اور لاعلاج مسائل سامنے آرہے ہیں جن کی آگہی کے لیے ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائنسی صحافت کو کئی پیچیدہ مسائل کے حل میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سائنسی تحقیق اور معلومات صبر اور بردباری سکھاتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ہر جگہ موجود شدید رویوں اور شدت پسند رجحانات کا واحد حل سائنس کے فروغ میں مضمر ہے۔

یہ سیمینار بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی اور حیاتیاتی علوم ( آئی سی سی بی ایس) اور  پاکستان بایو ٹیکنالوجی انفارمیشن سینٹر (پابک) کے تعاون سے منعقد کیا گیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔